ضرورت اور نظریہ ضرورت

جب سے اللہ وحدہ لاشریک نے انسان کو اس دنیا میں بھیجا ہے تب سے کچھ ضروریات بھی اس کے ساتھ نتھی کردی گئی ہیں۔ کچھ ضروریات تو ایسی ہیں کہ ان کے بغیر انسان کا گذارا ممکن نہیں ہے اور نہ ہی افزائش نسل کا سلسلہ برقرار رہ سکتا ہے۔ بلکہ اگر اس طرح کہا جائے کہ ضرورت وہ امر ہے جس کے بغیر گزارا ممکن ہی نہ ہو تو شائد زیادہ بہتر ہے۔ کھانا، پینا، سانس لینا، افزائش نسل کے لئے شادی کرنا (یا جوڑے بنانا) وغیرہ وغیرہ سمیت کچھ عوامل ایسے ہیں کہ اگر وہ نہ ہوں تو انسان کی زندگی آگے نہیں چل سکتی اور یہ اصل میں ضروریات زندگی ہیں۔ ہر انسان کا، جب وہ شعور کی دہلیز پر پہنچتا ہے تو زندگی گزارنے، ایک اچھا یا برا انسان بننے اور کچھ حاصل کرنے کا کوئی نہ کوئی نظریہ اور اصول ضرور ہوتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ نظریہ یا اصول مثبت ہے یا منفی، چاہے صرف زندگی کو گزارنے کی سعی کرے لیکن اس کے تحت الشعور میں کہیں نہ کہیں کسی نظرئے اور اس کی بنیاد پر اصولوں کا وجود لازمی طور پر مخفی یا ظاہر، موجود رہتا ہے۔نظرئے کا ہونا بھی اللہ کی جانب سے ایک رحمت ہے اور بغیر نظرئے کے انسانی نہیں بلکہ جانوروں کی سی زندگی گزرتی ہے۔ اگر کسی کے زندگی گذارنے کے اصول و ضوابط نہ ہوں اس کا کوئی نظریہ زندگی نہ ہو تو اس کی اور کسی چوپائے کی زندگی میں کیا فرق رہ جاتا ہے لیکن مسائل تب پیدا ہوتے ہیں جب ضروریات کے لئے اپنے نظریات ، اصول اور ضابطے تبدیل کرلئے جاتے ہیں۔

پاکستان بھی ایک نظرئے کی بنیاد پر وجود میں آیا، اللہ تعالیٰ نے برصغیر کے مسلمانوں کے نظرئے کی لاج رکھی ان کی قربانیوں کا صلہ ایک ایسی سرزمین کی صورت میں دیا جہاں دنیا جہان کی ہر نعمت موجود تھی۔ اگر ہم اللہ کی مہربانیوں کو گننے کی کوشش کریں تو شائد ممکن ہی نہ ہو لیکن پاکستان بنتے ہی یہاں پر اللہ کے نظام کے نفاذ اور اللہ کے دئے ہوئے نظریہ کے علاوہ تقریباً سبھی نظام ہائے زندگی اور نظریات کا پرچار اتنے شدو مد سے شروع ہوا کہ پاکستان بنانے کی سعی کرنے والے اور قربانیاں دینے والے پس منظر میں چلے گئے اور وہ لوگ جو پہلے انگریز کے دور میں میں بھی صاحبان اقتدار تھے، پاکستان کی بھاگ دوڑ بھی انہی کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ یہیں سے پاکستان کے تمام اداروں اور خصوصی طور پر عدلیہ میں ”نظریہ ضرورت“ کو فروغ دیا گیا جو کم و بیش پوری طاقت کے ساتھ پرویز مشرف کے مارشل لاءتک جاری و ساری رہا۔ یہاں میں یہ بات کہنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ عدلیہ کی حد تک یہ نظریہ کسی حد تک ناقابل قبول اس لئے ہوا کہ مشرف کا دوسرا مارشل لاءصرف اور صرف عدلیہ کے لئے تھا اگر اس وقت بھی عدلیہ کو نہ چھیڑا جاتا تو شائد ہمارے ملک میں آج بھی مشرف براجمان ہوتا اور عدلیہ آج بھی اس کو من مانیاں کرنے اور آئین میں ترامیم کرنے کا اختیار دئے رکھتی۔ بہرحال انسانوں کی ”سکیمیں“ کچھ اور ہوا کرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی کچھ اور ، اس لئے جب سپریم کورٹ نے مشرف کی دوسری ایمرجنسی کے کیس میں یہ کہا کہ ہم نے بھی نظریہ ضرورت کو بحیرہ عرب میں دفن کردیا ہے تو دلوں کو بہت بھلا لگالیکن اس کے بعد ججز کیس میں اکثر ججز کو معافی دے کر نظریہ ضرورت کو کسی حد تک مان بھی لیا کیونکہ ”پیٹی بھائیوں“ کو سزا دینا شائد آج بھی کسی بھی ادارے کے لئے ممکن نہیں۔

