چٹ بھی میری پٹ بھی میری دمڑی
میرے باپ کی ، اس محاورہ کی استعمال آج عملی طور پر دیکھ رہے ہیں موجودہ
حکومت نے حکمرانیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں حکومتی مشنری کی صرف ایک رٹ
ہے کہ ھم پانچ سال کی مدت پوری کریں گے عوام چاہے رہے یا نہ رہے وزارت رہنی
چاہیٔے۔
ریلوے کے وزیر نے ریلوے نظام کا بیڑا غرق کرنے کے بعد تجویز دی کہ ریلوے ہی
بند کردیا جائے اور موصوف ابھی تک اسی بات پر قائم ہیں اور ریلوے سے ہی
اپنے گھر کی دال روٹی چلارہے ہیں ۔ قومی ایئر لائن کے وزیر کے بھی کچھ اسی
طرح کے بیانات ہیں اور وہ بھی ابھی وزارت کا قلم دان چھوڑنے کو تیار نہیں
ہیں۔ بجلی کا بحران تو چل ہی رہا تھا اب تازہ بحران گیس کا پیدا کردیا گیا
۔ پیڑولیم کی وزارت اس شخص کو دی گئی ہے جس کو معدنی مصنوعات کی کوئی سمجھ
بوجھ ہی نہیں ، ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر کو اتنے اھم عہدے پر بٹھانے کا
مقصد صرف اور صرف اس ادارے کی تباہی ہی ہوسکتی ہے اور کچھ نہیں ، وزیر
موصوف ایک ہی وقت میں دو متزاد عہدوں پر فائز ہیں ایک طرف آپ صدرِ پاکستان
کے معالجِ خصوصی ہیں تو دوسری طرف پیٹرول اور ڈیزل میں ہاتھ کالے کررہے ہیں۔
آج کے اخبار نے ایسی شہ سرخی لگائی ہے جو پورے پاکستان کی عوام کو بیدار
کرنے کے لئیے کافی ہے (اگر وہ بیدار ہونا چاہے) وزیرِ پیٹرولیم صاحب نے
عندیہ دیا ہے کہ گیس کی شدید قلت ہوگئی ہے لہذا ایک ماہ کے لیے ملک بھر کے
سی این جی اسٹیشن بند کردیئے جائیں،مزید جلتی پہ تیل کا کام یہ کیا کہ
موصوف نے سی این جی کی قیمت پیٹرول کے برابر کرنے کے تجویز بھی دی ہے تاکہ
سی این جی کے استعمال میں کمی کی جاسکے ۔
واضح رہے کہ حکومت نے خود ہی پبلک ٹرانسپورٹ کو ڈیزل سے سی این جی پر تبدیل
کرنے کی ترغیب دی اور بغیر اجازت نامہ کے ٹرانسپورٹرز نے سی این جی پر
گاڑیاں چلانا شروع کردیں اس کا بوجھ بھی عوام ہی نے اٹھایا کیوں کہ حکومت
نے بسوں کے کرایہ جات ڈیزل کے نرخ کے حساب سے بڑھائے تھے اور اب پھر سی این
جی کی قیمتوں میں ممکنہ اضافہ کے سبب ٹرانسپورٹرز نے ہڑتال کی کال دے دی ہے
کراچی میں۔
چار سال پہلے بننے والی حکومت کے تمام دعوئے پانی کا بلبلہ ثابت ہوئے ،
ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کا منشور تھا کہ عوام کو روٹی کپڑا اور
مکان دیں گے ، مارشل لا ٔ کے بدترین دورِ حکومت میں پسی ہوئی عوام کو امن
اور سکون حاصل ہوگا اور کچھ درجے اس پر عمل بھی ہوا مگر جلد ہی وہ مضبوط
اور جفاکش بھٹو مصلحت پسندی کا شکار ہوکر اقربأ پروری میں لگ گیا اور نتیجہ
آخرت کا سفر۔ اس کے بعد ایک اور مارشل لا ٔ لگ گیا ، 90 دن میں جمہوری
انتخابات کے دعوئے کرنے والے نے نو سال تک حکمرانی کی اور پھر اللہ کی بے
آواز لاٹھی چل ہی گئی اور اپنے کو امیرالمومنین کہلانے کا خواہشمند ہوا میں
تحلیل ہو گیا۔
افسوس اس بات کا ہوا کہ عوام کی پیپلز پارٹی کی دوسری بار بننے والی حکومت
اور پھر تیسری بار بننے کے باوجود عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی خاطر
خواہ کام نہیں کیے گئے نہ ہی گذشتہ غلطیوں کا اعادہ کیا گیا نتیجہ وہی ہوا
جو اس پارٹی کے پہلے وزیرِاعظم کا حال ہوا فرق صرف یہ ہوا کہ بی بی اپنے ہی
لوگوں کے درمیان مار دی گئیں اور تاحال قاتل زندہ ہیں، اور زندہ لوگوں کو
زندہ درگور کر رہے ہیں بہرحال 2008 میں بننے والی حکومت سے اگرچہ عوام کو
کچھ زیادہ توقعات نہیں تھیں پھر بھی کم از کم تھی تو عوامی منتخب حکومت مگر
اس عوامی حکومت نے اپنی پارٹی کا منشور ہی بدل دیا روٹی کپڑا اور مکان دینے
کی بجائے اب عوام کو بھوکا ننگا رکھنے کی ساری کارگزاریاں ہو رہی ہیں۔
کب تک عوام اس کرب سے گزرتے رہیں گے ، بجلی ، پانی اور گیس سب عوام کی
دسترس سے دور ہوتے جارہے ہیں ، غریب عوام کو صرف زبانی باتوں اور دعوؤں پر
ٹرخایا جا رہا ہے ، ھمارا خیال تو یہ ہے کہ موجودہ سارے بحران صرف اس لیے
پیدا کیے جارہے ہیں کہ عوام حکمرانوں کی نورا کشتی کو نہ سمجھ سکیں اور ایک
کے بعد ایک کی آمد کا سلسلہ جاری رہے اور انسانیت یونہی تڑپتی ، سسکتی رہے
۔
ھماری عوام سے گزارش ہے کہ خدارا ہوش میں آؤ اور اپنی آنے والی نسلوں کے
لیے اس ملک کو بچانے کے لیے کسی سیاسی کھیل کا حصہ بننے کے بجائے اتفاق اور
ایصار کا جذبہ لے کر متحد ہو جاؤ سیاسی بٹیروں کو صحیح سمت میں اڑان سکھانے
کی کوشش شروع کردو۔ |