آج اس شخصیت کی پیدائش کا دن ھے
جس کی تصویریں پاکستان میں سب سے زیادہ چھپتی ھیں مگر بہت کم لوگوں کے
گھروں کی دیواروں پہ ان کی کوئی تصویر نظر آئے گی ۔ مگر ھم اپنا ایمان
بیچتے ھوئے دوسروں کے ضمیر کا سودا کرتے ھر جائز و نا جائز کام کرواتے ھوئے
انھیں کی تصویر سے کام چلاتے ھیں ۔ جی ھم نے انھیں نوٹوں پہ سجا رکھا ھے
جنھیں ھم اپنا قائد کہتے ھیں ۔ سارے ملک کا نظام انھیں کی تصویروں کی بدولت
چل رھے ھے ۔
ان کی تصاویر ان کی تقاریر ان کے اقوال تو ھم نے " ناجائز اثاثوں " کی طرح
چھپا کر رکھا ھوا ھے کہیں ان کو ھوا نہ لگ جائے اور کسی چھوت کی بیماری کی
طرح پھیل نا جائے - لوگ پاکستان بننے کے مقصد کے سمجھنے نا لگ جائیں-
ھم روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کو پچھلے تنتالیس برس سے خوشی خوشی لگا رھے
ھیں یہ نعرہ لگانے والے یہ نہیں جانتے امن و اماں بھائی چارے کی فضا کے
ساتھ ساتھ تعلیم صحت کی سہولیات کی بھی بہت ضرورت ھے مگر نعرہ دے کر سب کچھ
چھین لیا ۔ اتحاد ایمان اور تنظیم کو بھول کر روٹی کپڑا اور مکان حاوی ھو
گیا ھے -
قائد ِ اعظم کے ھمیں پاکستان دیا ھم نے انھیں مزار دیا ۔ جہاں لوگ ماضی میں
نہیں جھانکتے بلکہ نوجوان نسل ھاتھ میں ھاتھ ڈالے مستقبل کے خواب دیکھتی ھے
اور سیاسی شخصیات اپنی محبت کے اظہار کے لیے سرکاری خرچے پہ پھولوں کی چادر
چڑھاتے ھیں قائد کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کا وعدہ کرتے ھیں پھر مزار سے
نکلتے ھی اپنے خوابوں میں کھو جاتے ھیں -
اگر کوئی قائد کا ذکر کرے تو لوگ سوچنے لگتے ھیں کس قائد کی بات ھو رھی ھے
آج کل قائد حضرات کی بھر مار ھو گئی ھے اینٹ اٹھاؤ تو کتنے ھی قائد چلبل
چلبل کرتے برآمد ھوتے ھیں جو اپنی سوچ میں اپنی ذات میں قائد ھوتے ھیں -
شکر ھے پہلے زمانے میں صرف ایک قائد تھے اگر اتنے قائد اور ایسے قائد اس
وقت ھوتے تو پاکستان بننا نا ممکن تھا -
قائد اعظم ایک شریف انسان تھے ایک بار پیدا ھوئے اپنی زندگی کے مقصد کو
اپنی زندگی میں حاصل کیا اس کے لیے اپنے سکون و آرام کی پرواہ بھی نہیں -
آج کل لوگ مر کر بھی زندہ رھتے ھیں گھر گھر سے نکلتے ھیں پھر بھی خواب کو
حقیقت میں نہیں بدل سکتے -
جو عہد ھم پچیس دسمبر کو کرتے ھیں تو وہ سارا سال یاد رکھیں اور عہد نبھانے
کی کوشش بھی کریں تو اچھا ھے - |