تحریر : محراب شاہ کاظمی
سری نگر سے جناب گیلانی صاحب پھر دوسرے روز نیشنل کانفرنس کے جناب انہیں
قریشی صاحب کے بیانات شائع ہوئے جب شیخ عبداللہ یہاں آئے تھے ایسا ماحول نہ
تھا ہاں اگر سارے کشمیر کے لیے ہیں تو اچھی بات ہے سارا ماحول خراب ہونے
میں ان کا کلچر ہی مسلمانوں کے لیے وبال جان بن چکا ہے ، پھر دیکھیں میں
اداریہ سنتا رہتا ہوں ، VOA کا اور اداریہ دیکھا ہمقدم کا پھر یہ خبر کہ
گریڈ نمبر 17 میں پر اسرار تقرری اور دیکھیں تقرریاں ہونگی بڑے لوگوں کے
بڑے کام ہوتے ہیں اور دیکھا جا رہا ہے میمو این آر او ۔ مسئلہ یہ ہے کہ
حقداروں کو حق نہ ملے گا تو افراتفری رہیگی ، چونکہ سکون کے لیے مساضد تھیں
اب کلب ہیں سیاست میں بڑے بڑے شیخ چھپے ہوتے ہیں اگر فنڈز مل جائیں تو دو
سال میں تعمیر نو پروگرام مکمل ہو سکتا ہے لیکن زلزلہ کے بعد کے عرصہ میں
کیا ہوا جہاں پر دارالخلافہ کے قریب دیہات کے سکولوں کی دیواریں کھلے آسمان
تلے پریشان ہیں دوسری پریشانی کی وجہ کچھ جناب فضل الرحمان نے میمووالے کے
بارے میں بتائی اور بھی کئی ہونگے ، کوشش کریں تو نکل آئیں گے لیکن طاقت کا
مقابلہ درود شریف کے بغیر ممکن نہیں جسطرح میڈیا پر علماءکرام مباحثے فرما
کر لوگوں کو علم کی روشنی سے مستفید کر رہے ہیں ذاکرین بھی اور عاملین بھی
ایسے ہی ہوں تو دجالی قوتیں دب سکتی ہیں پھر یہ فرمان کہ ایک لاکھ سے زیادہ
کشمیریوں کا خون ہو چکا ہے بھائی صاحب جو آزاد ہیں ، انہوں نے ان کے لیے
کیا کیا صرف اعلان کیا کر سکیں گے ، ہم نے تو شہید کے لیے گواہ کا ترجمہ
پکاکر لیا ہے ۔ لیکن شہید کی جو موت وہ قوم کی حیات ہے اسوقت بھی یہی حالات
تھے کہ کرب و بلا والے آئے تو جائیں قربان کر گئے اب بھی وہی کردار تقاضا
کر رہا ہے مسلمانوں کو ادھر ادھر دیکھ لینا چاہیے کہ مسلمان کے روپ اور وہ
لوگ تو نہیں جو اسلام کے لیے خطرہ ہوں ، بس ایک دوسرے کے پیچھے دن رات
گناہوں کی تفصیل بیان کر نے سے طاقت ضائع کرنے کی بجائے ان کا مقابلہ کرنے
کے لیے وقت بچائیں اور پاک پرودگار سے مدد کی اپیلیں کرتے رہیں حاکم بھی
تعاون کریں گے آپ یا جماعت کھڑے ہوں تو قبضہ گروپ کو پکڑیں سرغنہ کو نہ
پکڑیں کام کے ہتھیار ہوتے ہیں یہ کوئی ہتھیار نہیں چلا سکتا ۔
وہ آغا شورش تھے جن کی باتیں ۔ رنگ لاتیں تھیں نیک زمانہ تھا ۔ کچھ خوف خدا
تھا اب گیا کام پسندیدہ نا پسندیدہ شخصیات پر توانائیاں ضائع کی جا رہی ہیں
فاروق لون صاحب نے کچھ خبروں کی تشہیر کی باقی بھی شاید دوسری کہ سمجھ
