پیوستہ رہ شجر سے ، امید بہار رکھ
(Muhammad Sajjad Virk, Lahore)
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی
جناح کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اور خواہش ظاہر کی کہ ٓاپ ان کے ساتھ کام
کریں اور بدلے میں وہ ٓآپکو 1000روپے ماہانہ تنخواہ دیں گے۔اس وقت کے لحاظ
سے یہ بہت زبردست ٓافر تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح اس شخص کی بات سن کر
مسکرا دیے اور یہ کہہ کر ٓافرٹھکرا دی کہ ٓاپ ایک دن میں 1000سے زیادہ
کمانا چاہتے ہیں اورآپ مجھے یہ آفر ایک ماہ کے عوض دے رہے ہیں۔اور پھرقدرت
نے ان کو وہ دن بھی دیکھائے جب ٓاپ بہت اعلٰی درجے کے وکیل بنے اور
5000روپے ایک دن کی فیس چارج کرتے رہے۔اور پھر قیام پاکستان کے وقت جب آپ
پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے عہدے پر فائزہوئے اور بات آپکی تنخواہ کی
ہوئی تو آپ نے جان بوجھ کر اپنی تنخواہ ایک روپیہ مقرر کی تھی۔جب آپکے
ساتھیوں نے ایسا کرنے کی وجہ پوچھی تو آپ نے جواب دیاکہ اس وقت پاکستان
مشکل حالات سے دوچار ہے اور مجھے پیسے کی نہیں بلکہ ہمارے ملک کوترقی کے
لیے پیسے کی زیادہ ضرورت ہے۔اور اس وقت ہمیں اپنا نہیں اپنے ملک کا
مفادسوچنا چاہیئے۔
اب ایک نظر ہم اپنے سیاسی حکمرانوں کی طرف بھی دوڑاتے ہیں۔اس میں کوئی شک
نہیں کہ پاکستانی عوام تمام تر سیاسی پارٹیوں اورسیاسی حکمرانوں کو بڑی
جرات کے ساتھ برداشت کر رہی ہے۔اوراب ان کی پالیسیوں اورڈراموں سے تھک چکی
ہے۔ہمارے تمام سیاسی حکمران ملکی اثاثوں کو لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنے
میں مصروف ہیں۔ نوابزادہ لیاقت علی خان نے ایک مثال قائم کی. وہ واحد رہنما
ہیں جو بھارت میں ایک بڑی اسٹیٹ چھوڑآئے اور اپنی تمام تر جائیداد کے لئے
کبھی معاوضے کا دعویٰ نہیں کیا ۔اور جب انہوں نے وفات پائی تو ان کے اکاﺅنٹ
میں 1200روپے تھے۔ادھر ہمارے حکمران دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹ رہے ہیں
اور جائیدادیں بنا رہے ہیں۔ لیکن وہ پیسہ جس سے تمام زمینیں جائیدادیں
خریدیں جاتی ہیں وہ کیسے اور کہاں سے کمایاگیا؟؟یہ ایک قابل غور بات ضرور
ہے۔اورہمارے حکمران اپنے اثاثوں کو بڑھانے میں مصروف ہیں لیکن اپنے تمام
اثاثے عوام کے سامنے لانے کو تیار نہیں۔تمام حکمرا ن اس خوف میں مبتلا ہیں
کہ اگر تمام اصل حقا ئق عوام کے سامنے ٓا گئے توان کو بہت سارے سوالات کا
جواب دینا پڑے گا۔عوام ان سے صرف یہ پوچھتی ہے کہ یہ تمام اثاثے خریدنے کے
لیے پیسہ کہاں سے ٓایا؟ انہوں نے کس دور میں یہ کارنامے سرانجام دیے؟کہیں
یہ پیسہ حکومتی خزانے سے تو نہیں لوٹا گیا؟اور ان پر کب کب اور کتناٹیکس
ادا کیا؟بیرون ممالک جو اربوں روپیہ موجود ہے وہ کہاں سے ٓایا اور وہ پیسہ
ہمارے کی بجائے بیرون ممالک کیوں ہے؟؟وغیرہ وغیرہ۔۔۔
پاکستانی عوام اپنے منتخب کردہ حکمرانوں سے یہ پوچھنا چاہتی ہے کہ ایسی کیا
آفت آن پڑی تھی کہ اپنا سارا کچھ کیوں باہر رکھا ہوا ہے ؟کیا ان کو اس ملک
پر ذرا بھی یقین جس ملک میں پوری زندگی گزار دی جس ملک نے پیدا کیا،جس ملک
نے عزت دی دولت دی حکمرانی دی اور اسی ملک کے ساتھ غداری کر رہے ہیں۔ کیا
عوام نے ان کو اسی لیے اقتدار دیا تھا کہ وہ آئیں اپنے چند برس اقتدار میں
راج کریں ۔محلات میں زندگیاں بسر کریں اور پھر عوام کو غربت اور اندھیروں
