حکومت برطانیہ نے ڈیڑھ سو برس
قبل کراچی اور کوٹری کے درمیان ریل کی پٹری بچھا کر تیرہ مئی سن اٹھارہ سو
اکسٹھ کو ریل چلانی شروع کی تھی جبکہ دارالحکومت کے طور پر دہلی کے بسنے سے
تقریبا 47 سال پہلے ہی پرانی دہلی کے ریلوے اسٹیشن کے ڈھانچے کو شکل دی جا
چکی تھی۔ تقریبا پچاس ہزار افراد کی نقل و حرکت کیلئے اس ریلوے اسٹیشن کی
تعمیر کی گئی تھی۔ اس کے قریب 34 سال بعد 1898 میں مشہورو معروف دین کے
داعی حضرت نظام الدین اولیاءکی یاد میں حضرت نظام الدین ریلوے اسٹیشن کی
بنیاد پڑی۔ اس کے دو سال بعد نئی دہلی اسٹیشن کی موجودہ پرانی بلڈنگ کی
تعمیر شروع ہوئی جو 1903 میں مکمل ہوئی۔ حالانکہ دہلی اور متھرا کے درمیان
چلنے والی آٹھ رےل گاڑیاں 1884 سے ہی نئی دہلی اسٹیشن علاقے سے پاس کھڑی
ہوتی تھیں۔شاہجہانی جامع مسجداورلال قلعہ کی طرز کو دیکھتے ہوئے پرانی دہلی
اسٹیشن کی عمارت کی تعمیر لال پتھروں سے کی گئی تھی جبکہ لال قلعہ جمناکے
کنارے تعمیر کیا گیا تھا۔شاہجہاں نے نیا شہر بسانے کی شروعات کرتے ہوئے اس
کیلئے جمنا کے کنارے کے علاقے کو پسند کیا تھا۔
دہلی کے اس وقت کے ڈپٹی ریزیڈینٹ ہاؤسDeputy Resident House ولیم
فریزرWilliam Fraser کو اس اسٹیشن کی پہلی انتظامی عمارت کے طور پر تبدیل
کیا گیا تھا۔ 1905 کے دوران چاندنی چوک سے راجیو چوک کے درمیان نینو گیج کی
ریلوے لائن بچھائی گئی تھی تاکہ مخصوص لوگ شہر کے اندرونی حصوں تک آمد کر
سکیں۔ 1911 میں دہلی کو دارالحکومت بنانے کیلئے ایک شاندار دربار کا انعقاد
کیا گیا تھا۔ جارج پنچم سمیت اس وقت تمام ہندوستانی ریاستوں کے نمائندے اس
شاندار تقریب میں شامل ہوئے تھے۔ 100گاڑیوں سے تقریبا سوا 2 لاکھ افراداس
تقریب میں شامل ہونے کیلئے دہلی پہنچے تھے۔ اس تقریب کے بعد نینو گیج ریلوے
لائن کو بند کر دیا گیا تھاجبکہ آگرہ- دہلی ریلوے لائن لٹینس زون اور انڈیا
گیٹ کے آس پاس سے رونما ہوتی تھا۔ بعد میں ریلوے لائن کو منتقل کیا گیا اور
جمنا کے کنارے کنارے لائن بچھائی گئی۔
1937 کے دوران نئی دہلی اسٹیشن میں دوسرا پلیٹ فارم کی تعمیر کیا گیا۔ مغل
بادشاہ بہادر ظفر شاہ پھول والوں کی سیر پر جانے کے وقت پہاڑگنج میں آرام
فرماتے تھے۔ آزادی کے وقت نئی دہلی اسٹیشن سے 113 ٹرینوں کاآپریشن ہوتا
تھا۔ 1952 میں شمالی ریلوے کی تعمیر ہوئی۔ اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال
نہرو نے ریلوے کے اس زون کا افتتاح کیا۔ 1956 میں اس وقت کے صدر راجندر
پرساد نے پہاڑگنج کا افتتاح کیا تھا۔ آگرہ تک جانے والی تاج ایکسپریس ا
سٹیم یعنی کوئلے کے بھاپ والے انجن کے ذریعے چلتی تھی اور اس کانظام نئی
دہلی سے چلتا تھا۔ آخری ستارہ نامی ریل گاڑی کاآپریشن بھی اسٹیم انجن سے
کیا جاتا تھا۔ 1994کے دوران میٹر گےج اور 1995 سے اسٹیم انجن کاآپریشن بند
کر دیا گیا۔
حکومت برطانیہ نے ڈیڑھ سو برس قبل کراچی اور کوٹری کے درمیان ریل کی پٹری
بچھا کر 13 مئی1861 کو ریل گاڑی چلانا شروع کی تھی۔کراچی اور کوٹری کے بعد
کوٹری اور حیدرآباد کے درمیاں بہنے والے دریا سندھ پر پل کی تعمیر کی گئی
اور ریل کی پٹری کا جال بچھایا گیا۔ بڑی لائن کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام
صوبوں کے مختلف علاقوں میں چھوٹی لائن بھی بچھائی گئی۔مقصد صرف یہ تھا کہ
بیک وقت مسافر اور مال گاڑی چلائی جا سکے اور پھر کراچی کو پشاور سے جوڑ
دیا گیا۔ڈیڑھ سو برس قبل انگریز سرکار نے عوام کو سفر کی جو سہولت فراہم
کرنے کا آغاز کیا تھا ہندوستان میں اسے خوب فروغ ملا ہے۔مرکزی ریلوے لائن
کے علاوہ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں اور علاقوں میں بھی ریل کی پٹری بچھائی
گئی۔اکثر مقامات پر تو چھوٹی لائن بچھائی گئی اور ریلوے اسٹیشن تعمیر کئے
گئے۔
بہرکیف‘خصوصی لوگوں VIPکیلئے بنائے گئے دہلی کے ریلوے اسٹیشنوں سے آج ملک
کی سب سے زیادہ ٹرینیں ہی نہیں چلائی جاتی ہیں بلکہ روزانہ تقریبا دس لاکھ
مسافروں کی آمدورفت ہوتی ہے لیکن ممبئی کے بھیانک واقعے کے بعد اب ہر طرف
یہاں الرٹ ہی الرٹ ہے۔لہٰذا وہ دن گئے جب اپنے دوستوں ،عزیزوں اور رشتے
داروں کو سفر پر جاتے وقت چھوڑنے اس اسٹیشن پر جایا کرتے تھے۔ شدت پسندی نے
عوام سے رخصتی کی یہ روایت بھی چھین لی ہے جبکہ ہوائی اڈوں کی اصل عمارت
میں تو پہلے ہی ملاقاتیوں اور مسافروں کو الوداع کہنے والوں کے داخلے پر
پابندی عائد ہے، اب ریلوے اسٹیشنوں پر بھی مسافروں کے علاوہ کسی کو جانے کی
اجازت نہیں ہے۔ ریل گاڑیوں میں کئی دھماکوں کے بعد سلامتی کے نقط نظر سے
ریلوے کا محکمہ مسافروں کو چھوڑنے کیلئے آنے والے لوگوں کے پلیٹ فارموں پر
جانے اور ٹرینوں پر سوارہونے پر پابندی لگانے کے سلسلے میں غور کر تا رہا
ہے۔ |