پاکستان کی مروجہ سیاست اور
حکومت میں تبدیلی فیصلہ کن موڑ پر آچکی ہے ، 2مئی 2011ءکے بعدحکومت جس غیر
یقینی صورتحال کا شکار تھی اس کی اب انتہا ہوگئی ہے۔ میمو گیٹ اسکینڈل اور
صدر زرداری کے بیرون ملک روانگی نے حالات کو مزید کشیدہ اور پیچیدہ بنادیا۔
لیکن 19 دسمبر 2011ءکو اچانک ان کی واپسی کے بعد یہ امکان ہو چلا تھا کہ
شاید معاملات کسی حد تک بہترچکے ہیں۔ کیونکہ 17 دسمبر 2011ءکو وزیراعظم سید
یوسف رضا گیلانی اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے درمیان
تین گھنٹے طویل ملاقات ہوئی، جس میں صدر زرادری کی فوجی سربراہ سے ٹیلی
فونک بات ہوئی جس کو ملکی سیاست اور حکومت میں مفاہمت کے طور پر دیکھا گیا،
لیکن فوج اور آئی ایس آئی نے میمو گیٹ کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر اپنے پہلے
موقف کا دفاع کرتے ہوئے جواب الجواب داخل کرایا تو پھر حالات نے پلٹا کھایا۔
20 دسمبر 2011ءکو وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے صدارتی کیمپ آفس بلاول
ہاﺅس کراچی میں صدر زرداری سے ملاقات کی۔ ذرائع کے مطابق کئی گھنٹے جاری
رہنے والی ملاقات میں صورتحال پر سنجیدگی سے غور کیا گیا اور حالات کی
نزاکت کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب لہجے میں سختی اختیار کی جائے۔
جس کا اظہار22 دسمبر 2011ءکو وزیراعظم نے ایک تقریب اور قومی اسمبلی میں
بھرپور انداز میں کیا۔ جس سے یہ واضح ہوگیا کہ قومی سلامتی کے ادارے اور
حکومت دو الگ الگ سمتوں کی طرف گامزن ہیں۔ وزیراعظم نے اپنے بیانات کے
دوران جو لب ولہجہ اختیار کیا اور جو جو الفاظ استعمال کئے، اگر کوئی عام
سیاستدان، میڈیا کا نمائندہ یا افراد استعمال کرلیتے تو شاید ان پر غداری
کا مقدمہ قائم ہوچکا ہوتا۔مگر وزیراعظم نے جوکچھ کہا اس کے اسباب کیا تھے
اور مستقبل میں اس کے نتائج کیا ہونگے یہ وہی بتا سکتے ہیں۔
چند سال قبل ن لیگ کے پارلیمانی لیڈر مخدوم جاوید ہاشمی نے ایک پریس
کانفرنس کے دوران اس سے بھی ہلکے پھلکے انداز میں بات کی اور پھر ان پر
غداری کا مقدمہ قائم ہوا اور کئی برس تک جیل میں رہے۔ وزیراعظم کے لب ولہجہ
سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران اور ذمہ داران کو ملکی اور قومی
سلامتی کی بجائے ذاتی مفادات عزیز ہیں۔ مبصرین وزیراعظم کے ان بیانات کو
ملکی سیاست اور حکومت پر ایٹمی حملہ قرار دے رہے ہیں، اگرچہ فوجی سربراہ
جنرل اشفاق پرویز کیانی نے واضح طور پر کہا ہے کہ فوج کسی بھی صورت نظام
میں مداخلت نہیں چاہتی ہے لیکن باخبر افراد کا کہنا ہے کہ اب موجودہ حکومت
اور فوجی قیادت ایک ساتھ نہیں چل سکتے، دونوں بند گلی میں داخل ہو چکے ہیں
کسی ایک کو بہر حال اب جلد جانا ہوگا۔
تحریک انصاف میں دھڑا دھڑ لوگوں کی شمولیت اور تحریک کی جانب سے موجودہ
ووٹر لسٹوں کے تحت ہونے والے انتخابات کو قبول نہ کرنے کا اعلان بھی اس
جانب اشارہ ہے کہ شاید براہ راست فوجی انقلاب نہ آئے۔ لیکن عدالت کے ذریعے
کوئی ایسا قدم اٹھایا جائے کہ جس کو غیر قانونی اور غیر آئینی بھی نہ کہا
جاسکے۔ تحریک انصاف نے اب تک تو پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں پر
نقب لگائی اور دھڑا دھڑ لوگ ادھر آرہے ہیں لیکن ان شامل ہونے والوں میںاکثر
ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے مہرے رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ جب اور جہاں چاہے انہیں
استعمال کرتی رہی ہے لیکن اپنی سیاسی زندگی میں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت
کرنے والے مخدوم جاوید ہاشمی کی 24دسمبر2011ءکو تحریک انصاف میں شمولیت نے
کئی سوالات پیدا کردیئے ہیں۔ اگرچہ مخدوم جاوید ہاشمی عمران خان کو سیاست
کا چیمپئن کہتے ہوئے تحریک انصاف میں اپنی شمولیت کوملکی مفاد قرار دے رہے
ہیں، لیکن حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
کوئی قوت ہے جو لوگوں کو تحریک انصاف کا راستہ دکھا رہی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے
کہ 16 سال تک مسلسل جدوجہد کرنے والے عمران خان چند ماہ قبل تک تنہا نظر آ
رہے تھے لیکن اب اچانک مختلف سیاسی جماعتوں کے پرانے آزمودہ اور بااثر
رہنما ان کی جماعت میں شامل ہورہے ہیں۔ مستقبل میں اس کا نتیجہ کیا نکلے گا
یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ تاہم یہ بات اب واضح ہوچکی ہے کہ کچھ تو
ہونے والا ہے جس کا انتظار زیادہ دیر کرنا نہیں پڑے گا۔ اس ضمن میں مختلف
آراءہیں۔
مبصرین کا ایک طبقہ 22 دسمبر 2011ءکو وزیراعظم کے اس بیان کو بھی اہمیت دے
رہاہے جس میں ان کا کہنا تھاکہ اگر ہم پر دباﺅ ڈالا گیا تو ہم عوام میں
جائیں گے۔ عوام جو بھی فیصلہ کریں وہ ہمیں قبول ہوگا۔ اس سے واضح اشارہ
ملتا ہے کہ پیپلز پارٹی بھی اب قبل از وقت انتخابات کے لیے تیار ہے اب اس
کے پاس یہ واحد آپشن ہے۔ اس حوالے سے گڑھی خدا بخش میں بےنظیر بھٹو کی
چوتھی برسی پر پیپلز پارٹی کے جلسے میں صدر آصف علی زرداری کے متوقع خطاب
کو بڑی اہمیت دی جارہی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ حکومت وقت سے
پہلے انتخابات کا آئندہ چند روز میں اعلان کرتی ہے تو یہ مسلم لیگ (ن) اور
خود پیپلز پارٹی کے مفاد میں ہوگا۔ لیکن اس میں تاخیر ہوئی تو پھر عدالت کے
ذریعے کوئی اقدام کیا جاسکتا ہے۔ جس کے بعد ملک میں بنگلہ دیش طرز کی ٹینکو
کریٹ حکومت بھی قائم ہوسکتی ہے جس میں تحریک انصاف بالا دست ہوگی اور دیگر
سیاسی جماعتوں کے مختلف لوگوں کو شامل کیا جائے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ
تحریک انصاف ایک طرف حکومت کے خاتمے کی بات کرتی ہے تو دوسری طرف فوجی
مداخلت کی بھی مخالف نظر آتی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتی ہے کہ وہ ماورائے
آئین کسی بھی اقدام کو قبول نہیں کرے گی۔
اگر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے تحت ملک میں ٹینکو کریٹ یا کسی اور طرز کا
ایک نظام قائم ہوتا ہے تو اس کی معیاد کے لیے نئی ووٹر فہرستوں کی تیاری
اور موجودہ ووٹر فہرستوں میں غلط اندراج کامعاملہ اہم ہوگا۔ بعض مبصرین کا
یہ دعویٰ ہے کہ آنے والے نظام میں 2 سے 3 سال تک الیکشن دور دور تک نظر
نہیں آرہے۔ فی الحال سلیکشن ہی دکھائی دیتی ہے۔ اس نظام کو ایک طرف عدلیہ
دوسری طرف فوج اور دیگر اداروں کی حمایت حاصل ہوگی۔ یہ عملاً پارلیمانی کی
بجائے صدارتی طرز کا نظام ہوگا جس میں سربراہ کے علاوہ باقی سب کی حیثیت
برابر کی ہوگی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف میں نصف درجن سے زائد وزارت