میں چھوڑ کر بیرون ملک بھاگ جائیں۔اور عوام کو غریب سے غریب تر کر دیں۔کیا
عوام کا ان پر اور ان کا عوام پر کوئی حق نہیں؟؟
عوام کو ان کے بینک بیلنس ان کے کرڑوں روپے کے فلیٹس اور ان کی عیش و آرام
والی زندگی سے کوئی غرض نہیں،اگر عوام کو تین وقت کی روٹی، وقت پر بجلی،
گیس، ڈیزل پٹرو ل اور باقی تمام اشیا ءمناسب قیمت پر مل جائیں تو اتنے میں
ہی خوش ہیں۔ہمارے تمام حکمران جب حکومت میں ٓاتے ہیں تو یہی نعرہ بلند کرتے
ہیں کہ ہم عوام کو تمام بنیادی سہو لیات مہیا کریں گے اور پاکستان کو ترقی
یافتہ ملک بنائیں گے مگراپنے اقتدار میں آتے ہی ا ن کے سارے دعوے ہوا کے
بلبلوں کی ماند اڑ جاتے ہیں۔ہمارے تمام حکمران پاکستانی ہونے کے
باوجودبیرون ممالک اپنی جائیداد بنانا پسند کرتے ہیں اپنا زیادہ تر وقت
بیرون ملک ہی گزارتے ہیں اور ان کی ہی پالیسز کے مطابق ہی اپنے ملک کا نظام
چلاتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق ایوان صدر کے باورچی خانے کے لیے 26کروڑ کا کا بجٹ مختص
کیا گیا ہے۔اور ہمارے وزیراعظم اور صدرپاکستان کا روزانہ کا خرچ 14,14کروڑ
ہے۔اور ہمارے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے باغوں کی دیکھ بھال کے لیے
پندرہ لاکھ روپے کا بجٹ الگ سے ہے ا ور اس کے علاوہ غیر ملکی دوروں کے لیے
ڈیڑھ ارب روپے بجٹ میں مختص کیے ہیں۔ان تمام حقا ئق سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے
کہ ہمارے حکمران بادشاہوں کی سی زندگیاں بسر کر رہے اور عوام بھوک ،پیاس سے
مر رہے ہیں۔ہمارا ملک قرضوں کی لپیٹ میں ہے۔دن بدن ہمارے حالات بدتر سے
بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ اور یہ لوگ عالی شان محلات میں عیش کرتے ہیں۔
بچپن سے ہی میں تصور کرتا تھا کہہ ا داکار اور سیاسدان میں کوئی خاص فرق
نہیں ہوتا۔دونوں ہی اپنااصل روپ چھپا کر عوا م کے سامنے آتے ہیں اورعوام کی
توجہ مرکوز کرنے کی خاطر طرح طرح کے کردار نبھاتے ہیں۔لیکن چند روز قبل
ہونے والے واقعہ سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ اداکار پھر بھی سیاستدانوں سے
بہت بہتر ہوتے ہیں۔وہ عوام میں شہرت پانے کے لیے ہر طرح کا کر دار ادا کرتے
ہیںمگر سیا ستدان مر جائیں گے مگر عوام کو اصل حقائق سے کبھی ٓاگاہ نہیں
کرتے اور ملکی مفاد کی نسبت اپنے ذاتی مفاد کو تر جیح دیتے ہیں۔خدا تعالٰی
ان کی حالت پر رحم کرے۔
زمینیں جائیدادیں روپیہ پیسہ سب کچھ اس دنیا تک محدود ہے ۔موت بر حق ہے اور
ہر کسی کو خالی ہاتھ ہی اس دنیا سے رخصت ہونا ہے ۔اس دنیا میں تو خدائی کا
دعویٰ کرنے والے بھی نست و نابوت ہو گئے۔ یہ دنیا ہمیشہ اچھے لوگوںکوہی یاد
کرتی ہے۔کسی کا کیا ہوا ایک بھی نےک کام رائیگاں نہیں جاتا۔رہتی دنیا تک
لوگ اس کی اچھائی ،نیک نیتی اور اس کے کردار کو ےاد رکھتے ہیں۔اور مرنے کے
بعد بھی اس کو دعاﺅں میں یاد رکھتے ہیں۔آئیے ہم پوری قوم مل کر دعا کریں کہ
اللہ تعالٰی ہمارے حکمرانوں کو ملک کا بھلا سوچنے کی توفیق دے۔اور ہمیں
ایسے حکمران عطا کرے جو وطن عزیز کی ترقی اور خوشحالی میںاہم کردار ادا
کریں۔جو ملکی سالمیت اور ملکی وقار کی بات کریں۔جو اپنے ذاتی مفاد سے بڑھ
کر غریب عوام کو تحفط دیں۔ پاکستان کی ترقی میں دلچسپی لین اور پاکستان کو
صفحہ اول کے ممالک کی فہرست میں کھڑا کریں(آمین) |
|