کراچی، مزار قائد اور ورائٹی سیاسی جلسہ

٢٥ دسمبر ٢٠١١ کو قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم پیدائش پر مزار قائد پر پاکستان تحریک انصاف نے اپنا ایک سیاسی جلسہ منعقد کیا، جلسہ اپنے مقررہ وقت سے ٣ گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا جو کہ بیشتر سیاسی جماعتوں کی طرح وقت کی پابندی نہ کرنے کا ایک عملی مظاہرہ ثابت ہوا۔ حکومت نے جلسے کے انعقاد کی اجازت دے کر اپنی روائتی سیاسی مفاہمت کا مظاہرہ کیا اور جلسے کے پیش نظر فول پروف حفاظتی اقدامات کیے۔ اس جلسے سے ایک بات ثابت ہوئی کہ کراچی ایک ایسا میٹرو پولیٹن سٹی ہے کہ جہاں ہر تنظیم کو اپنی مثبت اور قانونی سرگرمیوں کی مکمل آزادی ہے، کچھ لوگ عرصہ دراز سے اپنے ذاتی خوف کی بنا پر کراچی اور اہل کراچی کو دیگر سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں میں عدم دلچسپی پر نالاں نظر آتے تھے مگر اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ اہل کراچی ہر جماعت کے جلسے اور جلوسوں میں شرکت تو کرتے ہیں مگر اہل کراچی اپنے ووٹوں کا حقدار جسے سمجھتے ہیں اسے ہی ووٹ دیتے ہیں اور یہ بات ملک کی کئی پارٹیوں کو کھلتی ہے مگر جمہوریت ہے ہی اسی کا نام اور کراچی کے شہری سیاسی شعور کی جس سطح پر فیصلے کرتے ہیں وہ سب کے سامنے ہے کہ کراچی ملک کا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ شہر ہے، ایک ایسا شہر کہ جو ملک کی معیشت اور ترقی کی راہ میں شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔

جس طرح نوجوانوں کو تحریک انصاف اپنے جلسوں میں جمع کرتی ہے کیا ہی اچھا ہوتا کہ تحریک انصاف پرجوش اور نوجوانوں کو صرف جلسے جلوسوں میں ناچتے گاتے تماشائی بنانے کے بجائے اپنی تنظیم کے اہم معمار بنانے یعنی پالیسی ساز بنانے کے لیے عملی طور پر کردار دینے کی کوشش کا بھی کوئی عملی مظاہرہ کرتی، کیونکہ دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ اپنے پرانے موقف یعنی کرپشن سے پاک سیاسی افراد کو تحریک انصاف میں لینے کے بجائے اب ہر قسم کے افراد کو تحریک انصاف نے اپنے قائدین کے طور پر چننا شروع کر دیا ہے، یاد رہے کہ ان میں زیادہ تعداد ان ہی چلے ہوئے کارتوس ٹائپ روائتی، آزمودہ، بزرگان سیاست ہیں کہ جنہوں نے اپنے سیاسی تجربے کی بنیاد پر اپنی سیاسی وابستگیوں، عہدوں اور جماعتوں کو مستقبل قریب میں اپنے لیے ناقابل فائدہ سمجھتے ہوئے تحریک انصاف کو اپنا اگلا سیاسی پلیٹ فارم منتخب کر لیا ہے کہ بیشتر گھاگ شکاری کبھی سونگھ کر بھی اندازہ لگالیتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی ہوائوں کا رخ آج کل کس طرف ہے۔

یوں تو سیاسی جماعتوں کو شہر قائد میں جلسے جلوس اور ریلیاں نکالنے کی کوئی ممانعت نہیں مگر مزار قائد پر میوزک اور بینڈز کے ساتھ قائد اعظم کے یوم پیدائش کے دن یہ جلسہ ایک عجیب تاثر پیش کرتا محسوس ہوا، اس سلسلے میں یہ بات بھی توجہ کی طلب گار ہے کہ کہیں آئندہ سیاسی جماعتیں اپنے جلسے جلوس علامہ اقبال اور دوسرے مزارات پر بھی منعقد نہ کرنے لگیں۔ تحریک انصاف کے کارکنان اور وابستگان کے علاوہ عام شہری بھی رنگ رنگ مفت ورائٹی پروگرام کے مزے لوٹتے محسوس ہوئے۔

تحریک انصاف کے جلسوں کی عام روایات کے عین مطابق مذکورہ جلسے میں میوزیکل بینڈز اور سازو سامان خوب بجائے گئے اور کمپنی کی مشہوری کے لیے جلسے میں آنے والوں کو ہر طرح سے انٹرٹین ہونے کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے گئے۔ اس موقع پر تحریک انصاف کے سربراہ اور دوسرے قائدین اگر مزار قائد پر حاضری دے لیتے تو شائد تحریک انصاف کے کارکنان بھی یہ عمل کرتے کہ امکان غالب ہے کہ جلسے کے شرکامیں میں سے اکثریت ایسے حضرات کی تھی کہ جو دور دراز سے قائد کے مزار پر زندگی میں پہلی ہی بار آئے ہونگے۔

سہ پہر میں شروع ہونا والا یہ جلسہ رات ساڑھے آٹھ بجے کے قریب اختتام پزیر ہوا جس پر اہلیان کراچی نے سکون کا سانس لیا کہ الحمداللہ شہر قائد میں کوئی ایسا ناخوشگوار واقع پیش نہیں آیا کہ جس سے یہ جلسہ کوئی اور ہی رخ اختیار کرلیتا اور امن و سکون کے دلدادہ شہری ایک نئی صورتحال سے دوچار ہوسکتے تھے۔

بحرکیف ان باتوں کو چھوڑ کر تحریک انصاف ایک کامیاب سیاسی جلسہ منعقد کرنے میں کامیاب رہی اور چند باتوں پر اگر تحریک انصاف اپنی پالیسی پر مثبت نظر دوڑائے تو اپنی اصلاح کا عمل جاری رکھنے کی صورت میں تحریک انصاف نوجوانوں کو ایک اور پلیٹ فارم مہیا کر سکتی ہے کہ جو ملک و قوم کے لیے کافی خوش آئند ثابت ہوسکتا ہے۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 532849 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.