سیکولر اورجمہوری ملک میں حکومت
کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ملک میں بسنے والے ہرطبقہ کوملک کے وسائل میں برابر
کی حصے داری ملے اگر کوئی طبقہ اس سے محروم رہتاہے توحکومت ایسے طبقہ کو
دوسرے طبقوں کے برابر لانے کے لئے نئی نئی اسکیمیں چلاکر ان کی غربت ،مفلسی
اورتعلیم سے محرومی کوختم کرنے کے لئے انھیں سبسڈی دے کر اورریزرویشن دے کر
دوسرے طبقوں کے برابر لانے کی ذمہ دار ہوتی ہے ا گرحکومت اس میںناکام ہوتی
ہے توایسی حکومت کو نااہل حکومت کے خانے میں رکھاجاتاہے۔
ایک بار پھر تمام سیاسی پارٹیوں کو2011میں مسلمانوں سے ہمدردی کارجحان
پیداہوگیاہے اس سال ان تمام سیاسی پارٹیوں کورمضان کاچاند پھرعید کاچاند
پھربقرہ عید کاچاند دکھائی دیاہے ۔اب یہ سب سیاسی پارٹیاں مسلمانوں سے
ہمدردی کاراگ الاپ رہی ہیں کوئی مسلم پسماندہ طبقات کے ریزرویشن کی بات
کررہاہے توکوئی پوری مسلم قوم کوریزرویشن دینے کے لئے مرکزی حکومت کوخط لکھ
رہاہے جوسراسر مسلمانوں کودھوکہ دینے کی ایک اورکوشش ہے ۔ایسے میں مرکزی
حکومت بھی مسلمانوں کولبھانے کے لئے منڈل کمیشن کی سفارشات کوعملی جامہ
پہنانے کی بات کررہی ہے جبکہ منڈل کمیشن کی سفارشات آنے کے بعد کانگریس
پارٹی نے تقریباً15برس تک مرکز میں حکومت کی ہے ۔آج تک منڈل کمیشن کی ایک
بھی سفارشات پرعمل نہ کراسکی یہ سب وعدہ مسلمانوں کودھوکہ دینے کے لئے
ہیں۔کانگریس پارٹی کاسابقہ 65سال کاریکارڈ تویہی بتاتاہے کیونکہ 2012میں
کئی ریاستوں میں الیکشن ہوناہیں ایسے میں مسلمانوں کوبہت ہوشیاری سے اپنے
ووٹ کااستعمال کرنا ہوگا۔
ایسے حالات میں مسلمانوں کی کوئی سیکولر سیاسی قیادت ابھر کرسامنے انہیں
آرہی ہے روز بروز ایک نئی مسلم سیاسی پارٹی کااضافہ ہورہاہے تقریباً دودرجن
مسلم سیاسی پارٹیاں صرف اترپردیش میں موجود ہیں ۔اس کے باوجود بھی مسلمانوں
کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتاجارہاہے ۔ تعجب توجب ہوتاہے کہ جب مسلمانوں کی
قیادت نے منڈل کمیشن کی سفارشات پرغور کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتی
ہوناتویہ چاہئے تھاکہ منڈل کمیشن نے اپنی سفارشات میںجوپسماندہ طبقات (بیک
ورڈ افراد) کے لئے جو27فیصد ریزرویشن دیاہے اس 27فیصد ریزرویشن میںسے 9فیصد
مسلم بیک ورڈ طبقات کاکوٹہ الگ کرانے کے لئے تمام مسلمان مل کرتحریک
چلاکریہ کوٹہ حاصل کرتے لیکن ایسانہ کرسکے ایسے میں ہم نے مسلم پسماندہ
طبقات کابہت نقصان کرڈالا جوفائدہ ہم کوبیس سال قبل مل سکتاتھا ہم نے اپنی
انا کے شکار ہوکر اسے کھودیا۔ ہمارے کوٹہ کافائدہ دوسرے غیرمسلم افراد اٹھا
رہے ہیں اورہمارے پسماندہ طبقات کے افراد سرکاری نوکریوں کے لئے مارے مارے
پھررہے ہیں۔ 1993میں سماج وادی پارٹی اوربہوجن سماج پارٹی کی مشترکہ حکومت
اترپردیش میں تھی جس کے وزیراعلیٰ مسٹرملائم سنگھ یادو جی تھے ملائم سنگھ
یادو نے منڈل کمیشن کی سفارشات نافذ کرکے مسلمانوں کوخوش کرنے کے لئے اپنے
ایک بیان میں کہاکہ اترپردیش میں مسلمانوں کو85فیصد ریزرویشن دیاگیاہے (کیونکہ
مسلمانوں کی آبادی میں 85فیصد آبادی مسلم برادریوں کی ہے) یہ ایک بہت
بڑادھوکہ تھا وہ یوں کہ مسلمانوں کی برادریوں کاکوٹہ 27فیصد میں 8.44فیصد
الگ نہیں کیاگیاتھا اوریہی 8.44فیصد کافائدہ بھی یادو برادری کومل رہاہے ۔
ہماری نام نہاد مسلم قیادت مسلم ریزرویشن کاراگ الاپ کرمسلمانوں کی85فیصد
آبادی کونقصان پہنچارہی ہیں ۔ہندوستان کے سیکولر دستور میں مذہب کی بنیاد
پر ریزرویشن نہیں دیا جاسکتاجب تک پارلیمنٹ اس پر ایک کمیشن تشکیل کرکے ملک
