کرکٹ ورلڈکپ میں پاکستان کی
کامیابی بلاشبہ ٹیم ورک کانتیجہ تھی مگراس کاکریڈٹ کپتان عمران خان نے تنہا
سمیٹ لیا۔اس کامیابی اوراس سے ملی بھرپورعزت وشہرت کافائدہ اٹھاتے ہوئے
عمران خان نے وکٹری سٹینڈ پر کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کااعلان کرتے ہوئے اپنی
والدہ شوکت خانم کی یادمیں کینسرہسپتال بنانے کا عزم ظاہر کیااوریوں کروڑوں
انسانوں کے دل میں اس کیلئے نرم گوشہ پیداہوگیا ۔لاہورمیں کینسرہسپتال کے
قیام کاعزم ایک نیک کام تھالہٰذا اس کی تعمیر کیلئے جہاں اس وقت میاں
نوازشریف نے عمران خان کی بھرپورمددکی وہاں اندرون ملک اوربیرون ملک سے
عوام نے بھی دل کھول کرعطیات دیے ۔اس دوران لوگوں کی طرف سے بھرپور پذیرائی
اوران کے جوش وجذبہ کو دیکھتے ہوئے عمران خان نے وزارت عظمیٰ کاہدف
مقررکرتے ہوئے سیاست میں قسمت آزمائی کافیصلہ کرلیا اوریوںتحریک انصاف کے
نام سے ایک سیاسی جماعت وجودمیں آئی ۔شروع شروع میں عوام نے اس جماعت کوایک
مذاق سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا۔ عمران خان اپنے ٹیم ممبرز کے ساتھ انتخابات
کے میدان میں اترے مگرکپتان سمیت پوری ٹیم بری طرح ہارگئی مگرعمران خان نے
ہمت نہیں ہاری ۔سیاست میں ماضی پیچھا نہیں چھوڑتا بلکہ ساتھ ساتھ چلتا ہے ۔ان
دنوں تحریک انصاف میں کچھ نامورلوگ بھی آئے مگرجلدوہ عمران خان کے رویے سے
مایوس ہوکردوسری پارٹیوں میں چلے گئے۔عمران خان جس طرح کرکٹ ٹیم میں دوسرے
کھلاڑیوں پربیجادھونس جماتے تھے اس طرح انہیں تحریک انصاف میں اپنے ساتھیوں
کوبھی خوامخواہ دبانے اورجھاڑنے کی عادت تھی ۔کرکٹ کی بات اورہے مگرسیاست
میں اس قسم کارویہ نہیں چلتا۔ وہ لوگ جواپنی عزت نفس پرسمجھوتہ نہیں کرسکتے
تھے انہوں نے تحریک انصاف کوچھوڑدیا۔اگرعمران خان کے ماضی کی بات کریں
توانہیں جہاں کرکٹ کے میدان میں قدم قدم پر کامیابی ملی وہاں ان کی شخصیت
کے کچھ تاریک پہلوبھی ہیں۔ان کانام کئی خواتین کے ساتھ لیا جاتا رہا جس
پرآج بھی لوگ ا ن کے کردارپرانگلیاں اٹھاتے ہیں ۔انہوں نے شادی کی جوکامیاب
نہ ہوسکی اوراس میں زیادہ قصورعمران خان کاتھاکیونکہ انہوں نے شادی کافیصلہ
بہت سوچ بچار کے بعدکیا تھا۔ان کی عدم دلچسپی کے سبب ایک نومسلم خاتون
دوبارہ اس آلودہ ماحول میں واپس چلی گئی جہاں سے عمران خان سے لے کرآئے
تھا۔اب خداجانے عمران خان کے بچوں کاکیا مستقبل ہے۔عمران خان نے
اقتدارکیلئے اپنے خاندان کاشیرازہ بکھیردیا کیونکہ وہ اپنے سیاسی مستقبل
پرکوئی سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں،اس وقت ان کی تمام تر توانائیاں
اقتدارکیلئے ہیں۔
وردی پوش پرویزمشرف اقتدارمیں آئے توعمران خان نے انہیں نہ صرف بھرپور
ویلکم کیا بلکہ ان کے صدارتی ریفرنڈم میں ان کی کامیابی کیلئے اپنا کلیدی
کرداربھی اداکیامگردن رات خدمات کے باوجودعمران خان کاوزیراعظم بننے کاخواب
چکناچورہوگیااورپرویزمشرف نے قاف لیگ کے نام سے کنگزپارٹی بناکروزارت عظمیٰ
کیلئے ظفراللہ جمالی کے حق میں فیصلہ سنادیااوریوں عمران خان اورپرویزمشرف
کی راہیں جداہوگئیں اورپھرعمران خان نے جمہوریت جمہوریت کی گردان شروع
