نئے دنوں کا سراغ

 تم پہ ظالم نہ ہر اک بار مسلط ہوتے
تم اگر ایک ہی بار ان سے بغاوت کرتے !
یہ خوبصورت شعر اسلم شاہد کا ہے جن کا چند روز پیشتر ہی شعری مجموعہ چھپا ہے ، اپنی شاعری کے بارے میں خود ان کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں
لفظ ان کو مت جانو ، خواب اور جذبے ہیں
دل دھرا ہے کاغذ پر ، شاعری نہیں کی ہے !

ملک کی ادبی فضاءمیں یہ تازہ اور خوشگوار ہوا کا جھونکا دریائے راوی کے اس پار سے آیا ہے ، پنجاب کی بیورو کریسی میں اسلم شاہد کا نام نامی کسی تعارف کا محتاج نہیں ، وہ میانوالی کے دور افتادہ گاﺅں میں پیدا ہوئے ، گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن کی اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو میں گولڈ میڈل حاصل کیا ، مقابلے کا امتحان پی سی ایس پاس کر کے سول سروس کا رخ کیا اور آج کل لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی میں ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈ منسٹریشن کا قلم دان تھامے ہوئے ہیں ۔ایک دیانت دار اور فرض شناس سرکاری افسر ہونے کے ساتھ ساتھ ادب سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں ، یوں تو ان کا ادبی کام کافی حد تک بکھرا پڑا ہے تاہم ان کا باقاعدہ یہ پہلا شعری مجموعہ ہے جو ”نئے دنوں کا سراغ“کے نام سے منظر نامے پر آیا ہے اور ادبی حلقوں کے ساتھ ساتھ عوامی حلقوں میں بھی زبردست پذیرائی پا رہا ہے ، میرے خیال سے اس کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کی شاعری میں عوامی مسائل کو پیش نظر رکھ کراشعار کی صورت انقلابی انداز میں پیش کیا گیا ہے ، ان کی شاعری میں فیض احمد فیض ، حبیب جالب اور راغب مراد آبادی کا رنگ ڈھنگ نظرآتا ہے ، انہوں نے بڑی نفاست اور لگن کے ساتھ برسہا برس کی عرق ریزی کے بعد اس مجموعہ کتاب کو منظر عام پر لانے کی کامیاب سعی کی ہے ۔ عطاءالحق قاسمی نے لکھا ہے کہ” اسلم شاہد نے اپنی ذات ، سماج اور اپنے عہد کے متنوع پہلوﺅں کے گہرے مطالعے اور مشاہدے کے بعد اخذ کردہ نتائج کو نہایت عمدگی کے ساتھ شعری قالب میں ڈھال دیا ہے ، اسلم شاہد کے ہاں فکری گہرائی اور فنی مہارت کا ایک ایسا امتزاج موجود ہے جو ہمارے نئے لکھنے والوں میں کم کم نظرا ٓتا ہے ، یہ شاعری ہمیں گئے گزرے وقتوں میں نئے دنوں کا سراغ بخشتی ہے ، امید ، حوصلہ عطاءکرتی ہے اور اچھے دنوں کے انتظا ر کے ساتھ ان کے لیے عملی کاوش پر بھی اکساتی ہے ، یہ بیک وقت میسر و موجود سے بے زاری اور بغاوت کی توانا آواز بھی ہے اور ایک نئے پرامن ، منصف مزاج معاشرے کی نقیب بھی ہے “۔ وطن کی مٹی سے اسلم شاہد کو جو محبت ہے اس کا کھلا اظہار ان کی نظموں ، غزلوں اور ا شعار سے ہوتا ہے ، ”نئے دنوں کا سراغ“بہر حال شاعر کی بہترین کاوش اور کوشش ہے جو قابل ستائش ہے ، اس مجموعہ کلام کو بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کرکے عوام کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے ، ان کے کلام سے منکشف ہوتا ہے کہ وہ عوامی مزاج سمجھنے اور پرکھنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں ، اسلم شاہد کا انداز ِ تحریر با کمال اور انتہاء درجے کا دلچسپ ہے ، ان کے کلام کو پڑھ کر قاری جب اپنے گردو پیش پر نظر دوڑاتا ہے تو اس کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ وہ کس موڑ پر کھڑا ہے اور اب اسے کیا فیصلہ کرنا ہے ، کلام مستند اور اعلیٰ پایے کا ہے اور ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاعر نے عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے ۔کتاب کا اقتباس عوام کے نام کیا گیا ہے ، لکھا ہے ،ان کے نام ! جن کا انفرادی نام کچھ بھی ہو ، بے معنی ہے اس لیے کہ ان کا اجتماعی نام ”غربت “ہے ۔

