بی بی عاصمہ ! لوگ چیخ تو رہے ہیں

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابقہ صدر، پاکستان کی معروف قانون دان اور میمو گیٹ سکینڈل کے ملزم حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے گزشتہ روز سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے جہاں اور بہت سی باتیں کیں وہیں انہوں نے سپریم کورٹ سے مخاطب ہوکر یہ بھی کہا کہ عدالت اس حد تک نہ جائے کہ ”لوگ“ چیخ اٹھیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں کیونکہ اگر ہم احترام نہیں کریں گے تو لوگ بھی نہیں کریں گے۔ عاصمہ جہانگیر یقیناً پاکستان کے ان لوگوں کی بات نہیں کررہی تھیں جو یہاں عوام کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ عوام الناس میں تو شائد ہی کوئی لوگ ایسے ہوں جن کے مقدمات سپریم کورٹ تک جاتے ہوں کیونکہ ان بیچارے لوگوں کی اکثریت تو ہائی کورٹ تک بھی نہیں پہنچ پاتی بلکہ ان کی تو سول کورٹس اور سیشن کورٹس تک ہی ایسی بھاگ دوڑ لگتی ہے کہ ان کی سانس ہر وقت پھولی رہتی ہے، آنکھوں کے سامنے ہر وقت اندھیرا رہتا ہے، ہائی کورٹ تک پہنچتے پہنچتے تو اکثر کی سانسیں ہی جواب دے چکی ہوتی ہیں۔ عاصمہ جہانگیر ان لوگوں کی بات بھی نہیں کررہی تھیں جو دن رات پولیس کے ہاتھوں لٹتے ہیں، جو اگر دن رات کی محنت کر کے، اپنے خون پسینے سے کمائی ہوئی دولت اور ماں، بہن یا بیوی کے زیور بیچ کر اس سے کوئی چھوٹا موٹا پلاٹ خرید لیں تو پہلے رجسٹری کروانے کے لئے سب رجسٹرار کے عملہ اور بعد میں انتقال کروانے کے لئے پٹواری کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور ساری عمر بلبلاتے رہتے ہیں۔ عاصمہ بی بی ان لوگوں کی بات بھی نہیں کررہی تھیں جو قلیل ذرائع آمدن میں روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے اتنے پریشان ہوجاتے ہیں کہ انہیں خود کشی کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں سوجھتا۔ ان لوگوں کی چیخیں کوئی کیوں سنے جو کراچی میں دن دیہاڑے سر عام مسلسل لٹ رہے ہیں، اس ملک میں بدامنی، تشدد، لاقانونیت، بیروزگاری، واپڈا ، گیس اور ریلوے کے ڈسے ہوئے، لاتعداد ٹیکسوں کے حکومتی ظلم و ستم میں پسے ہوئے تو صرف عام لوگ ہیں ان کی تو چیخیں تو شائد کسی کو انسانی لگتی ہی نہ ہوں۔ کوئی ان لوگوں کی بات کیوں کرے جو بے گناہی کے جرم اور اس وطن کی محبت کی وجہ سے ڈرون حملوں میں مارے گئے، جو بم دھماکوں کی لپیٹ میں آگئے تو ان کشمیریوں اور افغانیوں کی بات ہی کیوں کی جائے جو کبھی بھارتی دہشت گردی اور کبھی امریکی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں کیونکہ ایسے لوگوں کی نہ زبانیں ہوا کرتی ہیں نہ ہی ان کی آوازیں اور چیخیں کسی کو سنائی دیا کرتی ہیں۔

عاصمہ بی بی نے چیخ و پکار کی بات کی بھی تو ان خاص الخاص ”لوگوں“ کی جن کی وجہ سے یہاں عام کمی کمین لوگوں کی اکثر چیخیں نکلتی رہتی ہیں۔ وہ ان لوگوں کی چیخوں کی فکر کررہی ہیں جن کی وجہ سے آج پاکستان اتنے گھمبیر مسائل میں جکڑا ہوا ہے، وہ اس حسین حقانی کے کیس پر اتنا جذباتی ہورہی ہیں جس پر الزام ہے کہ اس نے ریمنڈ ڈیوس جیسے نہ جانے کتنے امریکی دہشت گردوں کو بغیر چھان بین اور جانچ پڑتال کے پاکستانی ویزے جاری کئے، یہ وہی حسین حقانی ہیں جو امریکہ میں پاکستان کے نہیں بلکہ امریکی سفیر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ یہ وہی حسین حقانی ہیں جنہوں نے پاکستانی مفادات پر امریکی مفادات کو ترجیح دی اور یہ وہی حسین حقانی ہیں جو امریکی سی آئی اے کے ایجنٹ کو میمو لکھتے ہیں کہ زرداری حکومت کو فوج سے بچایا جائے، جواب میں زرداری حکومت امریکہ کے مفادات کا زیادہ تحفظ کرسکے گی۔ حسین حقانی کی چیخیں تو کیا نکلیں گی کہ ایسے لوگ چیختے چلاتے نہیں بلکہ دوسروں کی چیخیں نکلوایا کرتے ہیں، یہ اسی قماش کے لوگ ہیں جن کے بارے میں سپریم کورٹ چیختی ہی رہ گئی لیکن ظفر قریشی کو این آئی سی ایل سکینڈل میں کسی قسم کی تفتیش کرنے ہی نہیں دی گئی، سپریم کورٹ اب تک چیختی ہے کہ این آر او کیس کے فیصلے کے بعد سوئس عدالت کو خط لکھا جائے ،سپریم کورٹ کی چیخیں گھٹنا شروع ہوگئی ہیں لیکن خط ابھی تک نہیں لکھا گیا، حسین حقانی تو کیا چیخیں گے کہ اس سے پہلے تو مادام چیخ پڑیں، کاش ایک دن ایسا بھی آئے کہ وہ اس ملک کے غریبوں اور خصوصاً ان لوگوں کے اہل خانہ کی چیخوں پر توجہ دیں جو امریکی صلیبی جنگ میں کام آگئے، وہ لوگ جب ڈرون حملوں کی زد میں آتے ہیں تو ان کی تو گنتی بھی نہیں کی جاتی بس ایک اندازے سے بتا دیا جاتا ہے کہ فلاں جگہ ڈرون حملوں میں تقریباً اتنے لوگ مارے گئے، ان کے جسموں کے تو بچے کھچے ٹکڑے بھی جمع نہیں کئے جاتے۔ عنقریب جب نیٹو سپلائی بحال ہوجائے گی اور دوبارہ ڈرون حملے شروع ہو جائیں گے تب بھی کسی کی چیخ نہیں سنی جائے گی۔ مادام! آپ اگر غور کریں تو لوگ آپ کے موکل جیسے بڑے ”لوگوں“ کی چیخیں سننا چاہتے ہیں، ان کی بڑی شدید خواہش ہے کہ جس طرح وہ اپنی تنہائیوں میں چیختے اور چلاتے ہیں، جس طرح وہ سڑکوں پر چیختے اور چلاتے ہیں اور جس طرح ان کے سامنے ان کے پیارے چیختے اور چلاتے ہیں اس طرح کے ”بڑے لوگ“ بھی زور زور سے چیخیں اور پھر ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو جو اس طرح کے لٹیروں اور مجرموں کے ساتھ ہونا چاہئے، آپ تو اس کے لئے جذباتی ہوگئیں جو آج بھی ایوان صدر کا مہمان ہوتا ہے اور جب صدر دبئی جاتے ہیں تو وزیر اعظم ہاﺅس کا، جو آج بھی وی آئی پی ہے!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222521 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.