قائد عوام کی پاکستان پیپلز
پارٹی کے اقتدار کو تین برس کا عرصہ بیت چلا ہے مگر ان گزشتہ تین سالوں میں
پی پی پی حکمرانوں نے غربت ، بے روزگاری ، مہنگائی کے خاتمے کے لیے کوئی
خاص اور ٹھوس حکمت عملی اختیار نہیں کی اور ان مسائل کی شرح میں خطرناک حد
تک اضافہ ہوا ہے ، یوں تو جیسے تیسے اس وطن کے عوام ان مسائل سے نبرد آزما
ہورہے تھے تاہم حکمرانوں کی مسلسل امریکہ نواز پالیسیوں ، مغربی سرحدوں پر
اتحادی فورسز کی غیر معمولی نقل وحرکت سے فوجی جوانوں کی شہادتوں اور ڈرونز
حملوں نے عوام کو سڑکوں پر نکلنے پہ مجبور کر دیا ہے اور اب ا س مملکت کا
ہر شہری پی پی پی حکمرانوں کو مزید برداشت کرنے کو تیار نہیں اور اسے
اقتدار میں دیکھنے کا ہرگزخواہاں نہیں ، عوام کا کہنا ہے کہ جو ارباب بست
کشاد تین سالوں میں عوامی مفاد اور ملکی استحکام کی خاطر کچھ بھی نہیں کر
سکے ان سے اب اس ضمن میں مزید توقعات وابستہ نہیں رکھی جا سکتیں، یہی وجہ
ہے کہ آج ہر کوئی تبدیلی کا خواہاں ہے اور گزشتہ کچھ ماہ سے اس عوامی غم و
غصے میں بتدریج اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ حالیہ ہفتہ وار تعطیل مورخہ
اٹھارہ دسمبر 2011 کو حکومت مخالف جماعتوں نے ایک ہی دن میں چار اجتماعات
منعقد کر ڈالے اور لاہور ، پشاور ، راولپنڈی ، پنڈی گھیپ اس عوامی غم وغصے
کی زد میں رہے تاہم مینار پاکستان لاہو رمیں دفاع پاکستان کونسل کے زیر
اہتمام شیخ الحدیث مولانا محمد سمیع الحق مدظلہ العالی کی قیادت میں ہونے
والے اجتماع عام کی باز گشت ملک بھر میں ابھی تک سنائی دے رہی ہے جس میں
پورے ملک سے مذہبی ، سیاسی ، سماجی تنظیموں کے راہنماﺅں اور کارکنوں نے
لاکھوں کی تعداد میں بھرپور اندا زمیں شرکت کر کے اس دھرتی کے تحفظ اوراس
کی بہتری کی خاطر کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ۔
دفاع پاکستان کانفرنس کے شرکاءمولانا سمیع الحق ، جماعتة الدعوة کے حافظ
سعید ، حافظ عبد الرحمٰن مکی ، شیخ رشید ، جنرل حمید گل ، اہل سنت والجماعت
کے مرکزی سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی و دیگر نے کہا کہ یہ کانفرنس
امریکی غلامی سے نجات اور اسلامی انقلاب کی نوید ہے اور نظام خلافت راشدہ
ہی ہمارے تمام تر مسائل کا دیرپا حل ہے،بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے ،
اسے موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینے جیسا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے سیاسی و
عسکری قیادت کو ہزار بار سوچنا ہوگا اور عوامی جذبات کاخیال اور احترام
کرنا ہوگا۔ مینار پاکستان کی وسیع و عریض گراﺅنڈ میں اسلامیان پاکستان کا
لاکھوں کا جم غفیر پاکستان کی مذہبی جماعتوں او رشیخ الحدیث مولانا سمیع
الحق کی قیادت پر گہرے اعتمادکا اظہار تھا اور یہ عوام الناس کی دینی
جماعتوں سے محبت و عقیدت ہی تھی جو انہیں کشاں کشاں کھینچے ملک کے طول و
عرض سے لاہور کے اس وسیع پنڈال میں لے آئی تھی، مبصرین کہہ رہے ہیں کہ یہ
کریڈٹ صرف پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو ہی جاتاہے کہ انہوں نے اس اندازمیں
اپنی پوری طاقت اور قوت کا مظاہرہ کر ڈالا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گو کہ
