میں نہیں بھول سکتی

میں کسی بھی صورت یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ قوم عقل و شعور نہیں رکھتی۔میرے سامنے کم از کم دو مثالیں ایسی ہیں جب قوم نے شعوری طور پر اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا۔پہلی بار جب بھٹو نے روٹی ، کپڑا اور مکان کا انقلابی نعرہ بلند کیا اور قوم نے لبیک کہاحالانکہ یہ وڈیرے اور جاگیر دار اُس وقت بھی اپنے اپنے حلقوں میں اپنی تمام تر رعونت کے ساتھ موجود تھے پھر بھی ”بے نامیوں“ نے نامیوں کو بُری طرح پچھاڑ دیا ۔اور دوسری بار جب ایم۔ایم۔اے دینِ مبین کی سر بلندی اور امریکہ مخالف نعرہ لے کر میدان میں اُتری تو قوم نے تب بھی شعور کا ثبوت دیا اورسا ئیکل سوار ”ملّاؤں“ نے نامیوں کے دانت کھٹے کر دئیے ۔الیکشن سے ہٹ کر قوم نے بھرپور شعور کا مظاہرہ اُس وقت کیا جب جناب جسٹس علمِ بغاوت بلند کرتے ہوئے اکیلے گھر سے نکلے اور پھر ”کارواں بنتا گیا“ ۔کسی نے لاٹھی گولی کی پرواہ کی ، نہ آمر کی ۔تین ، تین گھنٹوں کا سفر تیس تیس گھنٹوں میں طے ہوتا ،خواتین بچے ، بوڑھے اورجوان”اُس باغی“ کی محض ایک جھلک دیکھنے کے لئے پہروں سڑکوںپر کھڑے رہتے اور با لآخر چیف صاحب کو ”کرسی عدل“ پر بٹھا کے دم لیا ۔اس لئے میں اس ”نرالی منطق“ کو تسلیم نہیں کر سکتی کہ عمران خاں صاحب کو ” Election Winning“ امید وار درکار تھے جو انہوں نے اکٹھے کر لئے ۔تاریخ کا سبق تو یہ ہے کہ اگر سچّی لگن اور جذبہ تعمیر زندہ ہو تو ایک اکیلا بھی کروڑوں پہ بھاری ہوتا ہے ۔کیونکہ اس کے نعرہ مستانہ پہ لبیک کہنے والے لاکھوں کروڑوں بے لوث خود ہی پیدا ہو جاتے ہیں ۔چیف جسٹس اکیلے گھر سے نکلے ،امام خمینی اکیلے نے فرانس میں بیٹھ کر انقلاب برپا کر دیا ۔سترہ سالہ محمد بن قاسم کو اسی لگن نے نو آموز سپاہ کے ساتھ ملتان تک پہنچا دیا ۔ اور اسی جذبے نے طارق بن زیاد کو سفینے جلانے پر مجبور کیا ۔تاریخ بتاتی ہے کہ نہ محمد بن قاسم کے ساتھ کوئی کہنہ مشق سالار تھا ، نہ طارق بن زیاد کے ساتھ ،ہاں مٹھی بھر جانثار ضرور تھے اور تحقیق کہ ایسے عمران خاں کے ساتھ بیشمار ہیں ۔لیکن تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ جرّی سلطان ٹیپو اور نڈر سراج الدولہ کا زوال میر جعفر اور میر صادق کے ہاتھوں ہوا جن پر وہ تکیہ کیے بیٹھے تھے۔دُکھ ہوتا ہے کہ عقابی شان سے ابھرنے والا عمران خاں بھی بے بال و پر نکلا۔

میں خاں صاحب کو نجات دہندہ سمجھنے والوں کی کڑی تنقید کا نشانہ بن رہی ہوں ۔خُدا کرے کہ وہ نجات دہندہ ہی ہوں لیکن یا تو میرے اندر کوئی کجی ہے یا پھر میرے مہربان جھوٹ سے سچ کو نتھارنا ہی نہیں چاہتے ۔آقاﷺ کا فرمان ہے کہ ” اندھا وہ نہیں جو بصارت سے محروم ہے بلکہ اندھا وہ ہے جس میں بصیرت نہیں“ تحقیق کہ قومیں جب ربِ کردگار کی عطا کردہ بصارت و بصیرت سے پہلو تہی کرنے لگتی ہیں تو پھر اُس کا قہر نازل ہوتا ہے ۔فرمانِ ربی ہے ”کیا یہ نہیں دیکھتے کہ یہ ہر سال ایک یا دو بار مصیبت میں پھنسا دئیے جاتے ہیں پھر بھی توبہ نہیں کرتے ، نہ نصیحت پکڑتے ہیں “ (سورہ توبہ)۔حال اپنا بھی یہی ہے ،تحقیق نہ تدقیق ، بس اپنے بنائے ہوئے بتّوں کی پوجا ، صرف پوجا ۔

