”میں کچھ لِکھنا چاہتا ہوں۔ یہ
بتائیے کہ مجھے کیا کرنا ہوگا؟“ یہ سوال ہمارے دوست شریف امروہوی نے کچھ
اِس پیار سے داغا کہ ہمارے لیے بچنا ممکن نہ رہا۔ اِس نوعیت کے سوالوں سے
ہم بچتے پھرتے ہیں کیونکہ لِکھنے سے متعلق کوئی مشورہ دینے کی صورت میں
اپنی کم عِلمی کا بھانڈا پُھوٹنے کا خدشہ رہتا ہے! شریف صاحب نے ہمارے کالم
پڑھ پڑھ کر شاید یہ رائے قائم کرلی ہے کہ ہم لِکھنا جانتے ہیں اور دوسروں
کو لِکھنا سِکھا بھی سکتے ہیں!
اِس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!
سادہ دِلی کے ہاتھوں اِنسان کیسی کیسی آراءقائم کرلیتا ہے! شریف صاحب واقعی
شریف آدمی ہیں۔ اُن کی اِس سادگی پر تو مَر مِٹنے کو جی چاہتا ہے! ہم کیا
اور کیسے لکھتے ہیں، یہ تو بس ہم ہی جانتے ہیں۔ من آنم کہ من دانم! بس یہ
سمجھ لیجیے کہ مقام تشکر ہے، یعنی یہ کہ ”۔۔بات اب تک بنی ہوئی ہے!“
جب مشورے کی طلب برقرار رہی تو ہم نے جواب دیا کہ لِکھنے کے لیے ناگزیر ہے
کہ آپ لِکھیں اور لِکھتے چلے جائیں! یہ سادہ سا جواب سُن کر شریف صاحب کی
تشفی نہ ہوئی۔ کہنے لگے ”لِکھنا تو ٹھیک ہے مگر لِکھتے لِکھتے ہم کہیں جانا
نہیں چاہتے۔ ہمیں اپنے سے دور مت کیجیے!“ بضد رہے کہ اچھا لِکھنے کے لیے
کوئی زُود اثر نُسخہ بتائیں۔ ہم نے سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم تو خود آج تک
یہ نہیں جان پائے کہ اچھا کیسے لِکھا جاتا ہے۔ اگر اچھا لِکھنے سے مراد
ہینڈ رائٹنگ ہے تو یقین کیجیے کہ ہم اِس معاملے میں بھی مثالی شخصیت نہیں!
شریف صاحب نے اپنا مسئلہ بیان کیا ”عُمر کی شام ڈھل چکی ہے، وقت ہی وقت ہے
لہٰذا یہ سوچا ہے کہ وقت کا کوئی اچھا مَصرف تلاش کیا جائے۔ اور لِکھنے سے
اچھی سرگرمی کیا ہوسکتی ہے؟“
شریف صاحب کو لِکھنے کے معاملے میں سنجیدہ دیکھ کر ہم متوجہ ہوئے کیونکہ
ایسی سنجیدگی تو ہم کامیاب لکھاریوں میں بھی دیکھنے کو ترس گئے ہیں! اگر ہم
اور ہمارے بعض ”ہم حشر“ لِکھنے والے بھی شریف صاحب کی طرح لِکھنا سیکھنے پر
توجہ دیں تو اخبارات کے قارئین کو چند ڈھنگ کی چیزیں پڑھنے کو مل جایا
کریں! مگر
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!
بے چارے اخباری قارئین اِس قدر خوش نصیب کہاں؟ اِن غریبوں کو تو ”قلم
برداشتہ“ ہی پڑھتے رہنا ہے!
