عرب لیگ کے وفد کا خیر مقدم کرنے
کیلئے دمشق میں پہلی بار فوجی دفتر پرزبردست دھماکہ کیا گیا جس میں ۴۴
افراد ہلاک اور متعدد لوگ زخمی ہوئے ۔ نائب وزیر خارجہ فیصل مقداد نے اسے
القائدہ دہشت گردوں کا تحفہ قرار دیا ۔جس قدر جلدی بشار انتظامیہ نے یہ
الزام لگایااسے دیکھ کر جارج ڈبلیوبش کی یاد تازہ ہوگئی جسے آناً فاناً نہ
جانے کیسے پتہ چل گیاتھا کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کس نے کیااور ایک
خیالی دشمن کا بہانہ بناکر اس ظالم نے ساری دنیا کو قتل وغارتگری کی نذر کر
دیا نیز اپنے سارے مظالم کاوجۂ جواز اس ایک حملے کو بناتا رہا ۔یہی حکمت
عملی اپنے آپ کو امریکہ کے سب سے بڑے دشمن قرار دینے والے شامی انتظامیہ
نے بھی اختیار کی ۔اس موقع پر شام میں عوامی انقلاب کی قیادت کرنے والی
قومی کونسل نے حکومت کو اس دھماکے کیلئے براہِ راست موردِ الزام ٹھہرایا۔
اس کے مطابق حکومت دھماکے کے ذریعہ یہ غلط فہمی پھیلانا چاہتی ہے کہ شام کے
اندرحریت و وقار کی بحالی کیلئے کوئی عوامی تحریک نہیں چلائی جارہی ہے بلکہ
بیرونی طاقتیں وہاں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔
شام میں احتجاج و مزاحمت کا سلسلہ گزشتہ ۹ ماہ سے جاری ہے اور اس جدوجہد
میں پانچ ہزار افراداپنی جان کر نذرانہ پیش کر چکے ہیں اس کے باوجود اس قسم
کے دھماکے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے حالانکہ اگر احتجاجیوں کی یہ حکمت عملی
ہوتی تو اس ردعمل کا اظہار بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا
۔ اس کے برعکس جب ان کے خلاف ہونے والے مظالم کی تفتیش کرنےوالے عرب لیگ
وفد کی تیاری و انتظامات کی خاطر ایک ٹیم دمشق پہنچنے والی ہے اسی رات
مزاحمت کاروں کی جانب سے یہ حرکت ناقابل فہم ہے ۔ایسے میں اگر وفد خوفزدہ
ہوکر اپنی آمد کا ارادہ ترک کر دیتا ہےتو اس میں مجاہدین کا نقصان اور
حکومت کا براہ راست فائدہ ہے اسلئے ان سے کسی ایسے اقدام کرنا محال ہے ۔
شام کی حکومت چونکہ بیرونی مشاہد ین کے خلاف رہی ہے اور شدید دباو کے تحت
بادلِ ناخواستہ اس نے رضامندی ظاہر کی ہے اس لئے وہ ضرور یہ چاہتی ہے کہ یہ
وفد نہ آئے اور اگر آئے بھی تو اپنی توجہات حکومت کے مظالم کے بجائے
دھماکوں کی نذر کر کے لوٹ جائے۔اس امکان کی جانب ایک اشارہ سرکاری ٹیلی
ویژن کے رویئے سے بھی ملتا ہے جس نے دھماکے کی خبر نشر کرنے کے ایک گھنٹے
بعد تصاویر دکھلائیں جبکہ یہ دھماکے دمشق کے اندر ہوئے تھے ۔
اس دوران ایک اور دلچسپ تماشہ رچایا گیا ۔ اچانک نئی ویب سائٹ نمودار ہوئی
اور اس پر شام کی اخوان المسلمون نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی ساتھ ہی
اس ویب سائٹ پر کہا گیا کہ ہمارے مجاہدین آئندہ دس دنوں کے اندر ملک کے
مختلف شہروں بشمول دمشق اور الپو میں دھماکے کریں گے ۔آئندہ دس دنوں کے
دوران ان شہروں میں دھماکے جہاں کامشاہدین دورہ کرنے والے ہیں آستین پر لگے
ہوئے لہو کی پکار ہے جو چیخ چیخ کر بتلا رہی ہے کہ " کوئی معشوق ہے اس پردہ
زنگاری ميں" ۔ وہی معشوق یعنی شامی حکومت براہ راست القائدہ کی جانب انگشت
