اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

قتالِ اعظم چنگیز خاں کو مسلمان آثارِ قیامت سمجھتے تھے اور عیسائی عذابِ الٰہی۔جرمنی کے شاہ فیڈرک ثانی نے انگلینڈ کے شاہ ہنری کو لکھا کہ وہ عذابِ الٰہی ہے جو ہمارے گناہوں کی پاداش میں نازل ہوا۔مشہور فلسفی راجر بیکن نے اسے دجال کا سپاہی قرار دیا لیکن عقلمند ا یغور ، تنومند فرایت ،، جفاکش مغل ، خون خوار تاتاری، جری مرکیت اور ما فوق الفطرت قوتِ برداشت رکھنے والے برفانی آبادیوں کے شکاری اُس صحرائے گوبی کے ان پڑھ ، اُجڈ اور گنوار چرواہے کو ”بوگدو“ یعنی دیوتاؤں کا بھیجا ہوا قرار دیتے تھے۔دنیا کا واحد سالار جس سے اس کی سپاہ نے کبھی انحراف نہیں کیا ، واحد حکمران جس کے خلاف کبھی بغاوت ہوئی نہ سازش۔وجہ صرف یہ کہ اس ان پڑھ نے پچاس اقوام کے لیے ”یاسا“ یعنی آئین ترتیب دیااور پھر اسے نافذ کرکے بھی دکھایا۔ ”یاسا“ میں چوری اور زنا کی سزا موت تھی۔کسی کو اتنی دیر تک خطا کار نہ سمجھا جاتا جب تک وہ رنگے ہاتھوں پکڑا نہ جاتا۔آپس میں لڑائی جھگڑا حرام اور سزا سخت۔جو مالِ غنیمت جس کے ہاتھ آتا ، اسی کا ہو جاتا۔مکان کھُلے ، چھکڑے لدے لیکن مجال ہے جو کبھی چوری ہوئی ہو ۔ایک جنگ میں ایک بہت خوبصورت جڑاؤ خنجر ایک معمولی سپاہی کے ہاتھ لگا ۔چنگیز خاں کو وہ خنجر بہت پسند آیا ۔ اس نے خنجر لینا چاہا لیکن سپاہی نے صاف انکار کر دیا ۔سرداروں نے یہ جانا کہ اب سپاہی کی گردن تن سے جُدا کر دی جائے گی لیکن چنگیز نے اسے 100 سپاہیوں کی کمان سونپ دی۔

اس تمہید کا مقصد یہ تھاکہ زندہ قومیں ہمیشہ اپنے آئین و قانون کی پاسداری کرتی ہیں اور ہمیشہ سُرخ رو ہوتی ہیں۔ عالمی دہشت گرد امریکہ کا تیسرا صدر ”تھانسن جیفرسن“ جو ڈیمو کریٹک پارٹی کا بانی اور ”اعلان نامہ آزادی“ کا مصنف تھا ، اس نے ہمیشہ اس خیال کی شدید مخالفت کی کہ آئین کی تشریح کا حتمی اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے اور کانگریس کی منظوری کے باوجود سپریم کورٹ کسی بھی آرٹیکل کو غیر آئینی قرار دے سکتی ہے ۔ وہ تادمِ مرگ اپنی بات پر ڈٹا رہا۔سپریم کورٹ اپنا کام کرتی رہی لیکن وہ کبھی آڑے نہیں آیا ۔لیکن یہاں یہ عالم ہے کہ PPP اپنے ہی بانی کے بنائے ہوئے آئین کی دھجیاں بکھیر رہی ہے ۔کل فوزیہ وہاب نے بر ملا کہا کہ سپریم کورٹ ”جانب دار“ ہے ۔سابقہ وزیرِ قانون بابر اعوان اور PPP کے دیگر اکابرین بھی برملا اس کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔PPP حکومت نے سپریم کورٹ کے گزشتہ اٹھارہ فیصلوں پر سرے سے عمل ہی نہیں کیااور اب بھی NRO پر کورٹ کے فیصلے کو در خورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا۔لیکن اسے سب سے زیادہ تلملاہٹ میمو سکینڈل پر ہوئی ہے ۔طرح طرح کی تاویلات اور عجیب و غریب قسم کے جواز تراشے جا رہے ہیں۔PPP کی سیکرٹری اطلاعات فوزیہ وہاب کہتی ہیں کہ حسین حقانی کی طرف سے منصور اعجاز کو بھیجی گئی ”ای۔ میلز“ پر چونکہ اس کے دستخط نہیں اس لیے ان کی کوئی حیثیت نہیں ۔کیا۔ کیا کبھی کسی ای۔میل پر دستخط بھی ہوئے ہیں۔؟ کیا forensic evidence کو پوری دنیا کی ہر کورٹ تسلیم نہیں کرتی ۔؟ اور اس سے زیادہ احمقانہ بات بھی کوئی ہو سکتی ہے جو فوزیہ وہاب نے کہی ؟۔ بابر اعوان بھی آج متواتر نواز لیگ ، فوج اور عدلیہ پر گرجتے برستے رہے ۔ایک روز پہلے گیلانی صاحب نے بھی فرمایا کہ اگر ان کی حکومت ختم ہوئی تو پھر کبھی جمہوریت نہیں آئے گی ۔انتہائی محترم ذوالفقار بھٹو نے بھی فرمایا تھا کہ ”میرے جانے کے بعد ہمالیہ بھی روئے گا“۔۔۔۔