کہا جاتا ہے کہ فسق و فجور میں ڈوبے ہوئے مُشرکینِ مکّہ کو بھی تو آقا ﷺ سیدھی راہ پر لے ہی آئے تھے ۔دست بستہ عرض ہے کہ ”عامیوں“ کا موازنہ انبیاءسے کرنا کسی طور بھی مناسب نہیں ۔”چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک“ ۔ پھر بھی عرض ہے کہ سرورِ دو جہاں ﷺ کے سامنے مشرکین تھے جنہیں ان کے دین سے ہٹا کر دینِ مبیں کی طرف راغب کیا جا رہا تھا جب کہ یہاں ایساکوئی معرکہ درپیش نہیں ۔مشرکین روا اور نا روا سے نا واقف تھے جب کہ یہ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر سے مکمل آگاہ ۔جو ایک دفعہ صدقِ دل سے حلقہ بگوشِ اسلام ہوا صحابی کہلایا ۔یہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی عشروں سے اپنی خباثتوں میں گم ہیں ۔اسی لئے سیانے کہہ گئے ہیں کہ ”آزمودہ را آزمودن جہل است“ اگر حضورﷺ کے دور میں صحابہ اکرام رضوان علیہم تھے تو ابو جہل اور ابو لہب بھی اسی دور میں تھے اور ہاں بہت سے ایسے بھی تھے جنہوں نے دل سے اسلام قبول نہیں کیا تھا ۔حضور ﷺ فتح مکّہ کے بعد امامت کے ئے کھڑے ہو تے ہیں ، صحنِ کعبہ میں انسانی سر ہی سر نظر آتے ہیں ، حکمِ ربی ہوتا ہے کہ بغلیں کھول کر دونوں ہاتھ کانوں تک لے جاؤ ۔ جب ایسا کیا جاتا ہے تو بغلوں سے تڑا تڑ بُت گرنا شروع ہوتے ہیں اور صحنِ کعبہ بتوں سے بھر جاتا ہے ۔کیا پتہ کہ PTI میں دھڑا دھڑ شامل ہونے والے اپنی بغلوں میں حرص و ہوس کے کتنے بُت چھپا کر لائے ہیں ۔بجا کہ ”دلوں کے بھید صرف خُدا جانتا ہے “ لیکن اُس لم یزل نے ہمیں سوچنے کے لئے دماغ اور پرکھنے کے لئے آنکھیں بھی تو دی ہیں ۔ہم کیوں نہیں سوچتے کہ حضور ﷺ کا پالا ”مدینہ النبی “ میں ”گروہِ منافقین“ سے پڑاتھا جن کا سردار عبد اللہ ابنِ ابی تھا ۔یہ وہ لوگ تھے جو محض ذاتی مفاد کی خاطر دھڑا دھڑ اسلام لائے لیکن دینِ مبین کو جب بھی ضرورت محسوس ہوئی ، رفو چکر ہو گئے پھرجب کچھ بَن نہ پڑا تو حیلوں بہانوں اور منت سماجت سے لوٹ آئے۔ پی۔ٹی۔آئی والو ! ذرا سنبھل کے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ ڈال ڈال پر منڈلانے والے یہ بھنورے کل کلاں انہی جیسے نکل آئیں کہ میں تو جب بھی ان کا کچّا چٹھا کھول کر بیٹھتی ہوں ، حیران رہ جاتی ہوں کہ سرمایہ ملّت ان ذہین و فطین نوجوانوں کو کیا ہو گیا ہے؟یہ کیوں نہیں سوچتے؟۔شاید یہ بھی جذبات کی رو میں بہہ گئے ہیں ۔لیکن اتنا قصور ان کا بھی نہیں کہ انہیں جو انقلاب آفریں خواب دکھائے گئے تھے یہ شاید ابھی تک ان کے سحر سے آزاد نہیں ہوئے۔

