پاکستان میں فوجی شب خونوں کی
تاریخ بہت پرانی ہے ۔ صدر محمد ایوب خان سے شروع ہونے والی یہ خونچکاں
داستان ہر دور میں دہرائی گئی اور منتخب حکومتوں کی بساط لپیٹ کر سیاسی
قائدین کو زندانوں، صعوبتوں اور پھانسی گھاٹوں کے حوالے کیا گیا۔ اگر میں
اس دور کی تاریخ لکھنے بیٹھ جاﺅں گا تو پھر یہ داستان بہت طو یل ہو جائے گی
لیکن یہ ساری داستان میرے آج کے موضوع سے متعلقہ نہیں ہیں اس لئے میں ان
مارشل لائی داستانوں کی کی تفا صیل میں نہیں جاﺅ ں گا البتہ میں ان سارے
واقعات کو اشاروں کنایوں میں بیان کر کے آگے بڑھتا رہوں گا تاکہ میں اپنے
موضوع کے ساتھ انصاف کر سکوں اور اس حوالے سے جو کچھ کہنا چاہتا ہوں اسے
صاف اور واضع طور پر قارئین تک پہنچا سکوں ۔ مارشل لاﺅں کی تاریخ پیش کرنا
ہر گز میرا مقصد نہیں ہے کیونکہ اس سے پوری قوم بخوبی آگاہ ہے ۔ میری کوشش
ہو گی کہ کچھ ایسے واقعات کی نشاندہی کروں جنھیں عوام کے سامنے کھل کر پیش
نہیں کیا گیا۔ بہت سے ایسے حقائق ہیں جن پر ابھی تک گرد جمی ہوئی ہے جنھیں
ں عوام تک پہنچا یا جانا بہت ضروری ہے تا کہ عوام 16دسمبر 1971 کے اس سانحے
سے آگاہ ہو سکیںجو ایک انمٹ سیاہی کی شکل میں ہماری پیشانیوں پر رقم کیا
گیاہے۔مشرقی پاکستان کاالگ ہو جانا اتنا بڑا سانحہ ہے کہ اسے کسی بھی حالت
میں فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔۔
اکتوبر 1985 میں جنرل ایوب خان نے ملک پر پہلا مارشل نافذ کر دیا اور
پاکستانی سیاست کی ساری قد آور شخصیتوں پر پابندی لگا کر ا یبڈ و کے قانون
کے تحت سیاست کو ان کے لئے شجرِ ممنوعہ قرار دے دیا گیا۔پاکستانی عدالتوں
نے اس مارشل لاءکو جائز قرار دے کر آئیندہ کے مارشل لاﺅں کے جواز کے لئے
راستے کھول دئے اور اسی راہ پر پھر بعد میں آنے والے سائے طالع آزماﺅں نے
جمہوریت کو بری طرح سے ذبح کیا اور عوامی مینڈیٹ کی کھل کر توہین کی۔قیامِ
پاکستان کے بعد پہلی دفعہ ون یونٹ قائم کر کے صوبوں کو ان کے حقوق سے محروم
کرنے کی نئی روش اختیار کی گئی جس کے ملکی یکجہتی پر بڑے منفی اثرات مرتب
ہوئے ۔۔ صوبوں کی وہ ہیت جو قیامِ پاکستان کے ساتھ خصوصی وابستگی رکھتی تھی
اسے نئے انتظامی ڈھانچے میں بدل دیا گیا اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کے
پاکستان کی نئی صور ت گری کرنے کی کوشش کی گئی۔ مشرقی پاکستان جو کہ آبادی
کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ تھا اس سے اس کی اکثریت چھیننے کے
لئے پیریٹی کا نیا اصول وضع کیا گیا اور یوں مغربی پاکستان اورمشرقی
پاکستان کو مساوی درجہ دے دیا گیا جسے مشرقی پاکستان والوں نے قبول کرنے سے
