جاوید ہاشمی کی شمولیت ۔۔۔تحریک انصاف کا سیاسی یوم عید
(سید عابد گیلانی, اسلام آباد)
آج 24دسمبر2011کا دن تحریک انصاف
کے لئے بجا طور پر ”سیاسی یوم عید“ ہے ۔تحریک کے کارکنوں اور چیئرمین عمران
خان کے چہروں پرخوشی کی لہریں رقص کر رہی تھیں۔جب وہ بڑے احترام اور نیاز
مندی کے ساتھ پرچوش کارکنوں کے ہمراہ کراچی ائیر پورٹ پر انتہائی قابل
احترام قومی رہنما مخدوم جاوید ہاشمی کا استقبال کر رہے تھے۔مخدوم شاہ
محمود قریشی کی شمولیت نے پیپلز پارٹی کو وہ نقصان نہیں پہنچایا جو جاوید
ہاشمی کے تحریک انصاف میں جانے سے مسلم لیگ ن کو پہنچا۔بالکل اسی طرح اتنی
خوشی تحریک انصاف کے کارکنوں کو مخدوم قریشی کی شمولیت پر نہیں ہوئی جو
مخدوم ہاشمی کے شامل ہونے پر ہوئی۔اور ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ جاوید
ہاشمی کے پاس مال و دولت نہیں عزت و احترام ہے ۔
چوہدری نثار کہتے ہیں ”ایک خاص ایجنسی لوگوں کو تحریک انصاف کی طرف دھکیل
رہی ہے“۔کم از کم چوہدری نثار کو جاوید ہاشمی پر یہ الزام لگانے سے پہلے
ایک نظر ان کے ماضی پر ڈال لینی چاہیے تھی۔ایک بے داغ شخص پر یہ الزام ان
کی اپنی تضحیک کے سواءکچھ نہیں ۔چوہدری نثار علی خان دو ربین لے کے بھی
دیکھنے کی کوشش کریں گے تو جاوید ہاشمی کے دامن پہ کوئی دھبہ نظر نہیں آئے
گا ۔اسلئے بہتر ہے ن لیگ کی قیادت مزید بیان بازی کر کے اپنی تضحیک نہ
کروائے۔
مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف ”فرماتے “ہیں”تحریک انصاف میں جاوید
ہاشمی کی شمولیت پر دعا گو ہوں۔اچھا ہوتا کہ وہ مجھے خدا حافظ کہہ کر جاتے
۔“ بہت معذرت کے ساتھ میاں صاحب کیا آپ سے کارکن یہ سوال پوچھنے کا حق
رکھتے ہیں کہ انہیں خدا حافظ نہ کہنے کی حالت تک کس نے پہنچایا؟کیا انا نے
سود و زیاں سے بے نیاز کر دیا ہے ؟ آپ خود اپنی انا کے خول سے نکل کر جاوید
ہاشمی کے پاس چلے جاتے تو شاید وہ بھی کچھ نہ کچھ مروت کا مظاہر ہ ضرور
کرتے ۔وہ آپ کو کیوں خدا حافظ کہہ کر جاتے ۔
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
راقم نے 5اگست2011کو اپنی ایک تحریر ”سیاسی جماعتوں میں کئی کئی جاوید
ہاشمی رُل رہے“ میں اسی طرف نشاندہی کی تھی۔جس کا سامنا آج مسلم لیگ ن کو
کرنا پڑ رہا ہے۔اب مزید کسی دھچکے سے بچنا چاہتے ہیں تودوسروں کوالزام دینے
کی بجائے اپنے اور اپنی انجمن ستائش باہمی کے بارے میںنظر ثانی کریں۔
”اگر مسلم لیگ ن سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت مخدوم جاوید ہاشمی
جیسی راست گو شخصیات کے سچ بولنے کی عادت کے بوجھ کو برداشت کر سکیں تو میں
پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اجتماعی سیاسی قیادت اور سیاسی منظر پر بہت
جلد نمایاں اور مثبت تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔۔۔اپنی تحریروں میں بہت
مرتبہ لکھا ہے کہ اعلیٰ قیادت اپنے ارد گرد”انجمن ستائش باہمی“ کی بجائے
۔۔۔دانش۔۔۔حکمت۔۔۔بصیرت۔۔۔تجربہ اور درد دل رکھنے والے افراد کو جگہ