”نئے دنوں کا سراغ“کے خالق کی تلاش جستجو اور بالغ نظر ی و وقت نظری متاثر کیے دیتی ہے اور انہوں نے واقعی حالات کا گہرا تجزیہ کر نے کے بعد اپنے محسوسات کو اشعار میں سمو دیا ہے ، نظمیں ، غزلیں اور اشعار قارئین کو اپنی اہمیت اور کشش کا احساس دلاتے ہیں ، قابل ذکر اور دلوں کو جھنجھوڑ ڈالنے والی نظموں میں ”کیا ہوا دینو بھائی“، ”دل دکھتا ہے“،”کردار کے غازی“اور ”کا ش میرا تن کشتی ہوتا “اپنے اندر گہرا اثر رکھتی ہیں ۔ قصہ مختصرکہ ان کی تحریری شگفتگی ، گہرائی ، گیرائی اور جذبات کی بے ساختگی اور سچائی قاری کے ذہن اور قلب و جگر کو اپنی گرفت میں لیے رکھتی ہے ، ادبی میدان کی مانی ہوئی شخصیات نے اسے معاشرتی حلقوں کے لیے اہم دستاویز خیال کیا ہے اور ان کے بقول نئی نسل کو اس شاعری سے بہتر راہنمائی مل سکتی ہے ۔اسلم شاہد نے ایمانداری کے ساتھ سچ اور حق کا راستہ اختیار کیا ہے ، موصوف کے قلم کی چاشنی اور موضوع پر ان کی مضبوط گرفت قاری کو بے خود سا کیے رکھتی ہے ، ان کا انداز ِ نگارش ان کی قلمی صلاحیتوں کا بین ثبوت ہے ، کم از کم مجھ ایسے کج فہم اور علم سے تہی لکھاری کے لیے ان کی شاعری پر کچھ لکھنا اچھا خاصا ”کار ِ دارد “ہے ۔ انہوں نے اپنے اشعار میں معاشرتی برائیوں اور سماجی نا انصافیوں پر گہری چوٹ کی ہے جس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جس میں انصاف کا بول بالا ہو ۔ ”نئے دنوں کا سراغ“اسلم شاہد کی شب و روز کی ریاضتوں اور محنتوں کا ثمر ہ ہے اور ان کے سِحر طراز قلم نے کما ل کی جولانی دکھائی ہے، پھر مستند ادبی شخصیات کے اظہار خیال نے کتا ب کے حسن کو دو آتشہ کر دیا ہے ۔ معاشرتی اونچ نیچ ، حسرتوں ، یاس و ناامیدی اور محرومیوں کی کوکھ سے جنم لینے والی یہ نظمیں ، غزلیں خون ِ دل سے لکھی گئی ہیں ، ان کا کچھ کلام ملاحظہ ہو
شجر جلائے ہیں ، سرو سمن کو لوٹا ہے
یہاں پہ اہل ِ چمن نے چمن کو لوٹا ہے
بجا کہ لٹنا مقدر تھا ، پر ستم یہ ہے
وطن کے بیٹوں نے اپنے وطن کو لوٹا ہے
کہا ہے دھرتی کو ماں ، آفریں ہے فرزندو!
پھر اس کی کوکھ کو روندا، بدن کولوٹا ہے
٭٭٭٭٭
دل دکھتاہے جب دنیا میں
ظلم کے بادل گہرے دیکھوں
ہر سو جھوٹ کو پھیلا پاﺅں
ہر سو سچ پر پہرے دیکھوں
دل دکھتا ہے جب جب رہبر
ڈھونڈے خود رہزن کی قربت
بڑھتی جائے اس کی دولت
جھیلیں سارے راہی غربت
جب چہروں کو غمگیں دیکھوں
جب جب آنکھیں رِ جم جھم برسیں
جب مفلس کی جیب ہو خالی
روٹی کو جب بچے ترسیں!
اپنے حق کی خاطر جب جب
دھکے کھائے بوڑھا سائل
حرص میں لپٹا بابو کہہ دے
”با با ! کھو گئی تیری فائل “
کتنی باتیں ایسی ، جن سے
اسلم میرا دم گھٹتاہے
لیکن میں کچھ کر نہیں سکتا
اس پر میرا دل دکھتا ہے ۔۔!
٭٭٭٭٭
اپنے رہبر کو جو دیکھا تو خیال آیا ہے
کس بلندی پہ یہاں اب کے زوال آیا ہے
٭٭٭٭٭
جس کے ساتھ ہو رب کی طاقت
اس کے پاس غضب کی طاقت
کم زورو! سب ایک ہو جاﺅ
ایک کی طاقت ، سب کی طاقت
ایک بھی دیپک جلتا ہو تو
کھا جا تا ہے شب کی طاقت
اپنے اندر ہے کچھ ؟ بولو!
مت جتلاﺅ نسب کی طاقت
جو کمزوروں کے کام آئے
مولا دے اس ڈھب کی طاقت
٭٭٭٭٭
مظلوم سے نفرت ہے ، ظالم سے ارادت ہے
ہرظلم کو سہہ جانا اس شہر کی عادت ہے !
٭٭٭٭٭
Abdul Sattar Awan
About the Author: Abdul Sattar Awan Read More Articles by Abdul Sattar Awan: 37 Articles with 37002 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.