انکار کر دیا۔۔مشرقی پاکستان جو کہ تحریکِ آزادی کا ہراول دستہ تھا اس کے
دل میں مغربی پاکستان کے خلاف نفرتوں کے بیج بو ئے گئے جو بڑھتے بڑھتے چھ
نکات تک پہنچ گئے جو آخرِ کار پاکستان کی شکست و ر یخت پر منتج ہوئے۔ مجیب
الرحمان کے خلاف اگر تلہ سازش کیس تیار کیا گیا اور اسے قید کر کے مغربی
پاکستان کی جیلوں میں رکھا گیا تاکہ اسے سیاست سے بے دخل کر کے اپنے اقتدار
کو دوام بخشا جا سکے لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا کیونکہ مشرقی پاکستان والوں
نے فوجی جنتا کے ان فیصلوں کے سامنے سرَ تسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا۔
صدر محمد ایوب خان کے کے خلاف عوامی تحریک کے بعد اقتدار ایک دوسرے فوجی
جرنیل یحی خان کےحوالے کر دیا گیا ۔ جنرل یحی خان کے دورِ حکومت میں دسمبر
1970 کے ا نتخابات آبادی کے تناسب سے منعقد ہوئے جس میں ایک آدمی ایک ووٹ
کا اصول تسلیم کیا گیا اور یوں مشرقی پاکستان کی نشستیں دوسرے سارے صوبوں
کی مجموعی نشستوں سے زیادہ قرار پا ئیں۔ مشرقی پاکستان کی متحدہ پاکستان
میں وہی پوزیشن تھی جو اس وقت موجودہ پاکستان میں پنجاب کی ہے۔ پنجاب
موجودہ پاکستان کا 56 فیصد ہے اور مشرقی پاکستان بھی اسی آبادی کے تناسب سے
متحدہ پاکستان کا 56 فیصد تھا ۔ ان انتخابات میں عوا می لیگ نے مشرقی
پاکستان میں مکمل کامیابی حاصل کر کے سارے سیاسی پنڈتوں کو غلط ثابت کر دیا
لیکن چھ نکات کی وجہ سے اقتدار پھر بھی عوامی لیگ کا مقدر نہ بن سکا ۔ آئیے
دیکھتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات کیا تھے جس کی وجہ سے 1970 کے
انتخابات جیتنے کے باوجود اقتدار عوامی لیگ کا مقدر نہ بن سکااور انتقالِ
اقتدار کا وہ مرحلہ جو انتخابات کے بعد یقینی ہو تا ہے طے نہ ہو سکا۔۔
۱۔1940 کی قرارداد کے مطابق فیڈریشن قائم کی جائے( جس میں آزاد منطقوں کی
بات کی گئی تھی)۔۲۔ فیڈرل حکومت کے پاس صرف دو محکمے (دفاع اور امورِ
خارجہ) ہو ں گے اور باقی سارے محکمے صوبوں کے حوالے کئے جائیں گئے ۔۳۔ دو
علیحدہ علیحدہ کرنسیاں ہوں گی۔۴۔صوبوں کے پاس ٹیکس لگا نے کے اختیارات ہوں
گئے اور فیڈریشن کے پاس ٹیکس لگانے کے اختیارات نہیں ہوں گے بلکہ صوبے کے
ٹیکسوں میں ان کا ایک خاص حصہ ہو گا۔۵۔صوبے فارن کرنسی اکاﺅنٹ کھول سکتے
ہیں ۔صوبے اپنے فارن کرنسی اکاﺅنٹ کو خود چلائیں گئے اور مرکز اس میں کو ئی
مداخلت نہیں کرےگا۔فیڈریشن کو صوبے اس کی ضروریات کے مطابق زرِ مبادلہ دیں
گئے۔صوبے بیرونی دنیا سے تجارتی معاہدے کر کے تجارت کر سکیں گے اور اپنے
تجارتی مشن قائم کر سکیں گے۔۶۔ صوبے اپنی ملیشیا اور پیرا ملٹری فورس بنا
