ذوالفقار علی بھٹو پی سی او کی
لٹکتی ہوئی تلوار کی تلخ حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے لہذا انھوں شیخ مجیب
الرحمان سے مذاکرات کا راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔ مجھے بہت سے ایسے جلسے
سننے کا اعزا حاصل ہے جہاں پر عوامی لیگ کے چھ نکات پر بڑی لمبی چوڑی
تقاریر ہو تی تھیں اور ا ن نکات کو چیر پھاڑ کر کے اصلی حقائق تلاش کرنے کو
کشش کی جاتی تھی۔ لیکن چونکہ مغربی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان کے خلاف
ایک خاص فضا تیار ہو چکی ہو ئی تھی لہذ مغربی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان
کی شخصیت کو کوئی بھی قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔مغربی پاکستان کے عوام کے
ذہنوں میں شیخ مجیب الرحمان کے بارے میں بڑے سخت تحفظات تھے اور وہ اسے ملک
دشمن قرار دیتے رہتے تھے لہذ مغربی پاکستان کے عوام کے بھر پور مینڈیٹ کے
بعد ذولفقار علی بھٹو کےلئے بھی شیخ مجیب الرحمان کےلئے نرم گوشہ رکھنا
ممکن نہیں تھا۔ آئین بنانے کےلئے دو تہائی اکثریت کی ضرو رت ہو تی ہے اور
شیخ مجیب الرحمان کے پاس سادہ اکثریت تو ضرور تھی لیکن اس کے پاس آئین
بنانے کی مطلوبہ تعداد ہر گز موجود نہیں تھی ۔آئین بنانے کی کلید ذوالفقار
علی بھٹو کے پاس تھی کیونکہ پی پی پی پارلیمنٹ کی دوسری بڑی جماعت تھی اور
اس کی حمائت کے بغیر آئین بنانا ممکن نہیں تھا۔ مغربی پاکستان کی ساری قابلِ
ذکر جماعتیں شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات کی سخت مخالف تھیں اور اسے غدارِ
وطن کے نام سے پکارتی تھیں۔ مغربی پاکستان کی ایک جماعت نیشنل عوامی پارٹی
(نیپ)نے شیخ مجیب الرحمان کی حمائت کا اعلان کیا تھا کیونکہ ان کی نظر میں
علاقائی سیاست کے شجر سے بر گ و بار پانے کے امکانات بہت زیادہ زر خیز تھے
اور وہ اپنی کھلی حمائت کے بدلے پختونستان کے دیرینہ مطالبے کو ثمر بار
ہوتے ہوئے دیکھ رہی تھی لیکن اس کے ممبران کی تعداد انتہائی قلیل تھی جو دو
تہائی اکثریت بنانے کی قدرت نہیں رکھتی تھی۔ پاکستان مسلم لیگ کے مختلف
دھڑے شیخ مجیب الرحمان کے سخت ناقدین میں سے تھے اور شیخ مجیب الرحمان کے
چھ نکات کو ملک توڑنے کی سازش قرار دیتے تھے مذ ہبی جماعتیں تو چھ نکات کی
وجہ سے مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ پہلے ہی بر سرِ پیکار
تھیں لہذا ان کا شیخ مجیب الرحمان کا ساتھ دینا بعید از قیاس تھا ۔
آئین ایک ایسی مقدس دستا ویز ہوتی ہے جسے سب نے مل کر تیار کرنا ہوتا ہے
کیونکہ دستور کسی جماعت کا نہیں ملک کا د ستور ہوتا ہے لہذا پارلیمنٹ کی
ساری جماعتوں کا اس پر اتفاقِ رائے ہونا ضروری ہوتا ہے۔1973 کا متفقہ آئین
بنانے کےلئے کئی سال لگ گئے حالانکہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ایوان میں دو
تہائی اکثریت حاصل تھی اورجماعتی آئین بنانا س کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا
لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اتفاقِ رائے سے ایسا آئین تشکیل دیا جو آج
بھی نافذالعمل ہے۔یہ ناممکن تھا کہ ایک سادہ اکثریت رکھنے والی عوامی لیگ
مقررہ 60 دنوں میں آئین سازی کے مراحل با آسانی طے کر لیتی یہی وجہ ہے کہ
