آزادی کی طرح دوستی بھی ایک نعمت
ہے اچھا دوست ایک لازوال دولت کی مانند ہے لیکن موجودہ دور میں اچھے
اورمخلص دوست ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے ،کچھ دن پہلے میں نے دیکھا کہ ایک
بابا جی محدب عدسہ لگا کر کچھ ڈھونڈ رہے تھے پوچھنے پر بابا جی نے بتایا کہ
دوست ڈھونڈ رہا ہوں جوخود غرض نہ ہو، مخلص بھی ہو ،وفادار بھی ہو لیکن ساری
عمر گزر گئی ابھی تک کوئی مخلص دوست نہیں ملا،لیکن ہم اس لحاظ سے کافی خوش
قسمت واقع ہوئے ہیں کیونکہ ہمارے دوستوں کی لسٹ کافی لمبی ہے جس میں کافی
اچھے اور مخلص دوست بھی ہیں جن میں ایک حافظ محمد مظفر محسن صاحب بھی ہیں
اب ان کے بارے میں کیا بتاﺅں کیونکہ انہیں تو ساری دنیا جانتی ہے اور وہ
اپنی تعریف آپ ہیں میں نے ایک بچے سے پوچھا کہ آپ حافظ مظفر محسن کوپہچانتے
ہو پہلے تو بچہ ہنسنے لگا میں سمجھا شاید اس نے بھی حافظ صاحب کی مزاح سے
بھرپور کوئی تحریر پڑھی ہوئی ہے تبھی ہنس رہا ہے لیکن جب اس نے جواب دیا تو
میری ساری امیدوں پر پانی پھر گیا کیونکہ وہ سمجھا کہ شاید میں اس سے کسی
کارٹون پروگرام کے بارے پوچھ رہا تھا .
حافظ صاحب سے جب تک ملاقات نہیں ہوئی تھی تو میں انہیں حافظ سوہن حلوے والا
سمجھتا تھا کیونکہ حافظ صاحب کافی عرصہ ملتان رہے تھے لیکن بعد میں پتا چلا
کہ یہ حافظ حلوے والے نہیں بلکہ جلوے والے ہیں،جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ
حافظ صاحب مزاح کی دنیا کا ایک درخشندہ ستارہ ہیں لیکن اپنی زندگی میں حافظ
صاحب کافی سنجیدہ انسان ہیں اور ہمیں حافظ محمد مظفر محسن صاحب کی دوستی پر
فخر ہے کیونکہ حافظ صاحب سے ہمیں کافی کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے اور اب
بھی سیکھ رہے ہیں (اور امید ہے کہ ان کے بڑا ہونے تک سیکھتے رہیں گے)۔
کچھ دن پہلے ہمیں خبر ہوئی کہ حافظ صاحب کی برتھ ڈے آرہی ہے (یہ نہیں معلوم
ہوا کہ حافظ صاحب کتنے سال کے ہوگئے ہیں )جب بھی ان سے ان کی عمر کے بارے
پوچھا تو کہنے لگے ریما سے تھوڑا بڑا ہوں ،اچھا تو بات ہورہی تھی حافظ صاحب
کی سالگرہ کی ،مجھے بدر سعید نے شام کو فون کیا کہ آج حافظ صاحب کی سالگرہ
ہے سو ہم نے انہیں سرپرائز دینے کا پروگرام بنا لیا ہم نے انہیں یہ بتانے
کے لئے کال کی کہ وہ آفس میں موجود رہیں لیکن انہوں نے کال اٹینڈ نہیں کی
ہم بڑے پریشان ہوئے ہم نے ایک دوست کو فون کیا جو ریڈیومیں کام کرتا ہے کہ
حافظ صاحب کی تصویر لگاﺅ اور ساتھ میں یہ سرخی چلاﺅ کہ حافظ صاحب اگر آفس
میں ہیں تو وہیں ٹھہریں اگر کہیں اور ہیں تو ہمیں بتا دیں ،حافظ صاحب نے
پتا نہیں ریڈیو پہ اپنا فوٹو دیکھا کہ نہیں دیکھا ۔ہم سے فوری رابطہ کیا
اور کہا کہ میں ڈائیو بس ٹرمینل کی طرف جا رہا ہوں (ہم تو چلے تیرا شہر
چھوڑ کر)لیکن ہم نے درخواست کی کہ خدارا ٹکٹ کینسل کروادیں ہم بیس منٹ میں
پہنچ جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ آجاﺅ میں انتظار کر رہا ہوں اور ویسے بھی
میں خود کہیں نہیں جا رہا تھا کسی کو رسیو کرنے آیا تھا ،ہم نے اپنا رخ
تبدیل کیا اور ڈائیوٹرمینل کی طرف چل دئیے ،
راستے میں ایک جگہ ایک بیکری نظر آئی ،بدر سعید کو میں نے کہا کہ کسی اور
بیکری سے کیک لیتے ہیں تو بدر سعید نے کہا اس کی کیا وجہ ہے میں جواب دیا
کہ یہ گورنمنٹ کی دکان ہے اور گورنمنٹ کے سب کام ہی ”ڈھیلے“ہوتے ہیں کہ
کہیں لیٹ نہ ہوجائیں(میں گورمے کو گورنمنٹ سمجھتا آرہا تھا ) بدرسعید نے
بتایاکہ یہ گورمے بیکری ہے گورنمنٹ کی نہیں،سو ہم نے ادھر سے کیک
خریدا،بالآخر ہم ڈائیو بس ٹرمینل پہنچ گئے ، دور سے ہی ہم نے حافظ صاحب کو
پہچان لیا اور ہم سیدھے دوڑتے ہوئے حافظ صاحب کے پاس پہنچے اور ”یاہو“کا
نعرہ بلند کیا تو وہاں پر بیٹھے ہوئے مسافر ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھنے لگے
کہ شاید ہم کسی اور دنیا کی مخلوق ہیںاس کے بعد ہم نے وہاں کے عملے سے چھری
ادھارلی اور ڈائیو کے ویٹنگ روم میں مسافروں کی موجودگی اور ان کے قہقہوں
میں ہم نے حافظ صاحب کی سالگرہ کا کیک کاٹا،اور سبھی مسافروں میں تقسیم کر
دیا کئی نے تو ایک دوسرے کو کیک کھانے سے منع کیا کہ شاید اس میں کوئی چیز
مکس نہ ہو اور ہم کھاتے ہی انٹا غفیل نہ ہوجائیں ،اور ہمیں پینٹ کوٹ پہنے
ٹائی لگا جدید ”ٹھگ “سمجھا۔اس سالگرہ منانے کا بہت مزہ آیا لیکن ہمیں پھر
بھی حافظ صاحب کی عمر کا پتا نہیں چل سکا کیونکہ حافظ صاحب کیک کاٹتے وقت
بھی کہ رہے تھے کہ میں بڑا ہو کر سیاستدان بنوں گا۔۔ |