آزادکشمیر کے دارالحکومت
مظفرآباد میں آزاکشمیریونیورسٹی کے وسیع و عریض گراﺅنڈ میں ایک سال قبل
26دسمبر2010ءکو جب مسلم کانفرنس، مسلم لیگ(ن) آزاد جموں و کشمیر کی شکل میں
ڈھل رہی تھی تو ہمارے دِل دکھ اور خوشی کی ملی جلی کفیت سے گزر رہے تھے،
دکھ اس بات کا تھا کہ مسلم کانفرنس جیسی تاریخی پس منظر کی حامل جماعت چند
کوتاہ اندیش اور مفاد پرست بونوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکی تھی۔ کبھی دونوں
ہاتھ سر پر رکھ کر ملٹری ڈیمو کریسی کے راگ الاپے جاتے تو کبھی بچے کے
پیشاب سے بجلی پیدا کرنے او ر مقبوضہ کشمیر کو سوئی گیس فراہم کرنے جیسے
غیر حقیقی اعلانات کر کے مخالفین کو مضحکہ خیز تبصروں کا موقع فراہم کیا
جاتا حد تو یہ کہ مسلم کانفر نس کی بڑی کرسی پر براجمان شخص اندرون خانہ
اپنی روایتی حریف پیپلز پارٹی سے مل کر اپنی ہی جماعت کے وزیر اعظم کیخلاف
گٹھ جوڑ کرتا نظر آتایہ ساری صورتحال مسلم کانفرنس کے مخلص اور نظریاتی
کارکنوں کیلئے انتہائی کرب اور تشویش کا باعث بنی ہوئی تھی اگرچہ پارٹی میں
بلی چوہے کا کھیل کافی عرصے سے جاری تھالیکن کارکن اس تاریخی اثاثے کو
بچانے کیلئے ضبط کا مظاہرہ کرتے رہے مگرآخر کب تک۔۔۔۔؟ بالآخر وہ وقت آن
پہنچا جب ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے صدرِ مسلم کانفرنس نے اپنی جماعت کی
پشت میں چھرا گھونپا اور اپنے ہی وزیراعظم کیخلاف مخالفین سے مل کر تحریک
عدم عتماد پیش کروا ڈالی اور خود وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار بن کر پیپلز
پارٹی کے پاﺅں میں گر پڑے ۔کسی نے خوب کہا ہے کہ جب باڑ فصل کو کھانے لگے
پھر خدا ہی حافظ ہے۔ عین یہی وہ وقت تھا جب ہر مخلص کارکن و رہنما پوری شرح
وبسط کیساتھ اس نقطے پر پہنچ گیاکہ اب محض مسلم کانفرنس کا نام بچانے کیلئے
نظریاتی تشخص کی پامالی ناقابلِ تلافی نقصان کا باعث ہو گی جسکے بعد یقینی
طور پر ان کے پاس ایک ہی راستہ تھا جو قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریے کی
حفاظت کیلئے منتخب کیا جاتا اور وہ تھاکہ مسلم کانفرنس کے نظریے کو مسلم
لیگ کی شکل میں محفوظ رکھا جائے اور شعبدہ بازوں کے گلے میں مسلم کانفرنس
کا لٹکتا بورڈ چھوڑ دیا جائے۔ چنانچہ کنہہ مشق بزرگ کشمیری رہنما سابق صدر
و وزیراعظم آزاد کشمیر سالار جمہویت سردار سکندر حیات خان اور مسلم کانفرنس
کے سابق صدرو محبوب کشمیری رہنماراجہ حیدر خان (مرحوم) کے فرزند اور ولولہ
انگیز سیاسی لیڈر سابق وزیر اعظم آزادکشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان اور
انکی ٹیم نے اس مشکل مرحلے میںبحر کے شناور کا فریضہ انجام دیا اور شب وروز