نمائی کرتی ہے اور بالواسطہ اخوان پر الزم لگاتی ہے ۔ اخوان چونکہ حریت
پسند شامی قومی کونسل کا اہم رکن ہے اس طرح گویا کونسل کو بھی گھیرنے کی
کوشش کی گئی ہے۔ اخوانی رہنما زہیر سالم کے اس ویب سائٹ کو جعلی قرار دینے
اوراسے حکومت کی افترا قرار دینے کے بعدجس نے دھماکہ کروایا مذکورہ ویب
سائٹ ناقابل رسائی ہو گئی ہے ۔یہ حسن اتفاق ہے ممبئی بلاسٹ کی ذمہ داری
قبول کرنے والی ویب سائٹ کو روس سے قائم کیا گیا تھا گویا لشکر اورجیش حملہ
تو پاکستان میں بیٹھ کر کرواتے ہیں لیکن ویب سائٹ بنانے کیلئے انہیں روس
جانا پڑتا ہے ۔ اس طرح کا تماشہ ہندوستان میں ہمیشہ دہرایا جاتا ہے
اکثروبیشتر دھماکوں میں ملوث دہشت گرد جیب میں اپنی جنم کنڈلی رکھ کر
دھماکہ کرتا ہے۔ اس کا جسم چیتھڑوں کی ماننداڑ جاتا ہے لیکن ان کاغذات پر
ایک دھبہ نہیں لگتا اور چند گھنٹوں کے اندر اس کی تصویر کا خاکہ ٹی وی پر
تمام تفصیلات کے ساتھ جاری ہو جاتا ہے لیکن یہ حربے نہ ہندوستان کی حکومت
کے کام آتے ہیں اور شامی انتظامیہ کے کام آئیں گے اس لئے کہ بقول انتظار
نعیم
لہو لہو ہے کبھی رائیگاں نہیں جاتا
بھلے ہی دیر سے، وہ رنگ لاکے رہتا ہے
لہو جو ظلم سے سفاکیوں سے بہتا ہے
مسلم دنیا میں برپا ہونے والی شورش کے نتائج جیسے جیسے ظاہر ہو رہے ہیں ۔
تیونس ، مراقش ، مصر و لیبیا ہر جگہ اخوان المسلمون بحث کا موضوع بنی ہوئی
ہے ۔ بہت سارے لوگوں کو اس پر حیرت ہوتی ہے کہ تیونس کا سارا انقلاب ایک
پھیری والے کی خودسوزی سے برپا ہوگیا۔مصر کی عوام نے تحریر چوک پر جمع ہو
کر حسنی مبارک سے نجات حاصل کر لی۔ ناٹو نے بلکہ ایک مضحکہ خیز انکشاف کے
مطابق یہودیوں نے قذافی کو ٹھکانے لگا دیا اور شام میں چند نوجوانوں کی
گرفتاری سے ہنگامہ برپا ہو گیا اور ان تمام مواقع پر اخوان کا کہیں اتہ پتہ
نہیں تھا پھر بھی انتخاب کے بکس میں سے یہ جن کیسے نمودار ہو گیا؟ اس حیرت
کی وجہ اخوان کی عظیم جدوجہد پر پڑا ہوا دبیز پردہ ہے ۔عالمی ذرائع ابلاغ
اس وقت تک اخوانیوں سے صرفِ نظر کرتا ہے جب تک کہ ناگزیر نہ ہو جائے ۔
مصر کے بعد اخوان کا قیام سب سے پہلے شام ہی میں ہوا یہ اس وقت کی بات ہے
جب ملک ِشام فرانس کے زیر تسلط ہوا کرتا تھا۔ ۱۹۴۰ کی دہائی میں شام کی
مختلف اسلامی تنظیموں نے اخوان المسلمون کے جھنڈے تلے اپنے آپ کو منظم
کرنا شروع کیا اور اولین مر شدِ عام مصطفی الصباعی کی قیادت میں اخوان ملک
کے طول و عرض میں قائم ہو گئی ۔اپنے ابتدائی دور میں اخوان نے فرانسیسی
سامراج کے خلا ف ہونے والی مسلح جدو جہد میں حصہ لیا۔فرانس سے آزادی حاصل
کرنے بعد اخوان ملک کے سیاسی عمل شامل ہو گئی پارلیمان میں اس کے منتخب
ممبران کی تعدادو ۱۹۴۹ میں تین تھی جو ۱۹۶۱کے اندر دس تک پہنچ گئی گویا
تحریک کی عوامی مقبولیت میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا لیکن ۱۹۶۳ کے اندر
سیکولر نظریات کی حامل بعث پارٹی نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر بزورِ قوت
اقتدار پر قبضہ کرلیا اور وہیں سے ظلم و جبر کا آغاز ہو گیا ۔ اس کے
