اولیاءکرام کے واقعات میں تحریر
ہے کہ رات کا وقت تھا عراق کے اُجاڑ اور بیابان صحرا میں خدا کا ایک نیک
بندہ دنیا ومافیہا سے بے خبر اللہ کی عبادت میں مشغول تھا یہ کوئی عام آدمی
نہیں بلکہ تمام ولیوں کے سردار شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ تھے آپ عبادت الہیٰ
میں مصروف تھے کہ یکایک آپ نے ایک روشنی دیکھی جس سے سارا آسمان روشن ہوگیا
اور پھر آپ نے ایک آواز سنی ”اے عبدالقادر میں تیرا رب ہوں میں تیری عبادت
سے راضی ہوا اور آج سے تجھے اپنی ہر قسم کی عبادت کی تکلیف سے آزادکرتاہوں
“شیخ القادر جیلانی ؒ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے یہ آواز سن کر اپنے باطنی
او رظاہری علوم پر توجہ دی تو مجھے اس آزادی کا کوئی بھی جواز دکھائی نہ
دیا اور میں نے سوچا کہ حضور نبی کریم ﷺ کے اس عظیم مرتبے کے باوجود بھی آپ
کو عباد ت کی تکلیف سے آزادی نہیں ملی تو پھر دوسرا کوئی انسان کس طرح اس
معاملے میں معافی کاحقدار ہوسکتاہے یہ خیال آتے ہی میں نے فوراً بلند آواز
سے لاحول ولاقوة الا باللہ العلی العظیم پڑھا تو فور اً شیطان مردود اپنی
اصلی حالت میں میرے سامنے آگیا اور مجھ سے کہنے لگا ”اے عبدالقادر میں نے
اس سے پہلے بے شمار عبادت گزاروں کو اسی طریقے سے گمرا ہ کیاہے مگر آپ اپنے
علم کی وجہ سے بچ گئے ہیں “شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں کہ شیطان
مردود کی یہ بات سن کر میں نے پھر لاحول پڑھا اور کہا اے لعین دفع ہوجا میں
اپنے علم کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ کی مدد اور فضل وکرم کی وجہ
سے محفوظ رہاہوں اس پر شیطان مردود اپنا سر پیٹنے لگا اور کہنے لگا اے
عبدالقادر میں آج آپ سے بالکل مایوس ہوگیاہوں اور آئندہ کے لیے آپ پر اپنا
وقت کبھی ضائع نہیں کروں گا کیونکہ مجھے پتہ چل گیاہے کہ یہ بیکار جائے گا
شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے فرمایا اے مردود مجھے تمہاری کسی بات کا یقین
نہیں ہے میں تو ہمیشہ تمہارے مکر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتارہتاہوں ۔
قارئین برطانوی ہاﺅس آف لارڈز کے تاحیات رکن لارڈ نذیر احمد نے اس ہفتے ہاﺅس
آف لارڈز میں ایک تاریخی تقریر کی اس تقریر میں انہوں نے سعودی عرب میں
موجود شہنشائیت کے نظام کو کھول کررکھ دیا لارڈنذیر احمد نے اپنے خطاب میں
تمام لارڈز سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ اسلام اور حضور نبی کریم ﷺکی تعلیمات
تو یہ تھیں کہ خواتین کو اسلامی معاشروں میں اپنا کردار اداکرنے کی مکمل
آزادی دی گئی تھی خواتین کاروبا رسے لے کر جنگ وجدل کے زمانے میں بھی مردوں
کے شانہ بشانہ اپنا موثر ترین کردار اداکرتی تھیں اور خود نبی کریم ﷺ نبوت
سے قبل مکہ کی ایک تاجر خاتون حضرت خدیجہ ؓکا سامان تجارت لے کر جایاکرتے
تھے آج کا سعودی معاشرہ کس طرح کے اسلامی نظام کی عکاسی کررہاہے کہ وہاں پر
شادی سے لے کر عام زندگی گزارنے تک کے فیصلے کرنے کا اختیار خواتین سے چھین
لیاگیاہے وہاں پر خواتین ڈرائیونگ نہیں کرسکتیں ،معاملات زندگی میں آزادی
کے ساتھ حصہ نہیں لے سکتیں اور حتیٰ کہ زندگی کے اہم ترین فیصلے یعنی شادی
کرنے کے معاملہ میں بھی انہیں آزادی حاصل نہیں ہے اور یہ فیصلہ بھی ان کا
سرپرست کرتاہے سعودی عرب میں اس وقت جمہور کی آواز کو دبادیاگیاہے وہاں پر
شورائیت کا جو نظام وہ اسلامی جمہوری اقدار کی روح کو پامال کررہاہے سعودی
عرب میں جو بھی کونسلز بنائی جاتی ہیں ان کا پچاس فیصد سے زائد حصہ بادشاہ
کی مرضی سے چناجاتاہے اور رہے سہے نظام میں لوگوں کا انتخاب کیا جاتاہے اس
حوالے سے سعودی عرب میں لوگوں کی آواز کو دبایاجارہاہے اور ریاست گھٹن کا
ماحول پیدا کررہی ہے ۔
قارئین لارڈ نذیر احمد کی یہ تقریر تاریخی اہمیت کی حامل ہے اس وقت 56سے