کی انتھک محنت کے بعد انہوں نے دلبرداشتہ مضطرب مخلص اور نظریاتی کارکنوں و
رہنماﺅں کی صف بند ی کی۔ پاکستان میں اپنے نظریاتی ورثاءسے روابط مستحکم
بنائے اور پھر26دسمبر2010ءکو قائدِ پاکستان مسلم لیگ(ن) میاں محمد نواز
شریف کو مظفر آباد مدعو کرکے کشمیری عوام کے نمائندہ تاریخی اجتماع میں
مسلم کانفرنس کو مسلم لیگ(ن) میں بدلنے کی منظوری لی اور قائد کی زبانی یہ
خوشخبری اہل کشمیر نے سن کر سکھ کا سانس لیا۔ یقینا یہی وہ لمحہ تھا جب
قائد اعظم محمد علی جناح کی روح کو بھی اطمینان پہنچا اور ہزاروں لاکھوں
لوگوں کے جذبات کو تسکین ہوئی۔
پاکستان مسلم لیگ(ن) آزاد جموں وکشمیر کی باقاعدہ تشکیل کے بعد انتخابات کا
مرحلہ درپیش تھا مسلم لیگ(ن) آزاد جموں و کشمیر اگرچہ کشمیر میں نام نیا
تھا مگر تنظیم اور قیادت نئی نہیں تھی اس لیے توقع تھی کے شفاف انتخابات کی
صورت میں پارٹی 70 فیصد سے زائد نشستیں باآسانی جیت لے گی۔ بہرحال جب میدان
سجا تو اگرچہ معرکہ مسلم لیگ(ن) اور اسکی روایتی حریف پیپلز پارٹی ہی کے
درمیان رہا جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مسلم کانفرنس کا تمام اثاثہ،
نظریہ، تنظیم اور کارکن و رہنمامسلم لیگ (ن) کی شکل میں ڈھل چکے ہیں۔ سردار
عتیق احمد خان اپنی سیٹ بچانے کیلئے محض مسلم کانفرنس کا بورڈ گلے میں
لٹکائے رات کی تاریکی میں حساس اداروں اور کبھی پیپلز پارٹی کے لیڈروں کے
گھروں پر اپنی بقا کی بھیک مانگتے دکھائی دئیے۔یہ وہی تھے جن کو یہ غلط
فہمی تھی کہ نظریے کے بغیر محض مسلم کانفرنس کے نام پر وہ لوگوں کو دھوکہ
دینے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر ایسا نہ ہوا۔ دوسری طرف بعض دیدہ و نادیدہ
قوتیں مسلم لیگ(ن) سے سخت خوفزدہ رہی اور انہوں نے الیکشن میں دھاندلی
کیلئے تمام ممکنہ حربے استعمال کیے اور ضمیموں کے نام پر دھاندلی کی نئی
راہیں تلاش کیں۔ سالارِ جمہوریت سردار سکندر حیات خان کا حلقہ دھاندلی کی
ایک واضح مثال ٹھہرا جہاں ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن پر آنے کی زحمت ہی نہیں
دی گئی اور رات کی تاریکی میں بکس بھر کر فرضی پولنگ ایجنٹوں سے دستخط
کروائے گئے اور گذشتہ چالیس پچاس سال سے مستقل جیتنے والی شخصیت سابق صدر
ووزیراعظم اور آزاد کشمیر میں تعمیر و ترقی کے ہیرو کے بیٹے کو بظاہر شکست
کا سامنا کرنا پڑا یہ ایک الگ بات ہے کہ ان کی شکست کئی ایک جیتے ہوئے
ممبران اسمبلی پر آج بھی بھاری ہے۔ اکثر مقامات پر مفاد پرستی کانفرنس نے
بظاہراپنے امیدوار نامزد کھڑے کیے اوراپنی سابق منافقت کی روایت برقرار
رکھتے ہوئے اندرون خانہ اپنے ہی امیدوار کی بھر پور مخالفت کی اورحقیقی
معنوں میں پی پی پی کے لیے مہیم چلائی ۔ اوراس سب کے عوض صرف اپنی ذاتی سیٹ