باوجود اخوان کے دوسرے مرشدِ عام عصام عطار نے صبر ضبط کا دامن نہیں چھوڑا
اور بعث پارٹی کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے سے گریز کیا جبکہ ابو غدا اور
مروان حدید جیسے پر جوش رہنما بعث پارٹی کی زیادتی کے خلاف انتہائی اقدامات
کا مطالبہ کررہے تھے ۔
۱۹۶۶ میں بعث پارٹی نے صلاح حدید کے حوالے اقتدارکیا اور اس نے سیکولرزم
اور سوشلزم کو بزور قوت نافذ کرنا شروع کر دیا اورشعائرِ اسلام کو مٹانے کی
ان کوششوں کا آغاز ہو گیا جو عرب دنیا کیلئے بالکل نئی تھیں اس کے سبب بعث
پارٹی کے خلاف عوام کے غم و غصہ میں اضافہ ہونے لگا ۔ اخوانی رہنما مروان
حدید کی قیادت میں حماۃ کے اندر بعث حکومت کے خلاف احتجاج کاسلسلہ شروع ہوا
جس کے جواب میں سخت اقدام کئے گئے اور شہر کی جامع مسجد شہید کر دی گئی، اس
بیچ ۱۹۶۷ کے اندر اسرائیل کے ہاتھوں شام و مصر کی مشترکہ مہم ناکامی کا
شکار ہوگئی ۔شام کو گولان کی پہاڑیوں سے ہاتھ دھونا پڑا ۔جنگ کے بعد
اخوانیوں نے حکومت کے خلاف دمشق میں مظاہرے کئے جنھیں کچل دیا گیا ۔اس
دوران صلاح کی مقبولیت میں غیر معمولی کمی واقع ہوگئی تھی اور اس کا فائدہ
اٹھا تے ہوئے خود اس کا وزیر دفاع حافظ الاسد بغاوت کر کے اقتدار پر قابض
ہو گیا۔
حافظ الاسد نے اپنے ابتدائی ایام میں اسلام پسندوں کے تئیں نرم رخ اختیار
کیا جس کا مثبت جواب اخوان کی جانب سے دیا گیا لیکن ۱۹۷۳ میں اچانک حافظ
الاسد نے دستور میں بنیادی قسم کی تبدیلیاں کر دیں جس کی روُ سے نہ ہی صدر
ِ مملکت کیلئے مسلمان ہونا لازمی تھا اور نہ ہی شریعت کی دستور پر برتری
برقرارتھی ۔اس ترمیم کے خلاف اخوان اقتدار کو بدلنے کی خاطر سڑکوں پر اتر
آئے۔ اس دوران ۱۹۷۹ کے اندر الپو میں ایک فوجی چھاؤنی کے اندر دھماکہ ہوا
جس سے ۳۲ فوجی ہلاک ہوئے چونکہ اس وقت تک حافظ الاسد نے اپنے قبیلے کے
لوگوں کو فوج کے اہم عہدوں پر فائز کرنا شروع کر دیا تھا اس لئے مہلوکین
میں اکثریت علوی قبیلے کے افراد کی تھی۔ ۱۹۸۰ کے آتے آتے اخوانیوں نے
کئی شہروں میں متوازی حکومت قائم کرلی تھی اور ایسا لگنے لگا تھا کہ اب بعث
پارٹی کا چل چلاؤ ہے لیکن ۲۶ جون کو حافظ نےیہ خبر اڑائی کہ اخوان اسے قتل
کرنے کا منصوبہ بنارہے تھے اور اس کا بہانہ بناکر اخوان کے ارکان کیلئے
سزائے موت کا قانون وضع کردیا ۔اخوانیوں کا قتل عام شروع کر دیا گیا۔اخوانی
بھی مزاحمت کیلئے میدان میں اترے حمص شہر ان کے قبضے میں تھا لیکن ۱۹۸۲
میں حکومت نے فوجی کارروائی کرکے اس شورش کوبڑی سفاکی سے کچل دیا ۔ اس
دوران ہزاروں اخوانیوں کو شہید کیا گیا جن کی تعداد ۳۲ ہزار تک بتلائی جاتی
ہے ۔اس سانحہ کے بعد اخوان کی قوت شام کے اندر بکھر گئی اور اس کے رہنما
مختلف ممالک کو کوچ کر گئے ۔
اخوان المسلمون نے ۱۹۸۰ کے بعد سے مختلف تحریکوں کے ساتھ الحاق کرکے
جدوجہد کرنے کی حکمتِ عملی اپنائی تھی اور قومی محاذ برائے آزادی کے تحت
سب کو یکجا کیا تھا لیکن قیادت کا منصب اخوان کے پاس تھا۔ اسلام کو ریاست
کے دین کی حیثیت سے سبھی فریقوں نے تسلیم کیا تھااورو شریعت کی بنیاد دستور
سازی پر اتفاق رائے تھا حالانکہ بائیں بازو کی جماعتیں بھی اس الحاق میں
