نئی دہلی کے ملک کے نئی
دارالحکومت بننے کے بعد یہ 1931 کی دہائی تھی جب ملک میں سینما گھروں نے
اپنی جگہ بنانی شروع کی اور 40 کی دہائی آتے آتے تو لوگ فلموں کے گویا
دیوانے ہی ہو گئے۔اسی دور میں نئی دہلی کے کناٹ پلیس میں پہلے سنیما گھر
ریگل نے اپنے وجود کا احساس دلایا۔1940 کی دہائی میں کناٹ پلیس میں پلازہ ،
ریگل ، ریوولی ، اوڈین جیسے سنیما گھر قائم کئے گئے جو آج بھی اپنی مقبولیت
برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اسی دوران انڈین ٹاکی ہاؤس بھی بنایا گیا تھا لیکن
یہ تھوڑے وقت بعد ہی بند ہو گیا۔ ان سنیما گھروں کی بدولت ہی کناٹ پلیس
تفریح کا مرکز بن گیا اور انہوں نے سنیما گھروں کی چہل پہل میں چار چاند
لگا دیئے۔
ریگل سنیما گھر میں گزشتہ 34 سال سے انتظامیہ کا کام کاج دیکھ رہے پی ورما
نے اس تاریخی سنیما گھر کی تاریخ کے بارے میں معلومات دیتے ہوئے ذرائع
ابلاغ کو بتایا کہ 1932 میں کھلا ریگل سنیما گھر کناٹ پلیس کا پہلا سنیما
گھر تھا جسے سر سوبھا سنگھ نے کھولا تھا اور آرکیٹیکٹ والٹرا سکائز جارج نے
اس کا ڈیزائن تیار کیا تھا۔ابتدا میں اس کی قیام اسٹیج پروگراموں کیلئے کیا
گیا تھا لیکن وقت گذرنے کیساتھ ساتھ ریگل میں مغربی کلاسیکی موسیقاروں نے
اپنے پروگرام پیش کرنے شروع کردئے اور ریگل روس کے رقص ’رشین بیلے‘ اور
برطانوی ڈراموں کواسٹیج پر پیش کرنے کی وجہ سے مقبول ہو گیا۔
انہوں نے بتایا کہ یہ وہ دور تھا جب ریگل میں بڑے قدآور لیڈر اور راجے
رجواڑوں کے لوگ اپنی اپنی شاہی بگھیوں اور مہنگی امپورٹڈگاڑیوں میں آتے تھے
اور یہاں سجنے والی محفل کناٹ پلیس کی’ شان‘ کو مزید بڑھا دیتی تھی۔کافی
عرصے کے بعدکہیں جا کر ریگل میں صبح کے شو اور میٹنی شو میں فلمیں بھی
دکھائی جانے لگیں۔ ریگل سنیما گھر میں معزز لوگوں کیلئے لابی میں ایک بار
ہوتا تھا اور عورتوں کیلئے خاص میٹنی شو چلایا جاتا تھا۔اس زمانے میں گن ود
دی ونڈ نے کئی مرتبہ یہاں آکرایوارڈ جیتے تھے اور ایک سال بعد ہی امریکہ کے
بعدہندوستان میں اس کا پریمیئر 1940 میں ریگل تھیٹر میں ہوا تھا اور دنیا
کے دیگر تھیٹروں کی طرح یہاں بھی اس نے کامیابی کے سارے ریکارڈ توڑ دئے
تھے۔ شاہی خاندانوں کے لوگ اور برطانوی افسران اور جانی مانی ہستیاں اس فلم
کو دیکھنے کے امڈ پڑی تھیں۔
مورخ آر وی اسمتھ نے بتایا کہ اس زمانے میں کناٹ پلیس کے سنیما گھروں میں
برطانوی حکام اور راج گھرانوں کے لوگوں کیلئے ہالی ووڈ کی فلممیں ہی لگائی
جاتی تھیں۔ انہیں 1960 سے پہلے خود یاد نہیں کہ کبھی کناٹ پلیس کے سنیما
گھروں میں کوئی ہندی فلم لگی ہو۔اسمتھ نے کہا کہ ریگل کے بعد دوسرے نمبر پر
کناٹ پلیس میں پلازہ سنیما گھر 1940 میں کھلا جسے خود کناٹ پلیس کے آرکی
ٹیکٹ سر رابرٹ رسل نے ڈیزائن کیا تھا۔ آج شاید ہی کوئی اس بات کو جانتا ہو
کہ پلازہ سنیما گھر کے مالک اور کوئی نہیں بلکہ اپنے زمانے کے محترم اور
محبوب اداکار ہدایت کار سہراب مودی تھے۔ 1950 کی دہائی کے آغاز تک وہ اس کے
مالک رہے۔مشہور و معروف ادیب محترم سجاد حیدر یلدرم کی صاحبزادی، دانشور
ادیبہ قرةالعین حیدرکے 4ناولٹ میں اس کا کچھ خاکہ بھی نظر آتا ہے ۔ریوولی
اس وقت ریگل کی بغل میں علاقے کا سب سے چھوٹا سنیما گھر ہوتا تھا۔ نصف صدی
گزر جانے کے باوجود یہ سنیما گھر آج بھی اپنا وجودقائم رکھے ہوئے ہیں جبکہ
پرانی دہلی کے متعدد سینما گھر جن میں جگت مچھلی والان‘منرواحوض قاضی ‘
میجسٹک فوارہ چاندنی چوک‘ جوبلی پرانی دہلی ریلوے اسٹیشن بھی شامل ہیں۔اس
دوران ان کی شکل و صور ت اوررنگ روپ اور مالکانہ حق سب بدل گئے ہیں۔
پلازہ اور ریوولی کو ملٹی پلیکس سنیماکی دنیا کے بانی پی وی آر سنےماز نے
خرید لیا ہے۔بالکل اس طرح جیسے ان دنوں خوردہ بازار میں غیر ملکی سرمایہ
کاری کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ اوڈین ریلائنس
بگ پکچر کا مشترکہ انٹرپرائزز ہے لیکن ریگل کا ابھی کارپوریٹیر نہیں ہوا ہے
جبکہ اردو صحافت میں بھی کارپوریٹ گھس آئے ہیں۔منروا کی جگہ میٹرو اسٹیشن
اور میجسٹک کو گوردوارہ سیس گنج نے خرید لیا ہے۔ اس کے ’مین ہال‘Main Hall
میں آج بھی یہاں کبھی سنیما دیکھنے آنے والے نامور افراد کی تصاویر اور
بیتے زمانے کی شہرہ آفاق بلاک باسٹر فلموں کے پوسٹر گزرے زمانے کی یاد
دلاتے ہیں جبکہ پرانی دہلی کے متعدد مقامات پرلگنے والے ہاتھ سے بنے ہوئے
بڑے بڑے پوسٹر اور تصاویر قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔اور بنیں بھی کیوں نہیں
جبکہ موبائل فون‘ آئی پیڈ‘ لیپ ٹاپ‘ کمپیوٹر اور ٹی وی کے ذریعے ان کا
پھیلاؤ اور چلن اس قدر عام ہوچکا ہے کہ ان کے زہر سے بچناخصوصا اس پر فتن
دور میں ہر کسی کے بس کی چیز نہیں رہ گئی ہے۔ |