جی ایم شجاع
27 دسمبر کا دن پاکستانی تاریخ کا وہ المناک اور سیاہ ترین دن ہے جب مُلک
اور جمہوریت دُشمن طاقتوں نے اسلامی دُنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم ،قائد
عوام شھید ذوالفقار علی بھٹو اورمادر جمہوریت محترمہ نصرت بھٹو (مرحومہ)کی
بیٹی شھید میر مرتضے بھٹوٰ اور شھید شاہ نوازبھٹو کی بہن عالمی سطح کی
نامور سیاسی لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹو کو اُس وقت بے دردی سے شھید کیا گیا
جب وہ لیاقت باغ میں ایک تاریخی عوامی جلسے سے خطاب کررہی تھیں۔لوگ اُن کے
جوش خطابت،مُلک اور قوم سے ہمدردی کے جذبے کو سُن اور دیکھ کر جذباتی انداز
میں نعرے لگا رہے تھے کہ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے بی بی کی شکل میں زندہ ہے۔
درحقیقت محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل جمہوریت ، پاکستان کے استحکام اور
سالمیت پر وار تھا۔دُنیا جانتی تھی کہ ایٹمی پاکستان کی سالمیت اور استحکام
کا اگر کوئی ضامن تھا تو وہ محترمہ شھید بی بی تھیں لیکن پاکستان اور
جمہوریت کے دُشمنوں نے اسلامی دُنیا کی ہردلعزیز رہنماءکو عوام سے چھین
لیا۔یوں لیاقت باغ میں ہی پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی
خاں کے سازشی قتل اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کی طرح
محترمہ کے قتل سے پاکستان میں جمہوریت ایک بار پھر یتیم ہوگئی۔ یہ بھی اپنی
جگہ ایک حقیقت ہے کہ بھٹوخاندان نے مُلک اور جمہوریت کے لئے اپنا سب کچھ
قربان کردیا لیکن مُلک کے جابروں ،آمروں اور ظالموں نے بھٹو خاندان سے وہی
سلوک کیا جو یزید اور اُس کے حواریوں نے کربلا کے میدان میں حسینؑ ابن علیؑ
اور اُن کی آل سے کیا تھا ۔یہ بھی اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اتنے مظالم
اگر کسی اور سیاسی خاندان پر ہوتے تو شاید اُن کا نام و نشان مٹ جاتا لیکن
بھٹو خاندان پاکستانی عوام کے دلوں میں ھمیشہ کے لئے زندہ و تابندہ
ہے۔محترمہ شھید سے کم عمری میں ہی باپ کا سایہ سر سے چھینا گیادو جوان
بھائیوں کا خون بہا یا گیا شوہر کو قیدو بند کی صعوبتوں سے گذارا گیا اور
خود اُن کو طویل عرصے تک جلاوطن رکھا گیالیکن ان سب صعوبتوں کے باوجود
اُنہو ں نے مُلک اور جمہوریت کے لئے صنف نازک ہوتے ہوئے بھی ایک دلیر ،باہمت،مُدبر
اور بابصیرت سیاسی لیڈر کی حیثیت سے اسلامی دُنیا ،وطن عزیز پاکستان اور
جمہوریت کی ہر فورم پر نہایت دیدہ دلیری سے نمائندگی کی اور مخالفوں سے
اپنے والد کی طرح بڑی بے باکی ،دلیری اور سیاسی بصیرت سے مذاکرات کئے اپنا
مﺅقف پیش کیا اور منوایا۔دُختر مشرق نے اپنی عملی زندگی سے مشرقی خواتین کو
جینے کا سلیقہ سکھایا۔ایک مُلک کی وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی کھبی گھریلو
زندگی کو متاثر ہونے نہیں دیا ۔شوہر،بچے،خاندان ،دوست احباب اور با لخصوص
علیل ماں کی خدمت اور دیکھ بھا ل میں کوئی کمی نہیں رکھی۔اسلامی تعلیمات کی
پیروی اور اپنے شھید باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلامی دُنیا کو منظم