ذوالفقار علی بھٹو اسمبلی کے اجلاس سے قبل شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ مل کر
آئین کے بنیادی خدو خال پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا چاہتے تھے تاکہ اسمبلی
میں جانے سے قبل ا ختلافی امور پر اتفاقِ رائے پیدا کر لیا جائے اور یوں
اسمبلی کے قتل کی واردات سے بچا جا سکے۔ چھ نکات پر چونکہ کسی بھی قابلِ
ذکر جماعت کا اتفاق نہیں تھا لہذا آئین کا مدون ہونا بعید ازقیاس تھا۔ اس
بات کو ایک اور انداز سے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ موجودہ اسمبلی میں
پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کو واضح اکثریت حاصل ہے لیکن
اٹھارویں اور انیسویں ترمیم کی منظوری کےلئے اسے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ
لگ گیا لہذا یہ کیسے ممکن تھا کہ پاکستان کا متفقہ آئین ساٹھ دنوں کی قلیل
مدت میں مدون ہو جاتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ فوجی جنتا پاکستان میں اپنے اقتدار
کو دوام دینا چاہتی تھی اور اقتدار سیاسی قوتوں کے حو الے نہیں کرنا چاہتی
تھیں جس کےلئے انھوں نے 60دنوں کی تلوار لٹکا رکھی تھی۔ جنرل یحی خان ہر
حال میں صدارت کے منصب پر فائز رہنا چاہتے تھے اور یہ تلوار اسی مقصد کے
پیشِ نظر لٹکائی گئی تھی جب کہ سیاسی قوتیں کسی جنرل کی جگہ سیاسی قائدکو
اس منصب پر فائز دیکھنے کی آرزو مند تھیں۔ اقتدار سے فوجی جنتا کی مسلسل
دلچسپی ہی اس سانحے کی اصل بنیاد ہے اور اس بنیاد کی پہلی اینٹ اس دن ر کھی
گئی تھی جب جنرل ایوب خان نے ملک پر پہلا مارشل لاءنافذ کیا تھا۔حد تو یہ
کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھی جنرل یحی خان اقتدار سیاست دانوں
کے حو الے کرنے کےلئے تیار نہیں تھا وہ تو اب بھی اپنی صدارت کا خواب دیکھ
رہا تھا لیکن جی ایچ کیو میں دوسرے فوجی جرنیلوں کی بغاوت نے اسے مجبور کیا
کہ وہ اقتدار مغربی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کے قائد ذولفقار علی بھٹو
کے حوالے کردے تا کہ باقی ماندہ پاکستان کو بھارتی یلغار سے بچانے کا
اہتمام کیا جا سکے۔۔۔
سیاست میں مذاکرات کی اہمیت سے کوئی بھی ذی شعور انسان انکار نہیں کر سکتا
یہی وجہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے آئین سازی کی مشکل صورتِ حال پر قابو
پانے کےلئے ڈھاکہ جانے کا فیصلہ کیا تا کہ کسی طرح سے شیخ مجیب الرحمان کو
چھ نکات میں لچک پیدا کرنے کےلئے آمادہ کر سکیں لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا
کیونکہ شیخ مجیب الرحمان نے ذولفقار علی بھٹو کی پیشکش کو ٹھکرا دیاتھا۔
شیخ مجیب الرحمان پر بھارت کا شدید دباﺅ تھا کہ وہ آزاد بنگلہ دیش کے قیام
کا اعلان کریں۔ شیخ مجیب الرحمان کی ساری توجہ اب اپنے اسی ھدف کے حصول پر
مرکوز تھی اور وہ کسی کی بات کو در خورِ اعتنا نہیں سمجھ رہا تھا۔ اتنی
واضح جیت کے بعد ان کے دماغ میں اس طرح کی سوچ کا ابھرنا ایک فطری ردِ عمل
تھا کیونکہ جو وعدے اس نے بنگالی عوام کے ساتھ کئے تھے اور جن کی بنیاد پو
عوام نے اسے بے پناہ حمائت سے نوازا تھا اس سے انحراف کرنا شیخ مجیب
الرحمان کےلئے بھی ممکن نہیں تھا مذ اکرات کی ناکامی میں ایک اہم عنصر یہ
بھی تھا کہ شیخ مجیب الرحمان کی بے مثال کامیابی نے اس کے دما غ کو ساتویں
