میمو گیٹ نے پاکستانی سیاست و
حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے اس نے حکومت اور فوج کے درمیان ایک نا خوشگوار
ماحول کو جنم دیا اور فوج کے بارے میں غیر محتاط اور سیاسی مقاصد سے بھر
پور بیانات آئے۔ اس سارے معاملے کا مرکزی کردار امریکہ میں پاکستان کے سفیر
حسین حقانی کو حکومت نے ان کے عہدے سے بر طرف کر دیا اور ان سے استعفٰی لے
لیا گیا۔ سابق وزیراعظم محترم نوازشریف نے میمو کی تحقیقات کے لیے عدالت سے
رجوع کیا اور عدالت نے ملوث کرداروں سے جواب طلب کیا جن میں صدر پاکستان،
آرمی چیف، آئی ایس آئی چیف، حسین حقانی اور منصور اعجاز میں سے آخر الذکر
چارنے اپنے بیانات عدالت عظمیٰ میں جمع کروا دئیے۔ منجملہ دوسری باتوں کے
اس میمو میں امریکہ سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ افواج پاکستان کی قیادت
تبدیل کروانے اورایٹمی اثاثوں تک رسائی دینے کی بھی بات کی گئی جس پر نہ
صرف افواج پاکستان بلکہ پوری قوم کو شدید اعتراض ہے ۔ منصور اعجاز جس نے
اپنے مضامین کے ذریعے یہ طوفان اٹھایا بھی کوئی قابل اعتماد شخص نہیں اور
نہ ہی اس کے پاکستان کے لیے کوئی دردمندانہ اور نیک خواہشات ہیں۔ بلکہ وہ
ماضی میں بھی پاک فوج کے خلاف مضامین لکھتا رہا ہے اور شاید اسی لیے اس بار
بھی اس سازش کے لیے اس کا انتخاب کیا گیا۔ اس میمو سے دو مقاصد حاصل کر نے
کی کوشش کی گئی نمبر ایک فوج کے خلاف سازش اور پھر اس کا بھانڈا پھوڑ کر
فوج اور حکومت میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش ۔ بلکہ اس دو دھاری داری تلوار کو ہر
رخ سے پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اور اس میں مختلف اور نئے نئے
زاویے شامل کیے جا رہے ہیں ۔ مثلاََ یہ کہ ڈی جی آئی ایس آئی نے صدر
پاکستان کے خلاف سازش کی اور عرب حکومتوں سے مدد طلب کی کہ صدر صاحب کو
عہدے سے ہٹایا جا سکے اور اس کے ساتھ ہی وہ قوتیں جواب تک بظاہر خاموش تھیں
وہ بھی بول پڑیں ،بلکہ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس ایشیا نے بھی اپنے
خیالات کا اظہار فرمادیا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کو جمہوریت کے خلاف سازش
پر سزا ملنی چاہیے۔ یوں وطن عزیز ہرایرے غیرے کی دشنام طرازی کا نشانہ بن
گیا اور اسکے ادارے چاہے وفاق ہو، پارلیمنٹ ہو، فوج ہو یا عدلیہ سب ہدف
تنقید بن ر ہے ہیں اور دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ خود ہم پاکستانی اس
سازش کی کامیابی میں پیش پیش ہیں حتیٰ کہ وزیراعظم نے کھُل کر فوج کے خلاف
سخت باتیں کہیں جو کہ ان کے عہدے کے ہر گز شایانِ شان نہ تھیں کیونکہ ایک
ملک کے سربراہ کو یہ ہر گز زیب نہیں دیتا کہ وہ اس طرح کی باتیں کرے مثلاََ
وزیراعظم نے ایک انتہائی نا مناسب بات یہ کی کہ ہم نے فوج کی تنخواہوں میں
اضافہ بھی کیا پھر بھی یہ لوگ مطمئن نہ ہوئے تو کیا ہماری فوج صرف تنخواہ
میں اضافے پر ملک کے لیے جذبات میں تبدیلی لائے گی، کیا یہ کرایے کے فوجی
ہیں۔ بہر حال ہمارے کرتا دھرتاؤں کو ،چاہے ان کا تعلق فوج سے ہو یا حکومت
اور عدلیہ سے وہ کوئی بھی بات کرنے سے پہلے اپنے عہدے کے وقار کو ملحوظ
خاطر رکھیں اور سب سے پہلے ملکی سلامتی کو مد نظر رکھے اور ساتھ ہی اس بات
کو بھی ذہن میں رکھے کہ کہیں ہمارے دشمن جو ہمہ وقت ہمارے خلاف سرگرم عمل
ہیں ہمیں ہی تو ہمارے خلاف استعمال نہیں کر رہے جیسے میمو کے تمام کردار