معزز قارئین ! میں نے طے کر لیا ہے کہ آج کے بعد پی۔ٹی۔آئی پر کچھ نہیں لکھوں گی ۔میں انتظار کروں گی کہ یہ نسلِ نو خوابِ گراں سے کب جاگتی ہے تاکہ میں بھی فخر سے کہہ سکوں کہ
گئے دِن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
میرے اب یہاں رازداں اور بھی ہیں

لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ مجھے بھی کبھی عمران خاں کی پُکار میں سچائی کی بُو آتی تھی ۔۔۔۔ میں ”سیتا وائٹ“ کو بھی بھول گئی اور اُن کے انگلینڈ میں گزارے ہوئے ناقابلِ ستائیش ماضی کو بھی ۔۔۔۔ میں یہ بھی بھول گئی کہ کبھی عمران خاں بذاتِ خود جھنڈا اُٹھائے آمر مشرف کے جلسوں میں شریک ہوا کرتے تھے ۔مجھے نہ یہ یاد رہا کہ آمر مشرف کے ریفرینڈم پر جب سارا پاکستان لعنت بھیج رہا تھا تو خاں صاحب گلی گلی ریفرینڈم کی حمایت میں جلوس نکال رہے تھے ۔۔۔۔میں نے یہ بھی یاد نہیں رکھاکہ اسی ایم۔کیو۔ایم جس کے ساتھ آج کل وہ محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہیں ، کسی زمانے میں اسی کے قائد الطاف حسین کے خلاف ثبوتوں کے بریف کیس بھر کر اُسے قاتل ثابت کرنے کے لئے انگلینڈ جانے کا اعلان فرما رہے تھے ۔مجھے کیا ضرورت تھی یہ یاد رکھنے کی کہ جس مشرف کے خلاف وہ بر ملا اپنی نفرت کا اظہار کرتے چلے آرہے تھے اُسی کی تخلیق کردہ قاف لیگ کے چوہدریوں کے کندھے سے کندھا ملا کر (جن کا مشرف کو دس بار وردی میں منتخب کروانے کا دعویٰ تھا )خاں صاحب ضمنی الیکشن میں حصّہ لیتے رہے ۔ یہ سب بھول جانے کی وجہ وہ گُمان اور حسنِ ظن تھا کہ ”حُر“ حضرت حسینؓ کو گرفتار کرنے کے ارادے سے گئے اور آپؓ کا خطبہ سُن کر یوں پلٹے کہ حضرت حُرؓ شہید کہلائے ۔لیکن ”اے بسا آرزو کہ خاک شُدی“ خاں صاحب نے تو قطار اندر قطار وہ لوگ اکٹھے کر لئے جن پر نیب کے کیس آج بھی عدالتوں میں ہیں ، جن کے کارناموں کی فائلیں مقتدر قوتوں کے پاس محفوظ ہیں ، جن پر قتل کے الزامات بھی ہیں ، جعلسازی اور کرپشن کے بھی ۔جو محض کٹھ پُتلیاں ہیں جن کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے ۔

میں نہیں بھول سکتی وہ منظر کہ کراچی کے جلسے میں نیچے لوگ ”عافیہ صدیقی“ کی رہائی کے بینرز اُٹھائے کھڑے تھے اور اوپر عافیہ صدیقی کو اپنے ہاتھوں سے گرفتار کروانے والا خاں صاحب کے پہلو میں بیٹھا تھا ۔مجھے اُس وقت ”لال مسجد“ کی بچیوں کی مسخ شُدہ لاشیں اور جلے ہوئے بستے بُری طرح یاد آئے جب سٹیج پر گردنیں اکڑا کر بیٹھے وہ قاتل نظر آئے جو ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر اُس سانحے پر مشرف کے حق میں تقریریں کرتے رہے تھے ۔۔۔۔ میں کیسے بھول جاؤں جامعہ حفضہ کے پچھواڑے بہتے ہوئے گندے نالے کو جو قُرآنِ پاک کے اوراق سے اٹا پڑا تھا ؟ مجرم میرے سامنے تھے اور میں بے بس ۔۔۔ جی نہیں ،میں نہیں بھول سکتی ۔۔۔۔ البتہ ایک شخص مجھے وہاں اجنبی اجنبی سا لگا ۔۔۔۔ دیکھیں وہ ”باغی“ کب بغاوت کرتا ہے ؟ ۔۔۔۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 867 Articles with 563902 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More