آسمان پر پہنچا دیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح سے
چھ نکات پر کوئی مفاہمتی راہ نکل آئے لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا ۔ مغربی
پاکستان والوں کا چھ نکات کا نام سن کرخون کھول جاتا تھا اور پاکستان پیپلز
پارٹی نے مغربی پاکستان میں ہی فتح حاصل کی تھی لہذا وہ اپنی جیت سے بھی بے
وفائی کی مرتکب نہیں ہو سکتی تھی۔پی پی پی کا یہ استدلال تھا کہ چھ نکات
پورے پاکستان کو آزاد ریاستوں میں تقسیم کرنے کی سازش ہے لہذا وہ اس کا حصہ
نہیں بنناچاہتی۔وہ چھ نکات کی مخالف تھی کیونکہ پاکستان کی محبت اس کی
مخالفت کا تقاضہ کر رہی تھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مفاہمت کی فضا پیدا
کرنے کےلئے چھ نکات میں سے چند نکات کو تسلیم کرنے کا اعلان بھی کیا لیکن
شیخ مجیب الرحمان اپنی جیت کے نشے میں اتنا مدھوش تھا کہ اس کے کان سچائی
کی آواز سننے ،اس کا دماغ سچائی کا ادراک کرنے اور اس کی آنکھیں زمینی
حقائق کو دیکھنے سے قاصر تھیں لہذا اس نے اس پیشکش کو کوئی اہمیت نہ دی اور
اپنی دھن میں آگے بڑھتا چلا گیا۔
جنرل یحی خان نے انتخابات کے چند ہفتوں بعد ڈھاکہ میں آئین ساز اسمبلی کا
پہلا اجلاس مارچ کے مہینے میں بلانے کا اعلان کر دیا لیکن ذولفقار علی بھٹو
نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا کیونکہ بھٹو صاحب کا خیال تھا کہ چھ نکات کی
روشنی میں آئین ساز اسمبلی کا یہ اجلاس پاکستان کی یکجہتی کے لئے سنگین
خطرہ ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے مو قف کے حق میں عوامی رائے عامہ کو
ہموار کرنے کےلئے اقبال پارک لاہور میں ایک تاریخی جلسے کا اہتمام کیا ۔
مجھے اس جلسے کو سننے کا شرف حاصل ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ جو
ڈھاکہ جائےگا اس کی ٹاگیں توڑ دی جائیں گی کیونکہ یہ اجلاس پاکستان کے حصے
بخرے کر نے کی سازش ہے ۔ ذولفقار علی بھٹو نے ارکانِ اسمبلی کو وارننگ دی
کہ وہ ایک طرف کا جہاز کا ٹکٹ لے کر ڈھاکہ جائیں کیونکہ جو اس مجوزہ اجلاس
میں شرکت کےلئے ڈھاکہ جائے گا اسے واپس نہیں آنے دیا جائے گا۔ ذوالفقار علی
بھٹو نے ایک بہت لمبی چوڑی تقریر کی لیکن انکی تقریر کے آخری الفاظ اتنے
جذباتی تھے کہ اتنے سال گزرنے کے باوجود بھی میں انہیں فراموش نہیں کر پایا
۔ ذولفقار علی بھٹو نے بڑے درد آمیز لہجے میں کہا تھا کہ اے راوی کی لہرو
،اے بادشاہی مسجد کے مینارو ۔ اے شاہی قلعے کی دیوارو ، اے زندہ دلانِ
لاہور یا د رکھنا ہم مینارِ پاکستان کو کبھی بھی یادگارِ پاکستان نہیں بننے
دیں گئے۔
خوف و ہراس کی اس فضا میں جنرل یحی خان نے مارچ کا اجلاس ملتوی کر دیا تاکہ
حالات کی بہتری کےلئے نئے امکانات تلاش کئے جا سکیں ۔ شیخ مجیب الرحمان
کےلئے اسمبلی کا التوا کسی د ھماکے سے کم نہیں تھا لہذعوامی لیگ نے گھیراﺅ
جلاﺅ کی تحرییک شروع کر دی اور آزاد بنگلہ دیش کا باقاعدہ اعلان کرکے چھ
نکات کو عملی جامہ پہنانے میں جٹ گئے ۔مارچ 1971 میں جنرل یحی خان نے مشرقی
پاکستان کی بدلتی صورتِ حال کے پیشِ نظر فوجی اپر یشن کا حکم صادر کر دیا
۔بھارت پہلے ہی ایسے موقع کی تلاش میں تھا۔ فوجی اپریشن کے بعد عوامی لیگ
کے سارے شدت پسند کارکن بھارت فرار ہو گئے اور بھارت نے انھیں اسلحے سے لیس