دیں۔۔۔ایسے لوگوں کا جائز مقام دل سے تسلیم کریں۔۔۔جماعتوں کا اپنا عوامی
تاثر بہتر ہوگا۔۔۔مسلم لیگ ن نے تو جیسے تیسے سنیئر نائب صدر کی سیٹ ہاشمی
صاحب کو عطا فرما دی ۔۔۔مگر افسوس صد افسوس پیپلز پارٹی کے جس بھی لیڈر میں
ذرہ سی بھی ”ہاشمی “ روح تھی اس کو وہ تذلیل کی گئی کہ ایسے تمام افراد نے
پس منظر میں چلے جانے میں ہی عافیت سمجھی۔۔۔راست گوئی۔۔۔دانش اور اخلاص کی
توہین کرنے والی جماعتیں کبھی پھل پھول نہیں سکتیں۔۔۔اختلاف رائے
تو۔۔۔اصلاح، تحرک اور ترقی کی ضمانت ہے۔۔۔مثبت تنقید تعمیر کے نئے نئے
دروازے کھولتی ہے۔۔۔یقین کریں تمام سیاسی جماعتوں میں کئی کئی ”’جاوید
ہاشمی“موجود ہیں مگر اپنی اپنی سچائی کی وجہ سے ”رُل“ رہے ہیں۔۔۔پڑھنے
والوں کی تفریح طبع کے لیے۔۔۔ایک ویگن کے پیچھے لکھا ہوا ایک جملہ
پڑھیے۔”رُل تے گئے ہاں پر چَس بڑی آئی“۔۔۔ ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے میں
”چَس“ تو بڑی آتی ہے مگر وقتی طور پر ایسے لوگ”رُل“ ضرور جاتے ہیں۔۔۔مگر
المیہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی ٹاپ لیڈر شپ۔۔۔مذہبی رہنما۔۔۔ روحانی
پنڈت۔۔۔سب کے سب غیر اعلانیہ طور پر اپنے آپ کو خدائی منصب پر بٹھائے ہوئے
ہیں۔ سیاسی جماعتیں ذاتی جاگیریں اور کارکن مزارع سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں
رکھتے۔اصلاح احوال کی کوشش کرنے والے کو۔۔۔باغی۔۔۔گستاخ۔۔۔سازشی اور اس طرح
کے بہت سے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ جاوید ہاشمی نے قومی اسمبلی کے اجلاس
سے خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ”مسلم لیگ ن بھی اپنے دور حکومت میں
کراچی میں امن قائم نہیں کرسکی۔۔۔انہوںنے کہاکہ پنجاب کے مزید چار صوبے
ہونے چاہیں۔۔۔اور مسلم لیگ ن اس میں پہل کرے۔۔۔مجھے نہیں معلوم کہ اس بے
باک طرز عمل کو پارٹی قیادت کس طرح دیکھے گی۔“وہ پارٹی کے اندر اور باہر
بھی کھلی اور سچی باتیں کرتے تھے ۔پارٹی قیادت پر تنقید بھی کرتے تھے ۔اب
وہ مسلم لیگ ن سے اپنی 24سالہ رفاقت توڑ کر تحریک انصاف سے ناطہ جو ڑ چکے
ہیں۔یہ بجا طور پر تحریک انصاف کی پہلی بڑی سیاسی کامیابی ہے ۔اگر سفر اسی
طرح جاری رہا تو میں ہرگز یہ نہیں لکھ سکوں گا کہ میری بکل دے وچ
چورنی۔میری بکل دے وچ چور ۔خان صاحب کا بھی امتحان شروع ہو چکا ہے کہ وہ اس
طرح کے بے باک لیڈروں کو سنبھال پائیںگے ؟ 25دسمبرکو تحریک انصاف کا جلسہ
مزار قائد پر ہونے جا رہا ہے۔یہ جتنا بڑا ہوگا اور مزید جتنے قدآور لوگ بھی
شامل ہوں گے ۔پھر بھی جاوید ہاشمی کی شمولیت سے بڑی خبر اور کوئی نہیں ہو
سکتی ہے ۔باقی جماعتوںمیں ”جاوید ہاشمی “ کی طرح رلنے والے لوگ بھی اگر ایک
پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوگئے تو حقیقی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا
ہے۔تحریک انصاف کے کارکنوں اور عمران کو پہلی بے داغ ، جمہوری اور قومی
شخصیت کی شمولیت پر مبارک ہو۔ |
|