اسی روز یعنی اٹھارہ دسمبر کو پشاور میں جماعت اسلامی ،راولپنڈی میں ڈاکٹر
طاہر القادری ، لاہور میں پی پی پی ، اے پی ایم ایل کے جلسے بھی منعقد ہوئے
اور ان میں بھی عوام کی قابل ذکر تعداد نے شرکت کی تاہم سب سے بڑا عوامی
اجتماع دفاع پاکستان کونسل کے اس پروگرام کو قرار دیا جا رہا ہے جس سے ثابت
ہو ا چاہتا ہے کہ پاکستان کے دینی حلقے بہر صورت وطن کے دفاع اور اس کی
بہتری و استحکام کی خاطر اپنا رول اداکرنے کے لیے ہر دم بیدار اور تیار ہیں
۔دفاع پاکستان کونسل جنوری کے مہینے میں کراچی اور راولپنڈی میں بھی اپنے
ان عوامی جلسوں کا پروگرام رکھتی ہے ۔ دفاع پاکستان کونسل ، جماعت اسلامی ،
ڈاکٹر طاہر القادری کی عوامی تحریک اور جے یو آئی کے تمام دھڑوں کی اس
”عوامی انگڑائی “سے لگ رہا ہے کہ پاکستان کے عوام اپنے وطن کے استحکام کی
خاطر اٹھ کھڑے ہیں اور وہ ہر صورت میں امریکہ کی غلامی جیسی ”دوستی“سے نجات
اور پاکستان کے تمام فوجی اڈوں اور برادر اسلامی ملک افغانستان سے اتحادیو
ں کا انخلاءچاہتے ہیں ۔ان حالیہ عوامی جلسے ، جلوسوں ، ریلیوں میں عوامی جو
ش و جذبے سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ لوگ پی پی پی حکومت کی نا انصافیوں
اور مغربی استعما ر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور یوں ملک کی سیاسی
صورتحال بتدریج بدل رہی ہے سو اب زرواروں کو چاہیے کہ اس زبان خلق کو پس
پشت ہر گز نہ ڈالیں بلکہ اسے نقارہ خدا جان کر اپنی اصلاح پر توجہ مبذول
کریں، عام انتخابات میں ابھی ایک سال کا عرصہ باقی ہے لہذا پی پی پی کے پاس
اب بھی وقت ہے کہ غربت ، بے روزگاری ، لوٹ مار کی سیاست ، افراتفری اور خطے
سے امریکیوں کے انخلاءجیسے عوامی مسائل کے حل کی جانب بڑھے اور مغربی
استعمار کے خلاف وہ کردار ادا کرے جو اس کے قائد ذو الفقارعلی بھٹو نے کیا
تھا ،پی پی پی حکومت کوخط افلاس سے نیچے زیست بسر کرنے والوں کو روزی روٹی
کی فکر سے آزادی دلانے کے ساتھ ساتھ اپنی خارجہ پالیسیوں کو ازسر نو عین
عوامی خواہشات اور مرضی کے مطابق ڈھال کر خطے کو عدم استحکام جیسی صورت حال
سے نکال کر استحکام کی راہ پر ڈالنا ہوگا ، ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی ، مذہبی
اور سماجی جماعتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس وقت جب کہ لاتعداد مسائل اور
افتاد نے مملکت کو آن گھیرا ہے محض حکومت گرانے کے نعروں سے تبدیلی نہیں
لائی جاسکتی اگر ان جماعتوں کے پاس ملک کی ترقی اور خوشحالی کا کوئی مضبوط
و موثر لائحہ عمل اور فکر ہے تو اسے حکومت وقت کے گوش و گزار کرنا چاہیے ۔
دفاع پاکستان کونسل کی یہ کوشش بے شک لائق صد تحسین ہے تاہم ہم سمجھتے ہیں
کہ اگرملک کی تمام دینی جماعتیں اس میں شامل ہوں اور اپنی قوت مجتمع کر کے
مغربی استعمار سے جان خلاصی کے لیے ایک نئی جدو جہد شروع کی جائے توجلد
اپنی منزل پر پہنچا جا سکتا ہے اور لاکھوں شہداء، غازیوں کی بے پناہ
قربانیوں اور مقدس لہو کے عوض معرض وجودمیں آنے والی سرزمین مملکت پاکستان
پر اسلامی نظام کے نفاذ کا خوا ب پورا کیا جا سکتا ہے اور اسلام کا پرچم
جاہ و حشم اس قطعہ ارضی پر لہرایا جا سکتا ہے ۔ |