میں سروے کرائے اورپوری قوم کوپسماندہ تسلیم نہ کرلیاجائے اورایسا کبھی بھی
ممکن نہیں ۔اس سلسلہ میں آل انڈیا مسلم مجلس اترپردیش نے منڈل کمیشن کی
سفارشات موصول ہونے کے فوراًبعد اپنے صوبائی جلسہ میں مندرجہ ذیل تجویز پاس
کی تھی ۔
مسلم مجلس کایہ اجلاس منڈل کمیشن کی سفارشات کے سلسلہ میں یہ مطالبہ کرتاہے
کہ پسماندہ طبقات کے 27فیصد ریزرویشن میں سے 85فیصد مسلم پسماندہ برادریوں
کاکوٹہ 8.44فیصد الگ کردیاجائے اورباقی 15فیصد مسلم اعلیٰ طبقہ کے لئے
جوکریمی لیئر میں آتے ہیں ایک کمیشن تشکیل کرکے ان میں سے مالی طورپرکمزور
افراد کاپتہ لگاکر ان کے لئے الگ سے ریزرویشن دیاجائے ۔اس تجویز کی بنا پر
مسلم مجلس نے تقریباً دس یابارہ بار اترپردیش اسمبلی کے سامنے دھرنادے
کرمیمورنڈم حکومت کودیئے تھے۔ان دھرنوں کی قیادت مسلم مجلس کے صدر جناب قمر
کاظمی مرحوم اورراقم الحروف نے کی تھی لیکن نام نہاد مسلم قیادت نے اس
پرغور نہیں کیا۔
ہمیں یہ قطعی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم غیرمسلم سیکولر افراد کو شامل کئے
بغیر کسی بھی تحریک میں کامیاب نہیں ہوسکتے یہ سیکولر افراد ہی ہیں جنہوںنے
اپنی کاوشوںسے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کاجینادوبھر کردیاہے انھیں
سیکولر افراد کے ذریعہ گجرات میں مسلمنسل کشی کامعاملہ ملک کی سب سے بڑی
عدالت یعنی سپریم کورٹ میںپہونچایا جہاںسے مسلمانوں کوانصاف ملا اب
ہندوستان کامسلمان یہ محسوس کرنے لگاہے کہ سپریم کورٹ سے ہمیں انصاف ملے گا
۔یہ سب سیکولرا فراد کی کاوشوں سے ہوا ہے۔
جتنی بھی موجودہ سیاسی پارٹیاں ہیں وہ ہمارے ووٹ کی بھوکی ہیں وہ ہم سے ووٹ
تولیناچاہتی ہیںلیکن ہمیں کچھ دینانہیں چاہتی ہیں چاہے وہ ملائم سنگھ جی
ہوںجنہوںنے منڈل کمیشن کی سفارشات کواپنے فائدہ کے لئے تواستعمال کیا
مسلمانوں کے فائدہ کے لئے نہیں ۔ملائم سنگھ صاحب مسلمانوں سے کہتے نہیں
تھکتے کہ ہم نے مسلمانوں کوپانچ ہزار اردو ٹیچروں کی نوکریاں دیں جب کہ
اصلیت یہ ہے کہ صرف 3500(تین ہزار پانچسو)ہی نوکریاں دیں لیکن ملائم سنگھ
صاحب یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ مسلمانوں نے تین بار اپنے ووٹوںسے جتاکر
اترپردیش کے وزیراعلیٰ کے عہدہ پربراجمان کیا۔یہی حال بہوجن سماج پارتی کی
سپریمو مایاوتی جی کاہے جب ان کی حکومت پہلی بار اترپردیش میں 1995میں
بھارتیہ جنتاپارٹی کی مدد سے بنی تھی توانہوںنے منڈل کمیشن کی سفارشات کے
تحت 27فیصد پسماندہ طبقات کے کوٹہ سے مسلم پسماندہ طبقات کا8.44فیصد کوٹہ
الگ کرنے کاارادہ ظاہر کیا تھا جس پر بی جے پی تیار نہیں ہوئی لیکن آج
مایاوتی جی کے پاس کوئی رکاوٹ بھی نہیں ہے لیکن انہوںنے منڈل کمیشن کی
سفارشات پرعمل درآمد نہیں کیا اس کے بعد بھی مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کی
پوری کوشش کررہی ہیں۔ کانگریس پارٹی نے 65سال میں مسلمانوں کاجتنا بڑانقصان
کیا ہے اس سے سب ہی واقف ہیں۔ اسی کانگریس نے 1950میں ایک گشتی (سرکولر)
پورے ہندوستان میں بھیج کر یہ پیغام دیاتھاکیونکہ نوکریوں میں مسلمانوں کی
تعداد 35فیصد ہے اس کوکم کیاجائے اورمزید نئی بھرتی نہ کی جائیں آج تک وہ
سرکولر اسٹینڈ کررہاہے اس کے باوجود بھی کانگریس ہمارے ووٹ کی بھوکی ہے۔
مسلمانوں کویہ بات یادرکھنی چاہئے کہ ملک میں صرف دوجگہ ہی قانون بنتے ہیں
ایک صوبوں کی اسمبلی میں اوردوسرا ملک کی پارلیمنٹ میں اگرہم ان جگہ
پرسیکولر افراد کے ساتھ موجود نہ ہوں گے توقانون ہماری مرضی کے خلاف بنیں
گے اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہم سیکولر افراد پر مشتمل ایک پلیٹ فارم تیار
کریں۔ |