کردی۔مگران دنوں پرویزمشرف کے ساتھی دھڑادھڑعمران خان کی تحریک انصاف میں
آرہے ہیں اورعمران خان کوا ن کے آنے کی بیحدخوشی ہے ۔میاں اظہر سے
خورشیدمحمودقصوری اورمہنازرفیع تک سبھی پنچھی اقتدارکادانہ چگنے کیلئے
تحریک انصاف کی منڈیرپربیٹھ گئے ہیں۔کوئی چیئرمین سینیٹ ،کوئی سپیکرقومی
اسمبلی ،کوئی وزیردفاع،کوئی وزیرخارجہ،کوئی گورنرشپ توکوئی وزارت اعلیٰ
کاامیدوار ہے ۔پاکستان میں ا س قدر سرکاری عہدے نہیں جس قدر تحریک انصاف کے
پاس خواہشمنداورامیدوارہیں۔عمران خان کوان کی خواہشات سے کوئی سروکار نہیں
کیونکہ انہیںتوکسی بھی قیمت پروزیراعظم بننا ہے اوراس ہدف کے حصول کیلئے
دوسروں کو''لولی پوپ'' دیناان کی ضرورت اورمصلحت ہے۔تحریک انصاف کے کارکن
توپلاسٹک کی کرسیاں اٹھاکرخوش ہوگئے مگرعمران خان اوران کے ساتھی کرسی
اقتدار کے منتظر ہیں۔
عمران خان جوقوم کومعیار،کرداراورنظام کی تبدیلی کامژداسنارہے تھے ،انہوں
نے اقتدارکیلئے غیرجمہوری اورنادیدہ قوتوںسے سمجھوتہ کرلیااورتحریک انصاف
کوکنگزپارٹی میں تبدیل کردیااوراب اقتدار کے پجاری اس میں دوڑے چلے آرہے
ہیں مگرابھی تک عمران خان نے کسی کوبھی انتخابات کیلئے پارٹی ٹکٹ دینے سے
انکار نہیں کیا بلکہ وہ ہرآنیوالے سے اس کے پسندیدہ حلقہ سے ٹکٹ دینے کا
وعدہ کررہے ہیں مگرلگتا ہے جب انتخابات کیلئے قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے
ٹکٹ جاری کرنے کامرحلہ شروع ہو گا توتحریک انصاف کے اپنے اندر ایک سونامی آ
نے کے آثارہیں جس کے نتیجہ میںمایوس لوگ خالی ہاتھ اپنے اپنے گھروں کوواپس
لوٹ جائیں گے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن)،جماعت اسلامی ،پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین اورمتحدہ قومی
موومنٹ سمیت بعض سیاسی پارٹیوں کاکوئی نہ کوئی سیاسی نظریہ ہے مگر عمران
خان کی کنگزپارٹی کاکوئی سیاسی نظریہ نہیں بلکہ وہ نظریہ ضرورت کے تحت معرض
وجود میں آئی تھی ۔عمران خان نے بلاشبہ اپنے پاس مختلف الخیال افرادکو ایک
ہجوم اکٹھا کرلیا ہے مگرتاریخ گواہ ہے آج تک دنیا کے کسی ملک میں ہجوم کی
مددسے تبدیلی آئی اورنہ انقلاب آیاہے۔تحریک انصاف کے وہ باوفااورباصفالوگ
جوشروع دنوں میں عمران خان کے ہاتھوں استعمال ہو تے رہے اب ان کااستحصال
کیا جارہا ہے۔پرانے ساتھیوں کوعہدوںسے ہٹاکر خالی ہونیوالے پارٹی منصب نئے
آنیوالے سیاستدانوں کودیے جارہے ہیں۔نظام کی تبدیلی کاخواب ابھی شرمندہ
تعبیر نہیں ہوا مگرعمران خان کے اصول اورنظریات ضرورتبدیل ہو گئے ہیں۔لوگ
عمران خان کی شخصیت یاان کے نظریات سے متاثرہوکرتحریک انصاف میں شامل نہیں
ہورہے بلکہ وہ بھیڑچال کے تحت آرہے ہیں۔یوتھ کوبھی عمران خان کے سیاسی
اہداف کااندازہ ہوگیا ہے اوراب ان میں وہ پہلے کی طرح جنون نہیں رہا۔عمران
خان نے جان بوجھ کرایساتاثردیا کہ پاکستان کی مقتدر قوتوں کاآشیربادان کے
ساتھ ہے اوراگلی حکومت تحریک انصاف کی ہوگی جس پروہ لوگ جن کو دوسری
جماعتوں سے پارٹی ٹکٹ ملنے کی امید نہیں تھی وہ تحریک انصاف میں آرہے
ہیں۔اس کنگزپارٹی کاانجام بھی قاف لیگ سے مختلف نہیں ہوگا۔ |