عظمیٰ کے امیدواروں کی موجودگی کے باجود بھی مزید امیدوار شامل ہورہے ہیں۔
اس نئے نظام کے حوالے سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پرویز مشرف کے 7 نکاتی
ایجنڈے کی طرح اس کو بھی شفافیت کا نام دیا جائے گا۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف بھی سرگرم ہیں۔وہ 19 دسمبر
2011ءکو سندھ کے تین روزہ دورے پر کراچی پہنچے انھوں نے میڈیا، سیاسی
وسماجی قیادت، وکلائ،تاجروں اور اپنی جماعت کے رہنماﺅں سے کئی کئی گھنٹے تک
طویل ملاقاتیں کیں اور رابطے کئے، اس موقع پر وہ کافی فکر مند بھی نظرآرہے
تھے ۔ موجودہ حکومت کی ناکامی کے حوالے سے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ حکومت
ناکام ہوچکی، صدر زرادری نے پوری قوم کو دوراہے پر لا کر کھڑا کردیا ہے ۔
یہ بات کسی حد تک صحیح ہے کہ صدر زرداری کی جس سیاست کو مثالی قرار دیا
جارہا تھا، اس نے صرف 4 سال کے عرصے میں ہی پاکستانی سیاست کو تباہی کے
دہانے پرلا کھڑا کیا ہے اور پیپلز پارٹی بھی اس سے نالاں نظر آتی ہے ،تاہم
اگر مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی دونوں کو کنارے لگانے کی کوشش کی گئی تو
بعید نہیں ماضی کی طرح یہ دونوں جماعتیں ایک مرتبہ پھر یک نکاتی ایجنڈے پر
متحد اور منظم ہوجائیں۔
ملک میں استعفوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اب تک گزشتہ ایک ماہ کے دوران ایک
درجن کے قریب ارکان قومی وصوبائی اسمبلی اور ممبران سینیٹ کے استعفےٰ آچکے
ہیں اور یہ تمام لوگ تحریک انصاف میں شامل ہوگئے ہیں۔ بعض ذرائع کا دعویٰ
ہے کہ آئندہ چند روز میں 50کے قریب ارکان قومی وصوبائی اسمبلی اورارکان
سینیٹ مستعفیٰ ہو کر عمران خان کے سونامی میں شامل ہونے والے ہیں، جن کا
تعلق پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ( ق) اور دیگر
سیاسی جماعتوں سے ہے ۔ تاہم عمران خان کے اس سونامی میں کراچی جیسے حساس
اور اہم شہر کا کوئی حصہ نظر نہیں آرہا ہے،اس ضمن میں24دسمبر2011ءپریس
کانفرنس میں عمران خان سے جب راقم نے پوچھا گیا تو ان کا کہناتھاکہ ایم کیو
ایم سے اگر کوئی ہماری تحریک میں شامل ہوتا ہے تو اسے خوش آمدید کہا جائے
گا، لیکن میڈیا ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے مابین لڑائی کرانے کی اب
کوشش نہ کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ماضی میں دونوں جماعتوں کے مابین لڑائی
کا اصل ذمہ دار میڈیا رہا ہے۔
کیا عمران خان قوم کو یہ بتا سکیں گے کہ ان کے خلاف کراچی کے درو دیوار پر
لکھے جانے والے نازیبا نعرے میڈیا نے لکھے تھے۔ کیا ایم کیو ایم کے خلاف
لندن میں مقدمے کے لیے ان کو میڈیا نے بھیجا تھا۔ عمران خان اپنی غلطیوں
اور کوتاہیوں کا ذمہ دار میڈیا کو ٹھہرانے کے بجائے اس بات کو تسلیم کریں
کہ انہوں نے ”اسٹیٹس کو “کو تسلیم کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ سب کو ساتھ لے
کر چلو، جس کو وہ اب تبدیلی کا نام دیتے ہیں۔ وہ دراصل نظام کی تبدیلی نہیں
بلکہ صرف پارٹیوں اورچہروں کی تبدیلی اور کرسیوں کا حصول ممکن بنانا ہے۔
پاکستانی سیاست اور حکومت کے حوالے سے آئندہ ایک ہفتے کو انتہائی قرار دیا
جارہا ہے۔ |