ایک بے مثال لیڈر رخصت بھی ہو گیا لیکن ہمالیہ تو کُجا ”شملہ پہاڑی“ بھی نہیں روئی البتہ بابر اعوان اور رحمٰن ملک نے مٹھائیاں ضرور تقسیم کیں۔چاروں صوبوں کی زنجیر کی کربناک شہادت کا دُکھ بھی اس قوم نے سہہ لیا لیکن زنجیر قائم رہی اور ملک سلامت ۔عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ فانی انسان کبھی ناگزیر نہیں ہوا کرتے ، البتہ آئین ناگزیر ، قانون ناگزیر ، بلا شبہ ناگزیر کہ اس کے بغیر کسی ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ممکن ہے نہ نظریاتی سرحدوں کی لیکن بد قسمتی سے PPP اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کو سو صفحات کی معمولی کتاب سمجھ کر ردی کی ٹوکری کی نذر کر رہی ہے۔

بخُدا میں PPP سمیت کسی بھی سیاسی پارٹی کی مخالف نہیں مگر ثنا خواں بھی نہیں البتہ جو نظر آتا ہے اسے پوری دیانت داری سے سپردِ قلم کرنے کی سعی ضرور کرتی ہوں۔میرا تجزیہ درست بھی ہو سکتا ہے اور سرے سے غلط بھی ۔یہاں صرف یہ عرض ہے کہ جب جنرل شجاع پاشا اور جنرل کیانی کہتے ہیں کہ وہ منصور اعجاز کی طرف سے پیش کیے گئے ثبوتوں سے مطمئین ہیں تو اس سے قطع نظر کہ منصور اعجاز کا ماضی میں کیا کرداررہا ہے ، PPP دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیوں نہیں ہونے دیتی۔؟آئی۔ایس۔آئی اور فوج نے کوئی فیصلہ کرنے یا انتہائی قدم اٹھانے کی بجائے تمام معاملہ سپریم کورٹ پر چھوڑ دیا ہے۔ PPP کے پاس تو اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کا سنہری موقع ہاتھ لگا ہے ۔وہ منصور اعجاز کو جھوٹا ثابت کرے اور اسٹیبلشمنٹ کو شرمندہ ۔کچھ محترم سقّہ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ معاملہ اگر سپریم کورٹ میں نہ جاتا تو حالات اس نہج تک نہ پہنچتے لیکن میں سمجھتی ہوں کہ اگر معاملہ سپریم کورٹ میں نہ جاتا توپھر کسی بھی لمحے پاکستان کی فضا پانچویں بار ”میرے عزیز ہم وطنوں“ کی صدا سے گونج اُٹھتی ۔میں احمقوں کی جنت میں نہیں بستی جو اس خوش فہمی میں رہوں کہ کوئی فوج کا راستہ روک سکتا ہے یقین جان لیجیئے کہ ”عزیز ہم وطنوں“ کی آواز پر لبّیک کہنے اور دس بار وردی میں منتخب کروانے والے اب بھی ہزاروں ہیں اور آئین و قانون اور قلم فروشوں کی بھی کمی نہیں۔ایسا آمریت کے ہر دور میں ہوا اور تحقیق کہ جمہوریت کے سُکڑے سہمے مریل سے پودے میں ابھی اتنی سکت نہیں کہ وہ آمریت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکے۔ تاریخی حوالوں سے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ سبھی ”تڑی باز“ ہی سب سے پہلے مریل چوہوں کی طرح اپنے بلوں میں گھستے ہیں یا نئے خُداؤں کے در پر سجدہ ریز ۔ حق کی صدا بلند کرنے والے معدودے چند اصحاب کے لیے قال کوٹھڑیاں اور شاہی قلعہ تو ہے ہی ۔اس لیے موقع غنیمت جانیئے کہ معاملہ سپریم کورٹ میں جانے کے بعد اسٹیبلشمنٹ اخلاقی طور پر پابند ہو کے رہ گئی ہے ۔