آنیوالی بات کہ کس نے بتایا کہ مزاروں میں یا ان کی قبروں کیساتھ امریکہ کا
تعلق ہے ، یہ عجیب معرفت نظر آتی ہے ، بھائی صاحب کام کرنا ہے تو ایسے کریں
جیسے چین میں پانچ بیورو کریٹس کو اجلاس کے دوران اونگھنے اور اخبار پڑھنے
پر معطل کر دیا گیا کام کو جو زمین پر نظرآئیں نہ کہ ہر سال ہزاروں پودے
لگائے جاتے ہیں پھر ہر سال لیکن نظر نہیں آتے ، ان کو لڑکپن میں ہی نذر لگ
جاتی ہے ۔ میں نے خبریں اخبار کے کالم ( شوکت جنجوعہ ، نقطہ نظر ) پر
نظرڈالی اور تفصیل پڑھ کر نیند اڑ گئی اور فیوزش کنڈیشن میں کھانا ہی بھول
گیا اور بھی کسی نے پڑھا تو ہوگا اللہ تعالٰی ہمارے حال پر رحم کرے مستقبل
کا علم نہیں کیا ہونے والا ہے ، اگر باہر سے کوئی آئے کہ دیہات میں پانی یا
دیگر سہولتیں دیں گے ، تو بڑے بڑے اپنے مکان بے حساب کرایہ پر دیں اور ان
کو قیمتی گاڑیاں فراہم کریں گے ، تو سرمایہ ختم اور مخصوص لوگوں کو فائدہ
بنیادی مسائل ڈھیر آخر کب تک سنا تھا کہ 1947میں درانی صاحب نے افغانستان
میں پہلا جرگہ بلایا تھا اب پھر جرگہ یاد آیا کہ بھینس چوری میں 120لوگوں
کا قتل کیا اس پر پھر جرگہ ہو گا یا موسم کا خدا حافظ جب تہذیب نہ تھی امن
تھا تہذیب دی امریکہ نے ہائی جیک کر کے اربوں کا اسلحہ بھی بیچ کر منافع
کمایا اور مسلمانوں کو ہی لڑا کر دوایا ، جھگڑا کوئی نہیں ہندوستان کی زمین
اچھی ہے صرف ۔۔
میں تو نشے میں ہوں آپ مشورہ دیں
کہاں سے شروع کروں کہاں ختم کروں
میں پڑھتا ہوں کالم تا کہ کالم نگار بن سکوں عرصہ گزر گیا خدام الدین اور
چٹان والے پہلے خواب میں آتے تھے اب رک گئے ہیں ۔ بس میں ان کی تلاش میں اک
سوال کا جواب چیار کہانی کو پڑھتے پڑھتے خوابوں کی دنیا میں چلا گیا جہاں
تحریر کے آخر میں سوال دہرایا گیا ماٹن کے ساتھ ساتھ رہا جہاں ایک لیڈر نے
عربوں سے مخاطب ہو کر کہا تم سب اسلام کے فروغ میں رکاوٹ ہو اس لیے تمہارے
پاس تیل ہے تم تیل لیکر اسلام سے نکل جاﺅ تا کہ وہ لوگ بھی اسلام میں داخل
ہو سکیں جو امن سکون ، اخوت و محبت اور انقلاب کے طلبا گار نہیں ، کہانی کا
اثر ہم پر کیوں ہو گا کہ ہم ہوش و خواص کے مسئلہ پر خود ہی رکاوٹ ہیں لیکن
سانس کی آخری ساعت پر انصاف یاد آیا تو کیا فائدہ پہنچانے والوں کو جلدی
ہوتی ہے ، نظام کائنات میں اوپر والی مخلوقات کی شکلیں اسی لیے اشرف
المخلوقات سے نہیں ملتی
باہر سے مضبوط دکھائی دیتا ہوں ۔
اندر سے ٹوٹا ہوں غم کی شدت سے
خواب تعمیر میں بدلتا ہے
اس میں لیکن زمانہ لگتا ہے ۔ |