خیر، ہم نے شریف صاحب سے پوچھا کہ کیا لِکھنے کا ارادہ ہے۔ ارشاد ہوا
”اخبارات کے لیے کالم لِکھنا چاہتا ہوں۔“ اِتنا سُننا تھا کہ ہماری تو ہنسی
چُھوٹ گئی۔ شریف صاحب نے پہلے ہمارے چہرے کو گھورا اور پھر ہمارے سَر کی
طرف دیکھ کر سوچنے یا شاید کوئی رائے قائم کرنے لگے! اِس سے پہلے کہ وہ
ہماری بات کا بُرا اور ہمیں کچھ ایسا ویسا مانتے، ہم نے ہنسی کی ”وجہِ
تسمیہ“ بیان کرتے ہوئے کہا کہ کالم نگاری کے لیے کوئی کِسی سے مشورہ تھوڑا
ہی کرتا ہے! بیشتر کالم نگاروں کی نگارشات پر نظر ڈالیے تو اندازہ ہو جاتا
ہے کہ اگر اُنہوں نے لِکھنے کے سلسلے میں کِسی سے مشورہ کیا ہوتا تو آج ہم
اُنہیں بُھگت نہ رہے ہوتے! جس طرح دِل کے ہاتھوں مجبور ہوکر لڑکا لڑکی گھر
سے بھاگ جاتے ہیں بالکل اُسی طرح بیشتر کالم نگار بھی دِل کے ہاتھوں مجبور
ہوکر قلم اُٹھا لیتے ہیں اور پھر یہ قلم اُس وقت تک نہیں رکھتے جب تک کوئی
سر پر پستول نہ رکھ دے! کوئی بھی شریف آدمی یہ الزام اپنے سَر لینے کو تیار
نہو ہوگا کہ اِن کالم نگاروں کو لِکھنے کا مشورہ اُس نے دیا تھا!
ہم نے استفسار کیا کہ کِن موضوعات پر خامہ فرسائی کا مُوڈ ہے تو جواب ملا
”کچھ ہلکا پھلکا لِکھنا چاہتا ہوں تاکہ دل کا بوجھ بھی ہلکا ہو اور لوگ پڑھ
بھی لیں۔“
ہم نے شریف صاحب کو مشورہ دیا کہ سیاست دانوں کے بیانات پڑھیے اور اُن کی
بنیاد پر لِکھنے کی عادت ڈالیے۔ مزاح کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑے گی۔
شریف صاحب کہنے لگے ”میں چاہتا ہوں کہ میری تحریر میں مِٹھاس ہو مگر اِتنی
مِٹھاس نہ ہو کہ پڑھنے والوں کو شوگر ہو جائے!“
ہم نے استفسار کیا تو پھر کِن امور پر لِکھنے میں زیادہ دلچسپی ہے۔ شریف
صاحب کہنے لگے ”بجلی کے بحران یا ریلوے کے محکمے کی حالت پر کچھ لِکھنے کو
جی چاہ رہا ہے۔“ ہم نے عرض کیا کہ پانی و بجلی اور ریلوے کے وزراءکے بارے
میں کچھ لکھنا ہو تو شوق سے لکھیے کیونکہ وہ ”بالکل ہیں گے، موجود ہیں گے!“
ہاں، یاروں نے بجلی چھوڑی ہے نہ ریلوے کو سلامت رہنے دیا ہے۔ اب جن چیزوں
کا وجود ہی مٹ چکا ہو اُن کے بارے میں آپ کیا لِکھیں گے! یہ سُن کر شریف
صاحب کہنے لگے ”مُلک میں قانون دِکھائی نہیں دیتا تو کیا قانون اور اُس کی
بالا دستی کے بارے میں لِکھنا بھی چھوڑ دیا جائے؟“
بات معقول تھی۔ ہمیں فخر محسوس ہوا کہ ہمارے دوستوں میں کوئی تو ہے جو
معقول بات کرتا ہے! مگر پھر یہ سوچ کر دِل کو تھوڑا سا مَلال بھی ہوا کہ
ایسا معقول دوست خود کو کالم نگاری کی چوکھٹ پر قربان کرنے کے لیے بے تاب
ہے! سوال یہ ہے کہ ہم اُنہیں ایسا کرنے سے کس طرح روکتے؟ ہم تو خود کالم
نگاری کی اوکھلی میں سر دیئے بیٹھے ہیں! یعنی
کِس مُنہ سے ہم کہیں کہ محبت فریب ہے
ہم نے بھی یہ فریب تو کھایا ہے دور تک!