شامل تھیں ۔تمام تر آزمائشوں کے باوجود یہ جدو جہد جاری رہی ۱۹۹۰ میں
بننے والے قومی محاذ برائے آزادی میں اخوان شریک تھی بلکہ سابق نائب صدر
عبدالحلیم خدام کی قیادت میں قائم ہونے والے شامی نجات دہندہ محاذ میں بھی
اخوان کی شمولیت رہی اور ۲۰۰۶ کے اندر شائع ہونے والے دمشق اعلامیہ پر اس
نے دستخط کئے جس میں بعث پارٹی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا عزم کیا گیا
تھا ۔بشار الاسد نے ۲۰۰۸ میں اخوان کی جانب نرم رخ اختیار کیا ۔محصور
ارکان کو رہا کیا اور ملک بدر رہنماؤں کو واپس آنے اجازت دی لیکن
سرگرمیوں کا آغاز پر راضی نہیں ہوا ۔ اخوان المسلمون نے آگے چل کر محسوس
کیا کہ بشارالاسد کی نیت ٹھیک نہیں ہے وہ جو کچھ کہتا ہے عمل اس کے خلاف
کرتا ہے ۔اخوان المسلمون کے اس الزام کو بالآخر خود بشارالاسد نے سچ ثابت
کر دیا ۔ گزشتہ نو ماہ کے اندر اس نے اصلاحات کے حوالے نہ جانے کتنے وعدے
کئے اور بعینہ اس کے خلاف کام کرتا رہا لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب اس کی
پینترے بازی چند دنوں کی مہمان ہےعرب لیگ کا وفد سوڈانی جنرل محمد الدابی
کی قیادت میں دمشق پہنچ گیا ہے اوربشار چشم تصور سے دیکھ رہا ہے ۔
لہو جو بہتا رہا ، بہتا رہا، بہتا رہا
یہاں تلک کے وہ دریائے بے کنار بنا
مگر مشیت و نظمِ خدائے برتر ہے
اسی میں ڈوبنا فرعون کا مقدر ہے
انسان فطرتاً جلد باز ہے اس لئے وہ قبل از وقت مایوس ہونے لگتا ہےجبکہ مشیت
اپنے دلچسپ مظاہر دکھلاتی رہتی ہے ۔ افغانستان اور فلسطین کی جانب سے جو
خبریں فی الحال آرہی ہیں وہ ہمارے تصور خیال میں بھی نہ آتی تھیں ۔مثلاًخلیجی
ریاست قطر کا طالبان کودفتر کھولنے کی اجازت دینا ۔ اس اقدام کے بعداول تو
افغانی حکومت نے احتجاج کے طورپر اپنے سفیر کو واپس بلا یا اور اعلان کیا
کہ افغانستان کے نزدیک طالبان کو آفس کھولنے کی اجازت دینے کا فیصلہ باغی
تنظیم کو رعایت دینے کے مترادف ہے لیکن پھر افغان وزارت خارجہ کےایک اعلیٰ
عہدیدار نے اعتراف کرلیا کہ کہ افغان حکومت اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ بون
کانفرنس کے موقع پر قطر نے طالبان کو دفتر کھولنے کی اجازت دینے سے متعلق
امریکا اور جرمنی سے بات چیت کی تھی۔ افغان حکومت نے امن کےعمل کو آگے
بڑھانے کے لیے اس کی حمایت کی تھی لیکن چونکہ افغان حکومت کو ان مذاکرات
میں شریک نہیں کیا گیااس لئے سفیر کو واپس بلایا گیا۔ اس موقف میں مزید
نرمی اس وقت دکھلائی پڑی کرزئی حکومت نے تسلیم کیا کہ اگر طالبان پر امن
مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو وہ کسی بھی ملک میں دفتر کھول سکتے ہیں ۔کابل
میں افغان صدر حامد کرزئی کی افغان رہنماوں سے ملاقات کے بعد صدارتی ترجمان
کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے دفتر کے لیے اگر
افغانستان میں مرکز کھولنا ممکن نہ ہو تو سعودی عرب یا ترکی بہتر متبادل
ہیں گویا بلاواسطہ یہ عندیہ بھی دیا گیا کہ بہت جلد کابل میں طالبان کا
دفتر کھل جائیگا ۔
اقوام متحدہ کی تنظیم یونیسکو میں فلسطینی اتھارٹی کو مکمل رکنیت ملنے پر