معزز قارئین ! وہ 16دسمبر ہی کی ایک ٹھنڈی دوپہر تھی جب ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہماری عظمتوں کے تمغے نوچے گئے ۔آج بھی 16دسمبر ہی ہے جب ملک کی غیر محفوظ جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے باوجودایک دفعہ پھر حکومت اور فوج مد مقابل ہیں ۔زندہ قومیں تو ہمیشہ تاریخ سے سبق حاصل کرتی ہیں ۔ لیکن اقبال کے ان شاہینوں کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے کہ یہ کرگسوں کی سی سرشت چھوڑنے کو تیار ہی نہیں ۔لے دے کے ایک عمران خاں تھے جو ما نندِ شاہین پلٹتے ، جھپٹتے نظر آتے تھے ۔لیکن اونچی اُڑان سے تھک کر وہ بھی با لآخر کرگسوں میں جا گرے ۔ایک انٹر ویو میں فرمایا ،جن لوگوں کو پارٹی ٹکٹ دیا جائے گا ان میں اکثریت اچھے لوگوں کی ہو گی لیکن سبھی نہیں ، کچھ برے لوگ بھی ہوں گے۔ہم نے مگر یہی سنا ،پڑھا اور دیکھا ہے کہ ” ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے“ ۔ محترمی ہارون الرشید کے ”عصرِ رواں کے درویش“ کو تو میں نہیں جانتی جنہوں نے ایسے لوگوں کو ”جھاڑ جھنکار“ کہہ کر ان کی PTI میں شمولیت کا جواز تراشا ہے۔البتہ حضرتِ اقبالؒ کے مُرشدِ معنوی مولانا رومؒ یہ کہتے ہیں ”ہزار لُقموں میں ایک تنکے کو منہ کی زندہ حس پہچان لیتی ہے اور جب تک تنکا نکل نہ جائے مُنہ کو چین نہیں آتا “ ۔خاں صاحب کا مُنہ تو ایسے بے شمار تنکوں سے بھر چُکا ہے پھر انہیں کیسے چین آتا ہو گا ۔؟ اوراگر یہ مصلحتِ وقت ہے تو پھر میرے آقا ﷺ نے تو تمام مصلحتوں کو رد کرتے ہوئے یہ کہہ کر طاقت ور ترین قبیلے کی چور عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا کہ ”ربِّ کعبہ کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا ۔“ سیّدنا صدیقِ ؓ اکبر کو یہ واقعہ بھی یاد تھا اور قولِ رسولﷺ بھی۔صحابہ ؓ کرام نے عرض کیا کہ اسلام ابھی نیا نیا پھیلا ہے ،مصلحتِ وقت ہے کہ زبردستی زکوات وصول نہ کی جائے ۔آپؓ نے فرمایا ”کحافہ کے بیٹے کی کیا مجال کہ جو کام رسولﷺ نے کیا اس سے سرِ مو بھی انحراف کرے ۔ربِّ کعبہ کی قسم اگر اونٹ کی نکیل بھی کسی پر واجب ہوئی تو ابوبکرؓ ا س کے خلاف بھی جہاد کرے گا “۔پتہ نہیں ”درویش“ نے یہ کیسے کہہ دیا حالانکہ وہ بھی جانتے ہیں اور ہارون الرشید بھی کہ عمران خاں نے بڑی محنت سے یہ ”جھاڑ جھنکار“ اکٹھا کیا ہے اور محترم ہارون الرشید مزید کی تگ و دو میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہے ہیں ۔بہرحال ایسی نرالی منطق کو ”میں نہیں جانتی ، میں نہیں مانتی“ کہ بُرے لوگوں کو ٹکٹ دے کر انتخاب جیتو ، ان کے ووٹوں سے وزیرِ اعظم بنو اور پھر ڈنڈا لے کر انہی پر چڑھ دوڑو۔دُعا ہے کہ ربِِّ کردگار راہبرانِ قوم کو صراطِ مستقیم پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 643205 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More