پاکستانی ہی ہیں لیکن اِن کو استعمال کرنے والے اور اس سے فائدہ اٹھانے
والے غیر۔ امریکہ عرصہ دراز سے اس کوشش میں مصروف ہے کہ کسی طرح پاک فوج
اور حکومت میں اختلافات پیدا کئے جا سکیں جس کے لیے پہلے کیری لو گر بل کا
سہارا لینے کی کوشش کی گئی پھر ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں فوج حکومت اور
عدلیہ تینوں کو گھسیٹا گیا اور متنازعہ فیصلے پر تنازع کھڑا کرنے کی کوشش
کی گئی اگر چہ اِن معاملات کو وقتی طور پر حل تو کر لیا گیا لیکن اِن کے
ذریعے اداروں میں نفرت کا بیج ضرور بودیا گیا اور اسی سال دو مئی کے واقعے
نے اس بد ظنی کو ناقابل علاج حد تک زیادہ کر دیا۔ دوسری طرف یہ طاقتیں جو
حکومت اور فوج کو لڑا کر ملک کو کمزور کرنے کے درپے ہیں خود بھی الزام
تراشی میں کسی سستی کا اظہار نہیں کر رہیں اور آئی ایس آئی پربراہ راست
دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام لگا رہی ہیں اور افغانستان اور بھارت
اپنے ہاں ہونے والے دہشت گردی کے ہر چھوٹے بڑے واقعے کی ذمہ داری آئی ایس
آئی پر ڈال رہے ہیں۔ ان اقدامات کو براہ راست آئی ایس آئی سے منسوب کرنے کا
مطلب یہ ہے کہ آئی ایس آئی اپنے مشنز کے لیے حکومت سے اجازت طلب نہیں کرتی۔
دشمن تو اپنا کام کر رہے ہیں کیونکہ اسی میں ان کا مفاد ہے اور ایک کمزور
پاکستان ان کے بقا کی ضمانت ہے کیونکہ یہی ایٹمی پاکستان انکے جارحانہ
عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ جس دن
پاکستان پورے دم خم سے اِن کی راہ میں کھڑا ہوگیاوہ اپنے ارادوں کو کم از
کم آسانی سے عملی جامہ نہیں پہنا سکتے۔ نیٹو سپلائی کی پابندی اسکی تازہ
ترین مثال ہے ، بے نتیجہ بون کانفرنس بھی پاکستانی قوت کا اظہار ہے اور
چاہے اِن دشمن قوتوں کو یہ سب کچھ بُرا لگا ہو تا ہم ملک کے اندر اس فیصلے
کو بے حد پزیرائی ملی اگر چہ یہ فیصلہ فوج اور حکومت کا متفقہ تھا لیکن اسے
بھی فوج کے کھاتے میں ڈال کر بین الاقوامی سطح پر اِسکے خلاف نفرت کی وجہ
بنانے کی کوشش کی گئی۔ بہرحال یہ فیصلہ حکومت نے کیا یا فوج نے قابل تحسین
ہے لیکن قابل تشویش بات یہ ہے کہ دشمن بڑی کامیابی سے دو دورائے پیدا کرنے
میں کامیاب ہو رہا ہے۔ اختلاف رائے انسان کا بنیادی حق ہے لیکن ملکی سا
لمیت اور قومی وقارمیں دو رائیں ہونا یقینا خطرناک ہے۔ اس معاملے میں ہمارے
کچھ اینکر پرسن جو الیکٹرانک میڈیا پر کافی حد تک قابو رکھتے ہیں مسلسل اس
مسئلے کو ہوا دئیے جا رہے ہیںتنقید برائے تعمیر میں کوئی حرج نہیں لیکن
تنقید برائے تنقید تباہ کن ہوتی ہے میڈیا سے میری یہی درخواست ہے کہ آپکے
چینل کی ریٹنگ ایک بہت چھوٹا ایشو ہے اس دوڑ میں ملک کو تباہی کے کنارے مت
پہنچائیے آپ کی ریٹنگ اگلی ششماہی میں بڑھ جائے گی لیکن ملک جو نقصان
اٹھائے گا اس کا مداوا بہت مشکل ہوگا ۔یہ وقت اداروں اور شخصیات کو لڑانے
کا نہیں بلکہ ملک و قوم میں اتحاد قائم کرنے کا ہے اور خود اپنی فوج اور
آئی ایس آئی کو شکست دینے کا نہیں بلکہ دشمن قوتوں کو ناکام کرنے کا ہے ،نہ
ہی یہ وقت فوج اور حکومت کا ایک دوسرے پر حملے کرنے کا ہے بلکہ سلالہ جیسے
حملے روکنے کا ہے، ڈرونز سے نجات حاصل کرنے کا ہے۔ امریکہ ، بھارت، اسرائیل
کی سازشوں اور افغانستان کے بد نیت حکمرانوں کے حیلوں کے توڑ کرنے کا ہے
اور اگر ہم اپنے اداروں کے خلاف برسرپیکار ہو گئے تو ہم کسی غیر کا جواب
دینے کے قابل نہیں رہیں گے۔ |