کر کے مکتی با ہنی کے نام سے آزادی کی جنگ لڑنے والے دستوں کو مسلح کرنا
شروع کر دیا۔ مکتی باہنی اور پاکستانی فوج کا آمنا سامنا ہی آزادبنگلہ دیش
کے قیام کی پہلی اینٹ تھی اور پھر اس تصادم میں روز بروز اضافہ ہو تا چلا
گیا۔ بنگالی پاکستانی فوج سے نفرت کرنے لگے اور بھارتی فوج کی محبت کے گیت
گانے لگے۔ بھارت نے اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھا کر ایسی من گھڑت کہانیاں
تخلیق کیں جس میں پاکستانی فوج کے مظالم کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور
پوری دنیا میں اس کی تذلیل کی گئی ۔آبرو ریزی ، قتل اغوا اور تشدد کے
واقعات روزمر کا معمول بن گئے لیکن ان سارے واقعات کا الزام پاکستانی فوج
کے سر تھوپ دیا گیا تا کہ بنگالیوں کی نفرت کو ہوا دی جا سکے حالانکہ سچ یہ
تھا کہ ان سب واقعات کے پیچھے بھارتی ایجنٹ تھے جو ایسے واقعات کو جنم دے
رہے تھے تا کہ پاک فوج کے خلاف بنگالیوں کی نفرت کو شدید کیا جا سکے ۔حالات
دن بدن بد سے بد تر ہو تے چلے گئے اور پاکستانی فوج مشکلات میں گرتی چلی
گئی۔ جب معاملات بالکل ہاتھ سے جاتے ہوئے محسوس ہوئے تو پھر جنرل یحی خان
نے جنرل ٹکا خان کو مشرقی پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ جنرل ٹکا خان نے
آزاد بنگلہ دیش کی تحریک کو قوت سے کچلنے کی بڑی کوشش کی لیکن بہت دیر ہو
چکی تھی لہذا وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اب یہ جنگ بنگالیوں اور پاکستانی
فوج کے درمیان نہیں تھی بلکہ یہ جنگ بھارت اور پاکستان کے درمیان تھی اور
عوامی حمائت کے بغیر بھارتی فوج کا مقابلہ کرنا پاکستانی فوج کےلئے ممکن
نہیں تھا۔
مسلم لیگ ، جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتوں کے کارکن فوجی حمائت کا
مظاہرہ کر رہے تھے لیکن ان کی طاقت دن بدن دم توڑتی جا رہی تھی۔ا لبدر اور
ا لشمس تنظیموں کے ہزاروں کارکن مکتی با ہنی اور عوامی لیگ کے مسلح کارکنوں
کے ساتھ کھلی جھڑ پوں کا منظر پیش کرتے تھے اور انھیں پاک فوج پر حملوں سے
روکنے میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے ۔بنگلہ دیش کے کیمپوں میں جو لاکھو ں
لوگ مہاجرین کی زندگی بسر کر رہے ہیں ان میں ا کثریت انہی لوگوں کی ہے
جنھوں نے عوامی لیگ اور مکتی با ہنی کے خلاف مزا حمت کی تھی۔ان لوگوں کی
اکثریت کا تعلق مسلم لیگ اور مذہبی جماعتوں سے تھا۔پاکستان پیپلز پارٹی کی
حکومت نے ایک وقت میں کیمپوں میں مقیم ان افراد کی ایک خاص تعداد کی
پاکستان میں آمد کو ممکن بنایا تھا لیکن بعد میں ایک لسانی تنظیم کے وجود
پذیر ہونے اور ان سارے افراد کے سندھ میں آبا د ہو جانے کی روش نے کیمپوں
سے ان افراد کی وطن واپسی میں ر کا وٹیں کھڑی کر دیں اور یوں لاکھوں
مہاجرین آج بھی کیمپوں میں پا کستا نی ہونے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ کراچی میں
لسانیت کی بنیادوں پر کشت و خون نے کیمپوں میں مقیم ان افراد کی وطن واپسی
میں مزید مشکلات کھڑی کر دی ہیں کیونکہ کچھ حلقے یہ خیال کرتے ہیں کہ
کیمپوں میں مقیم ان افراد کی واپسی سے لسانیت کی یہ جنگ شدید ہو جائے گی
اور ایک مخصوص جماعت کی جڑیں ایک خاص صوبے میں مزید مضبوط ہو جائیں گی جو
کہ انھیں کسی حال میں بھی گوارہ نہیں ہے۔(جاری ہے) |