حاصل کرنے کیلئے سودا کیا گیا، خفیہ والے الگ سے متحرک رہے وفاقی حکومت نے
سارے وسائل جھونک دئیے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے کروڑوں روپے بھی
یہ سیاسی یتیم الیکشن پر اُڑا گئے اس ساری دھاندلی کے باوجود مسلم لیگ (ن)
براہ راست12نشستیں جیتنے میں کامیاب ٹھہری۔ راجہ محمد فاروق حیدر خان نے دو
نشستوں پر بیک وقت کامیاب ہو کر مفاد پرست ٹولے کے منہ پر کالک مل دی اور
پھر دارالحکومت میں راجہ فاروق حیدر خان کی جانب سے چھوڑی جانے والی نشست
پر شفاف ضمنی الیکشن میں سردار محمد عبدالقیوم خان کے پوتے سردار عتیق احمد
خان کے بیٹے کو پیپلز پارٹی سمیت آٹھ جماعتی اتحاد کی حمایت کے باوجود ایک
غیر سیاسی گھرانے کے26سالہ نوجوان بیرسٹر افتخارگیلانی نے بطور مسلم لیگی
امیدوار کے تقریباً دس ہزارووٹوںکی برتری سے شکست ِ فاش سے دوچارکیاجو نہ
صرف مفاداتی ٹولہ بلکہ زرداری اینڈ کمپنی کی بھی شرمندگی کا باعث بنا۔ جو
اس بات کا ثبوت ٹھہرا کہ عملاً مسلم کانفرنس مسلم لیگ(ن) میں تبدیل ہو چکی
ہے۔ اور عوام کی نمائندگی کے اصل حقدار سالار جمہوریت سردار سکندر حیات خان
جیسے مدبر اور راجہ محمد فاروق حیدر خان جیسے ولولہ انگیز قائد ہی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی کامیابی نے جہاں ایک طرف فتح و شکست کے معیار بدل دئیے
تودوسری طر ف نظریاتی اور غیر نظریاتی سیاست کے ثمرات بھی واضح کر دئیے۔
الیکشن کے بعد مسلم لیگ(ن) نے باصول، شفاف اور باکردار اپوزیشن کا راستہ
اختیار کیا جبکہ مفاد پرست ٹولہ حکومت کی نشستوں پر بیٹھنے کیلئے جائے تو
وہ اٹھا دیتے ہیں اور اپوزیشن کے پاس آتے ہیں تو وہ انکو اجنبی کہہ کر واپس
کر دیتے ہیں اور یہ درمیان میں کھڑے ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ جاتے ہیں وہ
دوست آج تک بونی قیادت کے فیصلوں پر مفاہمتی پالیسی کا شکار بن کر مثال
عبرت نظر آتے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی اصل کامیابی محض الیکشن جیتنا ہی نہیں
بلکہ مسئلہ کشمیر پر اصولی موقف کا تحفظ تحریک جہاد کشمیر کی پاسبانی،
الحاق پاکستان کی حقیقی جدوجہد، اداروں کی آزادی، عدلیہ، میڈیا ، فوج اور
پارلیمان کے اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے آزادانہ کردار کی حمایت اور
کشمیریوں کے تاریخی تشخص کی حفاظت بھی ہے۔پاکستان مسلم لیگ(ن)آزاجموں
وکشمیر ،مسلم کانفرنس کا جمود ٹوٹنے کے بعد پیدا ہونے والی وہ لہر ہے جو
نئے عزم کیساتھ ساحلوں سے ٹکرا کر یہ پیغام دے رہی ہے کہ آزاد کشمیر سمیت
پاکستان بھر میں مستقبل ہمارا ہے۔
ان تاریکیوں سے کہہ دو کہ کہیں اور جا بسیں
ہم نئے عزم سے بنیادِ سحر رکھتے ہیں |