اگر آج کے پاکستان کو دیکھیں تو ہر شخص، ہر ادارہ یہاں تک کہ ریاست بھی اپنی ضروریات کے لئے نظریات کو تبدیل کرتی نظر آتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کا بلا شبہ نظریہ یہی ہونا چاہئے کہ وہ اقتدار حاصل کریں اور اس اقتدار کے ذریعہ سے اپنے نظریات اور اصولوں کے مطابق ریاست اور اس میں بسنے والے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کریں، ان کو مکمل ضروریات زندگی، اچھا معاش اور اچھی معاشرت فراہم کریں۔ پاکستان بھی اسی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا اور نظریہ یہ تھا کہ یہاں اسلامی اصولوں کے عین مطابق زندگی گزارنے، حکومت کرنے اور انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے ایک تجربہ گاہ بنائی جائے، محمد علی جناح بھی اسی نظرئے کے پیروکار تھے اور اس کا وہ بجا اظہار بھی کرتے تھے اسی لئے تو ساری دنیا کی طاغوتی طاقتیں پہلے دن سے ہی پاکستان کی بطور اسلامی تجربہ گاہ ناکامی کی خواہش مند اور اس کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ پاکستان بنانے کی تحریک میں جہاں لاکھوں لوگ اپنی جانوں سے گئے اور ہزاروں عصمتیں لوٹی گئیں وہیں یہ بات بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہندوستان کے ان علاقوں کے مسلمانوں نے شائد موجودہ پاکستان کے علاقوں کے مسلمانوں سے زیادہ قربانیاں دی تھیں جن کو یقین تھا کہ ان کے علاقے کبھی پاکستان میں شامل نہیں ہوسکتے لیکن انہوں نے اس لئے اپنا دھن، من ، تن، عزت و آبرو کی قربانیاں دی تھیں کہ پاکستان کی صورت میں انہیں ایک مضبوط سہارا مل جاتا۔ وہ تو یہ خواب دیکھ رہے تھے کہ پاکستان میں محمد بن قاسم کے روحانی فرزندوں کی حکومت ہوگی کہ جو ایک مسلمان عورت کی پکار پر ہزاروں میل دور سے بھاگا چلا آیا تھا، ان کی تو یہ سوچ تھی کہ پاکستان کے جرنیل خالد بن ولید کے نقوش ہائے قدم پر چلیں گے، ان کو کیا پتہ تھا کہ یہاں کے جرنیل ایوب اور یحییٰ ہوں گے، یہاں کے فوجی سربراہ ضیاءالحق اور مشرف جیسے بے ایمان اور منافق ہوں گے جو نہ تو اسلام کے وفادار ہوں گے اور نہ مملکت پاکستان کے، جو صرف امریکہ کے جوتے پالش کرنے کو اپنا اعزاز سمجھیں گے۔ ہندوستان کے مسلمان تو ہم پاکستانیوں سے بھی زیادہ اس ملک سے محبت کرتے تھے۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید ایک جگہ فرماتے ہیں کہ 1971 ءکی جنگ کے دوران وہ مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے ، جب جنگ چھڑی تو ان کی وہاں موجود ہندوستانی طلباءسے اکثر بحث ہوا کرتی تھی لیکن ایک رات وہ جب حرم نبوی میں موجود تھے تو ایک ہندوستانی طالب علم رو رو کر، گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے پاکستان کی فتح کے لئے دعا کررہا تھا، علامہ صاحب کہتے ہیں کہ مجھے بڑی حیرت ہوئی اور جب میں نے اسے پوچھا تو کہنے لگا کہ ہندوستان ہمارا وطن ہے اس ناطے تم سے بحث کررہا تھا لیکن پاکستان تو ہمارے دلوں میں ہے، پاکستان میں تو ہماری جان ہے....!