شریف صاحب کو بضد دیکھ کر ہم سمجھ گئے کہ اُن میں صحافیانہ ہٹ دھرمی پائی
جاتی ہے جو اِس بات کا مظہر ہے کچھ نہ کچھ لِکھ کر ہی دَم لیں گے۔ موصوف کی
زندگی بینکنگ انڈسٹری میں گزری ہے۔ ایک بڑے غیر ملکی بینک سے ریٹائر ہوئے
ہیں۔ ہم نے سوچا جس کی زندگی دولت کی ریل پیل دیکھتے گزری ہو اُسے بھلا
کالم نگاری سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟ پھر خیال آیا شاید یہی سوچ کر کالم
نگاری کرنا چاہتے ہوں کہ اِس لائن میں بھی مال بہت ہے! ممکن ہے بعض کالم
نگاروں کے اثاثوں کو دیکھ کر لِکھنے کا خیال آیا ہو۔ مگر یہ بھی ہمیں خام
خیالی محسوس ہوئی کیونکہ (روز افزوں فربہی کے باوجود) ہمارے پتلی حالت دیکھ
کر اُنہیں کچھ نہ کچھ تو اندازہ ہو ہی جانا چاہیے تھا!
ہم نے مشورہ دیا کہ بینکنگ انڈسٹری میں جو کچھ دیکھا ہے اُس کے حوالے سے
لِکھنا شروع کردیجیے۔ شریف صاحب نے جواب دیا ”اِس قدر مزاح لوگ برداشت نہیں
کر پائیں گے!“ ہم نے وضاحت چاہی تو بتایا ”بینکوں میں جو کچھ ہوتا ہے وہ
اگر عام آدمی کو معلوم ہو جائے تو مستقل صدمے کی حالت میں رہے، ہوش میں نہ
آئے۔ سیاست دان بینکوں کو جس طرح استعمال کرتے ہیں وہ مجرمانہ سرگرمیوں کے
ذیل میں آتا ہے۔ بینک وہ واشنگ مشین ہے جس میں اہل ثروت اپنے اعمال کی
کمائی دھوتے ہیں!“
یہ سُن کر ہم تو پھڑک اُٹھے۔ عرض کیا کہ جناب! لوگ اگر ایک ہی کالم میں
مزاح، مجرمانہ سرگرمیوں کا احوال، سیاست، دہشت سبھی کچھ پڑھ لیں گے تو مزید
کچھ پڑھنے کی حاجت نہ رہے گی۔ بینک بھلے ہی دیوالیہ پن سے دوچار ہوتے جارہے
ہیں مگر آپ کے ذہن کو لِکھتے وقت دیوالیہ پن کا سامنا نہ ہوگا کیونکہ زندگی
بھر آپ نے طرح طرح کے معاملات دیکھے ہیں۔ بس اُنہیں ضبطِ تحریر میں لاتے
جائیے اور نام کے ساتھ ساتھ دام بھی کماتے جائیے!
ہماری پوری توجہ سے سُننے کے بعد شریف صاحب کہنے لگے ”آپ کی بات درست ہے
مگر میں کچھ ایسا لِکھنا چاہتا ہوں۔۔“
ہم نے قطع کلامی کی اور معذرت چاہے بغیر کہا کہ جناب! ”کچھ ایسا“ لِکھنے کے
بجائے ”کچھ ویسا“ لِکھنے پر دھیان دیجیے، تقدیر آپ کے قدموں میں ہوگی اور
آپ مُقدّر کے سِکندر کہلائیں گے!
شریف صاحب کئی دن سے مِلنے نہیں آئے۔ شاید گزرے ہوئے لمحوں کی راکھ کرید کر
بچی کھچی چنگاریاں نکال رہے ہیں تاکہ ”کچھ ایسا ویسا“ لِکھ سکیں! |