رکھنے مسلم ممالک کے مابین تجارتی ،ثقافتی اور سفارتی تعلقات کو اُستوار
کرنے ،مغرب کے اسلام کے بارے میں منفی تاثرات کو ختم کرنے کے لئے محترمہ نے
شاندار کردار ادا کیا۔پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تومادر ملت
محترمہ فاطمہ جناح اور محترمہ شھید کی طرز زندگی یکساں نظر آتی ہے۔مادر ملت
نے قیام پاکستان کے لئے اپنے بھائی بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی
جناح کے شانہ بشانہ کردار ادا کیا اور قائد کی رحلت کے بعد محترمہ نے
پاکستان کے استحکام کے لئے کردار ادا کرنے کی کوشش کی تو اُسوقت کے ظالموں
اور جابروں نے محترمہ کے خلاف سازشیں شروع کی اور اُن کو چلنے نہیں دیا
گیاجبکہ محترمہ شھید نے اپنے شھید باپ کے بعد پاکستان کے غریب اور مظلوم
عوام کو ظالموں اور جابروں کے حوالے کرنے کے بجائے سر پر کفن باندھ کر
پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ مُلک کے کونے کونے جاکر مظلوم اور
محکوم عوام کی دادرسی کی اور اُن کے دُکھوں کا مداوا کیا۔محترمہ انتقامی
سیاست کی سخت مخالف تھیں یہی وجہ تھی کہ کئی دفعہ عنان حکومت سنبھالنے کے
باوجود اپنے باپ اور بھائیوں کے قتل کا انتقام لینے کا سوچا بھی نہیں بلکہ
وہ ھمیشہ کہتیں تھیں کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے۔پاکستان کی تاریخ گواہ
ہے کہ بے نظیرشھید کی حکومت جب بھی آئی جابروں اور آمروں کی باقیات نے
سازشیں شروع کیں اور کبھی بھی مُدت پوری کرنے نہیں دیا ۔یہی وجہ ہے کہ
چونسٹھ سال گُزرنے کے بعد بھی پاکستان میں جمہوریت مستحکم نہ ہوسکی۔پاکستان
کی موجودہ معاشی بدحالی ،سیاسی عدم استحکام ،دہشتگردی،فرقہ واریت اور تمام
تر مسائل کے حل کے لئے پاکستان کے سبھی دانشوراور اہل فکرو نظر محترمہ شھید
کو استعارہ سمجھتے تھے تبھی تو اُنکی طویل جلاوطنی کے بعد واپسی پر پوری
قوم نے سُکھ کا سانس لیاتھااور بھرپور ساتھ دینے کا عزم بھی کیاتھا۔خود
محترمہ نے بھی پاکستان کو درپیش اندرونی و بیرونی مشکلات کے پیش نظر تمام
سیاسی جماعتوں اور اور لیڈروں کو متحد کرکے میثاق جمہوریت کے معاہدے کے
ذریعے پاکستان میں جمہوریت کو مستحکم کرنے اور تمام تر مشکلات سے نجات کا
حل تلاش کیاتھا۔وقت نے اُنہیں مہلت نہ دیا اور مُلک و جمہوریت دُشمن طاقتوں
نے اُن کو عوم سے چھین لیا۔ یوںقائد عوام شھید ذوا لفقار علی بھٹو کی
ہردلعزیز بیٹی نے پنکی سے بی بی تک کا سفر پاکستان کے غریب اور مظلوم عوام
کے حقوق کی جنگ لڑتے لڑتے طے کیا اور اپنی زندگی باپ کی طرح مُلک اور قوم
پر قربان کی۔چونکہ قرآن کا اٹل فیصلہ ہے کہ شھید ھمیشہ زندہ ہوتا ہے۔قائد
عوام ذوالفقارعلی بھٹو اور اُن کی ہر دلعزیز بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو بھی
اسلامی دُنیاکے اربوں لوگوں اور دُنیابھر کے جمہوریت پسندوں کے دلوں میں
ھمیشہ ھمیشہ کے لئے زندہ وتابندہ ہیں اور رہیں گے
بدلا نہ تیرے بعد بھی موضوع گُفتگُو
تو جا چکی ہیں پھر بھی سب کے دلوںمیںہے |