زائد اسلامی ممالک میں الا ماشاءاللہ اسی طرح کا نظام دیکھنے میں آرہاہے کہ
یاتو وہاں پر کلی طور پر مارشل لاءلگاکر فوجی جرنیل حکمرانی کررہے ہیں
،یاپھر بادشاہت اور شہنشائیت قائم ہے اور یا پھر پاکستان کی طرح ایسی
جمہوریت کا نظام کا رائج کیاگیاہے کہ جہاں لچے لفنگے ،چو ر ڈاکو اور لٹیرے
چند فیصد لوگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ملکی وسائل پر قابض ہیں پاکستان اور
آزادکشمیر کی ہی طرف دیکھ لیں کہ 18کروڑ آبادی میں ووٹرز کی تعدا د8کروڑ کے
قریب ہے ،8کروڑ ووٹرز میں سے صرف 35فیصد یعنی تین کروڑ پچاس لاکھ کے قریب
لوگ حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں اور اس وقت حکمران جماعت جو تمام وسائل
پر قابض ہے اس نے جو ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی ان کی تعداد ایک کروڑ اسی
لاکھ سے کم ہے گویا اقتدار پر براجمان یہ طبقہ صرف دس فیصد لوگوں کی
نمائندگی کررہاہے لارڈ نذیر احمد نے سعودی عرب کے متعلق جو تقریر کی ہے اس
کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ سعودی عرب کو تمام امت مسلمہ جن کی تعداد اس وقت
ایک ارب سے زائد ہے ہر معاملے میں آئیڈیل سمجھتی ہے وہاں اصلاح احوال کی
بہت بڑی گنجائش ہے قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب شہاب نامہ میں تحریر کرتے ہیں
کہ جنرل سکندر مرزا کے دور حکومت میں ان کی بیگم یہ کہاکرتی تھیں کہ
پاکستان میں حکمرانوں کو وہ پروٹوکول حاصل نہیں ہے جو ہمسایہ ملک ایران
،عراق اور ترکی میں ملتاہے اور اس حوالے سے وہ اکثر زکر کیا کرتی تھیں کہ
پاکستان میں اس چیز کو درست کیاجانا چاہیے یہاں پر ہم آج ایک تازہ ترین خبر
کو بھی کالم کا حصہ بناتے چلیں کہ ”کھپے والی سرکار “جناب قبلہ آصف علی
زرداری صدر پاکستان کے اسلام آباد کے سرکاری گھر یعنی ایوان صدر کی تزئین
وآرائش کے لیے 22کروڑ روپے کی خطیر رقم کا پی سی ون اتفاق رائے سے منظور
کرلیاگیاہے اور جلد ہی اسے جناب صدر کے شایان شان ترقیاب کردیاجائے گا بقول
غالب اس پر یہی کہیں گے
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
جاں کا لبدِصورت ِدیوار میں آوے
سائے کی طرح ساتھ پھریں سرووصنوبر
تو اس قدر دلکش سے جو گلزار میں آوے
دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستم گر
کچھ تجھ کو مزا بھی مرے آزار میں آوے
کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یارب
اک آبلہ پا وادی ءپرخار میں آوے
تب چاک ِگریباں کا مزا ہے دل ِ ناداں
جب اک نفس الجھا ہوا ہر تار میں آوے
آتش کدہ ہے سینہ مرا رازِ نہاں سے
اے وائے اگر معرض ِ اظہار میں آوے
ایک طرف تو مہنگائی ،بے روزگاری ،بدامنی اور اندورنی اور بیرونی خطرناک
حالات کی وجہ سے 18کروڑ پاکستانیوں میں سے دس کروڑ سے زائد پاکستانی غربت
کی لکیر سے بھی نیچے لڑھک گئے ہیں اور دوسری جانب ہمارے پیارے صدر اور ان
کی پوری کابینہ کے اللے تللے ختم ہونے کانام ہی نہیں لے رہے لارڈ نذیر احمد
نے ایک تقریر تو ننگی بادشاہت کے خلاف کردی ہے ہمیں یقین ہے اور ہماری ان
سے اپیل ہے کہ ایک تقریر وہ پاکستان سمیت پوری دنیا کے اسلامی ممالک میں
پائی جانے والی ”بیمار جمہوریت “کے خلاف بھی ضرور کریں گے لارڈ نذیر احمد
آپ کی انہی حرکتوں کی وجہ سے تو آزادکشمیر کی مجاور حکومت آپ کو”ناپسندیدہ
شخصیت “قرار دے چکی ہے اگر آپ اب بھی باز نہ آئے تو سوچئے اگلا مرحلہ
کیاہوگا ۔۔۔؟
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
استادنے شاگرد سے پوچھا
آج تم کلاس میں کیلنڈر لے کر کیوں آئے ہو
شاگرد نے جواب دیا
”استاد جی آپ نے خود ہی کہاتھا کہ کل تاریخ پڑھاﺅں گا “
قارئین یوں لگتاہے کہ ہمارے آج کے بادشاہوں اور صدور نے تاریخ سے کچھ نہیں
سیکھا ۔۔ |