امریکہ سے زیادہ اسرائیل کا چراغ پا ہونا فطری ہے۔ صہیونی فسطائیت اپنی اس
سفارتی ناکامی پر شدید ردِ عمل کا اظہار کرتےہوئےغرب اردن اور مشرقی یروشلم
کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاروں کے لیے لگ بھگ دو ہزار رہائش
گاہوں کی تعمیر کے عمل کو تیز کردیااور ایک ہزار مکانات کی تعمیر کا ٹینڈر
جاری کر دیا ۔اس طرح اس نے اپنے آپ کو مزید مبغوض کرنے کا اہتمام ازخود
کردیا ۔ سلامتی کونسل میں یورپی اتحاد، ناوابستہ ممالک کی تحریک، عرب ممالک
کے گروپ اور ابھرتے ہوئے ممالک آئی بی ایس اے کے نمائندوں نے جم کر اس
اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ۔یورپی اتحاد کی جانب سے برطانوی سفیر مارک
لائل گرانٹ نے کہا کہ’اسرائیل کا مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ فسطینیک علاقے
میں بستیوں کی تعمیر المناک اقدام ہے۔ سلامتی کونسل میں ویٹو کی طاقت رکےنہ
والے روس بھی اسرائیلی پالیسی کی مذمت کی ہے۔ویسے تو اسرائیل کا وجود ہی
ناجائز ہے لیکن بین الاقوامی قانون کے تحت بھی مشرقی یروشلم سمیت غربِ اردن
پر ۱۹۶۷ ءسے اسرائیل کا غاصبانہ وغیر قانونی قبضہ ہےجہاں فلسطینیوں کو بے
خانماں کر کے پانچ لاکھ یہودیوں کو بسایا گیا ہے ۔
تارِیخ کے اس نازک موڑ پر غزہ کے حکمران اور حماس کے وزیراعظم اسماعیل
ہنئیہ مسلم ممالک کے دورے پر روانہ ہو گئے۔یہ خبر اس لحاظ سے بھی حیرت
انگیز ہے کہ حماس کو امریکہ ایک دہشت گرد تنظیم شمار کرتا ہے اس کے باوجود
حماس رہنما ببانگِ دہل مسلم دنیا کے ساتھ اپنی تنظیم کے تعلقات بہتر بنانے
کے سلسلہ میں غیر ملکی دورہ کر رہے ہیں۔ان کے نائب محمد عود نے بتایا ہے کہ
وہ مصر، سوڈان، قطر، بحرین، تیونس اور ترکی جائیں گےاوران ممالک کے لیڈروں
کے ساتھ غزہ کی پٹی اور مقبوضہ مغربی کنارے میں ترقیاتی منصوبوں ، حماس اور
فتح کے درمیان مصالحت کے لیے کوششوں اور مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیل کی
جانب سے یہودیوں کو بسانے کے لیے شروع کیے گئے تعمیراتی کاموں سے متعلق
امور پر بات چیت کریں گے۔محمد عود کے مطابق ''اس دورے کے ذریعے ہم فلسطین،
عرب تعلقات کا ایک نیا باب وا کریں گے''۔ فی الحال اسماعیل ہنئیہ کا دورہ
دو ہفو ں پر محیط ہے لیکن اگر مزید ممالک کی جانب سے بھی انیںت دورے کی
دعوت موصول ہوتی ہے تو اس میں توسیع بھی ممکن ہے۔ مصر میں حسنی مبارک کے
بعد نئی فوجی حکومت اور عوامی انقلابی تحریک کے رہنما فلسطین کی حماس کی
بھرپور حمایت کا اظہار کررہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۰۰۷کے بعد اسماعیل
ہنیئیہ کا یہ پہلا دورہ ممکن ہوا ہے ۔ دمشق میں چونکہ فی الحال حماس کا صدر
دفتر ہے اس لئے شام میں جاری شورش کے پیشِ نظر اس دورے کو غیرمعمولی اہمیت
حاصل ہو گئی ہے ۔جہاں ایک دروازہ وقتی طورپر بند ہو رہا ہے وہیں مشیت کئی
دروازے کھولنے کا اہتمام کر رہی ہے ایسا لگتا ہے کہ اس جشن کی گھڑی قریب آن
کھڑی ہوئی ہے جس کی بشارت انتا ر نعیم نے اس شعر میں دی ہے
لہو جو بہتا ہے آخر وہ سرخ رو ہوگا
خوشا اے اہل وطن جشن آرزو ہوگا |