سکتے ہیں جس سے وہ ملک اور پورے خطے میں سیکیورٹی کے معاملات کو دیکھ سکیں۔
میں ایک چیز کی وضاحت کرنا بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ 1970 کے انتخابات تک
پاکستان کا کوئی آئین نہیں تھا۔ چوہدری محمد علی کی سربراہی میں اسمبلی
نے1956 کا ایک آئین ترتیب دیا تھا لیکن ابھی اس آئین کی سیاہی بھی خشک نہیں
ہو ئی تھی کہ اکتوبر 1958 میں جنرل محمد ایوب خان نے ملک پر مارشل لاءنافذ
کر کے اس آئین کو کچرے میں پھینک دیا تھا۔ جنرل محمد ایوب خان نے 1962 میں
بنیادی جمہوریتوں والا ایک آئین دیا تھا جو عوامی تحریکوں میں دریا برد ہو
گیا تھا لہذا ملک میں کوئی آئین نہیں تھا۔ د سمبر 1970 کے ا نتخابات آئین
ساز انتخابات تھے جس میں اسمبلی کا اصل کام آئین کی تدوین تھی۔ جنرل یحی
خان نے ایک پی سی او جاری کیا تھا جس کی روح سے ساٹھ دنوں کے اندر آئین
بنایا جانا ضروری تھا اور اگر متعلقہ اسمبلی اپنا یہ حد ف مطلوبہ وقت میں
حاصل نہ کر پاتی تو اس اسمبلی کو خود بخود تحلیل ہو جانا تھا۔ شیخ مجیب
الرحمان کے چھ نکات پر مغربی پاکستان میں سخت تحفظات تھے جہاں پر پاکستان
پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری تھی اور جہاں پر عوامی لیگ کی
کوئی نمائندگی نہیں تھی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی مشرقی پا کستان میں کوئی
نشست حاصل نہ کر سکی اور عوامی لیگ مغر بی پاکستان میں کوئی نشست حاصل کرنے
میں ناکام رہی۔ ملک کے دونوں بازﺅں میں کوئی ایسی جماعت نہیں تھی جو دونوں
بازﺅ ں میں اپنی نمائندگی کا دعویٰ کر سکتی اور عوام کو ایک دوسرے کے قریب
لانے کا اعلٰی کردار ادا کر سکتی۔ شیخ مجیب الرحمان کا نام مغربی پاکستان
میں ایک غدار کی حیثیت سے جانا جاتا تھا لہذا مغربی پاکستان میں اس کے لئے
ووٹ حاصل کرنا ناممکنات میں سے تھا۔ دونوں بڑی جماعتیں علاقائی جماعتیں
تھیں اور ان کا اثرو رسوخ اپنے اپنے علاقوں تک محدود تھا۔ کوئی ایسی جماعت
نہیں تھی جو دونوں بازﺅں میں یکساں مقبول ہوتی ۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ
کوئی بھی وفاقی پارٹی کسی ملک کی یک جہتی اور سلامتی کی ضمانت ہوتی ہے کیو
نکہ اس کے پرچم تلے سارے لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور اپنا اپنا نقطہ نظر پیش
کر کے ملکی سلامتی کو یقینی بناتے ہیں۔ د سمبر 1970 کے ا نتخابات میں ہم
ایسی کسی بھی وفاقی پارٹی سے محروم ہو گئے تھے جسے میں پاکستان کی بدبختی
سے تعبیر کرتا ہوں ۔ اگر کوئی وفاقی پارٹی موجود ہوتی تو شائد پاکستان کا
وہ حال نہ ہوتا جسے ہم نے 16 دسمبر 1971 کوایک بہت بڑے سانحے کی شکل میں
دیکھا تھا۔۔۔(جاری ہے) |