آج کے ذاکر حسین کالج کی
شروعات17ویں صدی کے اختتام میں شہنشاہ اورنگ زیب کی قیادت دکن کمانڈروں میں
سے ایک اور حیدرآباد کے پہلے نظام کے والد غازی الدین خان نے کی۔ آج ان کی
قبر ایک مسجد اور ایک ایک مدرسہ پر مشتمل 13ویں صدی کے صوفی حضرت حافظ
سعداللہ ی درگاہ کے قریب اجمیری گیٹ کے باہر ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ 18 صدی
کے دوران مغل سلطنت کے زوال کے دوران 1790 میں مدرسہ کو بند کرنے کی دہلیز
پر تھالیکن علم سے شغف رکھنے والوں کی بدولت اس کی نوبت نہیں آئی ۔1824 میں
یہ ادارہ دہلی کالج کے نام سے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کی زیر
سرپرستی آگیا۔زمانے کے بے شمار سردوگرم حالات سے گذرنے کے بعد دہلی کا
موجودہ ذاکر حسین دلی کالج علم کے تشنگان کو سیراب کررہا ہے۔تقریباً چار
دہائیوں قبل جب دہلی کالج کا نام بدل کر ذاکر حسین کالج کردیا گیا تھاتو
ملک کے عام سیکولر ذہن اور خاص طور پر اس کالج سے وابستہ افراد کو شدید
صدمہ پہنچا تھا۔کیونکہ دلی کالج محض ایک کالج کا نام نہیں ہے، یہ ان تعلیم
گاہوں میں سے ہے جن کے بغیر ہمارے ملک کی تعلیمی، ثقافتی، علمی و ادبی
تاریخ نامکمل کہلائے گی۔ دلی کالج ملک کی گنگا جمنی ثقافت، ہندوستانی مزاج
اور اردو زبان و ادب سے متعلق پوری قوم کی اجتماعی سائیکی کا بنیادی ناگزیر
حصہ ہے اور اپنے قیام کے زمانے سے لے کر آج تک یہ نام ہمیشہ یاد دلاتا رہا
ہے کہ ہم ایک ایسے مہذب اور پروقار تسلسل کا حصہ ہیں جس پر ہمیں بجا طور پر
فخر کرنا چاہئے۔کامیابی کی اس منزل کو سرکرنے میں کالج کے منتظمین اور قوم
کے فکر مند افراد خصوصاً دلی کے حضرات کی کوششوں کا نمایاں طور پر دخل
ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ اس عظیم ادارے نے وہ عظیم کارنامے انجام دئے اورایسی
نابغہ روزگار، دانشور اور نادرِ زمانہ شخصیات کی تشکیل کی ہے جس کی نظیر
نہیں ملتی۔بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اگر دہلی کالج نہ ہوتا تو
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، قاسم العلوم دارالعلوم دیوبند ‘ جامعہ ملیہ
اسلامیہ اور ان جامعات سے متعلق بہت سے ادارے وجود میں نہ آتے۔ اگر دہلی
کالج کی مایہ ناز شخصیت اور علم و معرفت کے روشن چراغ مولانا مملوک العلی
نانوتوی سے سرسید مرحوم، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا فضل الرحمن عثمانی
دیوبندی وغیرہ بانیان دارالعلوم نے تعلیم و تربیت حاصل نہ کی ہوتی تو کیا
1857کے پرآشوب دور کے بعد تعلیمی محاذ پر وہ معرکہ سر کیا جانا ممکن ہوتا ؟
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ان نامور تعلیمی اداروں کے وجود میں آنے کے پیچھے
بھی دلی کالج اور اس سے وابستہ شخصیات اور کارناموں کی روشنی موجود ہے۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق کی تصنیف ’مرحوم دلی کالج‘ کے صفحات میں درج ہے
کہ جس طرح درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے، اسی طرح انسان اپنے اعمال
سے۔اس طرح ایک ادارہ اپنے کاموں سے جانچا جاتا ہے، دہلی کالج کا پھل اس کے
وہ سپوت ہیں جو اس کی آغوش میں پھلے اور پھولے اور جنہوں نے علم کے اس نور
سے جوان کے سینوں میں مشتعل تھا اپنے ملک اور زبان کو جگمگادیا۔ علم کے وہ
شیدائی آج ہماری زبان کے دیوتا ہیں۔ ان کے نام اردو زبان کی تاریخ میں روشن
ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں جن کی جگمگاہٹ کبھی کم نہ ہوگی۔اردو زبان و ادب
کے سنوارنے اور بنانے میں جو خدمت اس نے کی ہے وہ کبھی فراموش نہیں کی
جاسکتی۔آج اردو زبان کی جو ترقی یافتہ صورت نظرآرہی ہے اس پر بالواسطہ یا
بلاواسطہ اس کا بہت کچھ اثر ہے۔ یہ پہلی درسگاہ تھی جہاں مغربی علوم کی
تعلیم اردو زبان کے ذریعے دی جاتی تھی اور یہی وہ پہلی درسگاہ تھی جہاں
مشرقی اور مغربی علوم کا سنگم ہوا۔ ایک ہی چھت کے نیچے ایک ہی جماعت میں
مشرق و مغرب کا علم ایک ساتھ پڑھایا جاتا تھا۔ اس میل جول نے خیالات کے
بدلنے، معلومات میں اضافہ کرنے اور ذوق کی اصلاح میںنمایاں کردار اداکیا
اور ایک نئی تہذیب اور نئے دور کی بنیاد رکھی جس ایک ایسی جماعت پیدا ہوئی
جو پختہ، روشن خیال اور بالغ نظر انسان اور مصنفوں پر مشتمل تھی جس کا
احسان زبان اور معاشرے پر ہمیشہ رہے گا… یہ کالج اس جدید عہد میں ملک کی
تہذیب و علم کی ترقی کی ایک ایسی کڑی ہے، جو کبھی الگ نہیں کی
جاسکتی۔تاریخی تسلسل کی اس سنہری دور کے دھند لاتے نقوش کو دلی کالج کے نام
کے ساتھ آج بھی نئی نسلوں کے ذہنوں کو روشن کررہے ہیں۔ جن کو زبان، تہذیب،
ادب اور ثقافت کے اس خزانے کے انمول موتیوں سے مستقبل کو سجانا ہے وہ
ترکمان گیٹ پر واقع ذاکر حسین دلی کالج سے آج بھی بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔
کالج کے موجودہ پرنسپل ڈاکٹر اسلم پرویز ایک ایسی خوبصورت، خوب سیرت، خوش
اطوار اور ہمہ گیر شخصیت ہیں جنہوں نے علمی، سائنسی، ثقافتی، تہذیبی، سماجی
اور انتظامی امور کی دنیا میں اپنا نام روشن کیا اور کالج کا وقار بھی قائم
رکھاہے۔ڈاکٹر اسلم پرویز کالج پرنسپل کی حیثیت سے کالج کی قدیم روایات اور
جدیدبرکات کو اپنے حسن عمل، تدبر اور خلوص سے قائم رکھے ہوئے ہیں اور شروع
سے اس بات کیلئے کوشاں ہیں کہ کالج کی تاریخی حیثیت اور ثقافتی ماحول
دھندلا نہ ہو جبکہ عمارت کے لحاظ سے اجمیری گیٹ پر واقع اینگلو عربک سینئر
سکنڈری اسکول اپنے ناضی کی آج بھی منہ بولتی تصویر ہے۔ |