اگر آج لوگ دوسری جماعتوں کو چھوڑ کر عمران خان کے ساتھ شامل ہورہے ہیں اور دھڑا دھڑ ہورہے ہیں تو اسے عمران خان کی کامیابی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ میں بھی اوروں کی طرح بظاہر خوش ہوں کہ چلو اچھا ہے اگر کپتان ٹھیک ہو، اگر لیڈر ٹھیک ہو، اگر راہبر کی نیت ٹھیک ہو تو نیچے والے بھی ٹھیک ہوجاتے ہیں، اگر سربراہ کرپشن نہیں کرے گا تو وہ کسی کی کرپشن کو کم از کم تحفظ تو نہیں دے گا لیکن ایک بات مجھے شش و پنج میں مبتلا کئے رکھتے ہیں، اضطراب ہے کہ ختم نہیں ہوتا کہ اگر یہ لوگ اتنی بڑی تعداد میں تحریک انصاف میں جمع ہوگئے جن کا نظریہ صرف اور صرف حکومت حاصل کرنا ہے، جن میں سے کچھ نہ کچھ پرکرپشن کے الزامات بھی موجود ہیں، جو جس جماعت میں بھی چلے جاتے ہیں اس کے سربراہ کو امیر المومنین ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیںوہ اپنی ذات اور ذاتی فائدے کے لئے ہر اصول، ہر قانون، ہر ضابطے اور ہر نظرئے کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں، اگر کل کلاں کو عمران خان کلین سویپ کر بھی لیتے ہیں اور ان لوگوں کے سر پر حکومت بھی بنا لیتے ہیں تو کیا یہ ان کو چلنے دیں گے؟ اس وقت عمران خان کی حالت کیا ہوگی جب ان کی پارٹی کے لوگ بھی ”فارورڈ گروپ“ یا تحریک انصاف ”فلاں“ گروپ بنا لیں گے، اس وقت کے لئے عمران خان نے کیا سوچ رکھا ہے؟ یہاں ایک بات واضح کرنی بہت ضروری ہے کہ اگر یہ سب لوگ ”غیر مشروط“ طور پر اپنے نظریات کو بدل رہے ہیں اور عمران خان یا تحریک انصاف کے نظرئے پر جمع ہورہے ہیں تو عمران خان کو اپنی اور یہاں کے عوام کی تسلی کے لئے ان سب لوگوں سے جماعت میں شامل کرتے ہی بر سر عام جلسوں میں حلف لینا چاہئے کہ میں ا ب کبھی اس نظرئے اور ان اصول و ضوابط کی خلاف ورزی نہیں کروں گا تاکہ مستقبل میں اگر وہ کسی اور جماعت میں شامل بھی ہوں تو عوام میں دوبارہ جانے کی ہمت و حوصلہ نہ کریں۔ عمران خان کو بھی اپنے نظریات اور اصول ہرگز قربان نہیں کرنے چاہئیں جن کو لیکر وہ پندرہ سال سے چل رہے ہیں اگر اس موقع پر انہوں نے اپنے اصولوں، نظریات اور افکار کی قربانی دیدی، کرپٹ لوگوں سے مفاہمت کرلی تو شائد وہ دوبارہ ان کے سامنے سر اٹھانے کے قابل نہ ہوسکیں۔ جاوید ہاشمی جیسے لوگ جو نظریات کے لئے جان بھی قربان کرنے کو تیار ہوں، وہ عمران خان کا اثاثہ ہوسکتے ہیں لیکن چھان بورہ نہ صرف ان کو خراب کرے گا بلکہ ان کے کارکنوں کو بھی بد دل کرے گا، اس سے پرہیز وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ کراچی کے جلسے کے بعد ایک نئی لائن لگے گی، چھاننی کی ضرورت جتنی اب ہے اتنی الیکشن کے وقت نہیں ہوگی کیونکہ اس وقت اتنا موقع نہیں ملے گا خصوصاً جب پارلیمانی بورڈ بھی انہی لوگوں پر مشتمل ہوا جو چڑھتے سورج کے پجاری ہیں تو وہ بھی ایک مافیا کی طرز پر انہی لوگوں کو ٹکٹ جاری کریں گے جو مستقبل میں انہیں سپورٹ کرنے کی یقین دہانی کرائیں گے۔ ایک اصول ابھی سے بنا لیں کہ چا ہے کوئی کتنا بڑا نام تحریک انصاف میں شامل ہوجائے وہ اس پارلیمانی بورڈ کا رکن نہیں بن سکے گا چاہے وہ شاہ محمود قریشی ہو یا مخدوم ہاشمی۔ ابھی سے اپنے نظرئے کو سب سے اہم رکھیں، ضروریات کو نظریہ نہ بنائیں۔ وما علینا ....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222548 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.