اچھی تعلیم وتربیت کاانسانی
زندگی پرمثبت اثرپڑھتاہے اورتعلیم وتربیت کایہی اثرانسان کودوسروں انسانوں
پرفوقیت دیتاہے،معاشرے میں ہرقسم کے لوگ ہوتے ہیں جن کی سوچ بھی ان کے رنگ
،قداورجسم کی ساخت کی طرح مختلف ہوتی ہے اورجن کوایک جگہ یکجا کرنا
یقیناًکسی عام انسان کی بس کی بات نہیںیہ وہ ہی کرسکتاہے جس کی تعلیم
وتربیت بہتراندازمیں کی گئی ہوں،جس کااخلاق وکردار شفاف ہواوروہ سب کوساتھ
لیکرچلے قائد تحریک جناب الطاف حسین جو پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت
کے قائد ہیں اپنے کارکنان کوسیاسی تربیت کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی کر
تے ہیں اور انہیں عوام الناس کی خدمت کرنے کی تلقین بھی کر تے ہیں جناب
الطاف حسین کے ایسے ساتھیوں کی طویل فہرست ہے اوران میں ایک شخصیت
گورنرسندھ ڈاکٹرعشرت العبادکی ہے جو کسی تعریف کی محتاج نہیں اورجنہوں نے
اپنے منصب پررہ کرجس طرح صوبے اوراس کے عوام کی بلا تفریق بے لوث خدمت کی
اس کی تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
گورنر صوبہ کاآئینی سربراہ ہوتاہے اور صدر مملکت کا نمائندہ ہوتاہے جس کی
معیادآئینی عتبارسے پانچ سال ہے قیام پاکستان سے لیکرآج تک 27افراد ایسے
تھے جوگورنرسندھ کے عہدے پرفائزرہے لیکن ڈاکٹرعشرت العبادواحدگورنرہیں
جنہوں نے طویل ترین عرصہ گورنرکے عہدہ پر رہ کر ایک نئی مثال قائم کی جس کی
بنیادی وجہ ان کے اخلاق وکردارکے ساتھ ساتھ جناب الطاف حسین وہ نظریاتی اور
سیاسی تربیت ہے جو ماضی کے گورنر کو میسر نہیں آسکیں۔سندھ کے پچھلے
27گورنروں کے بارے میں مختصر ساجائز ہ لیا جائے تو معلوم ہو تاہے کہ شیخ
غلام حسین ہدایت اللہ(14اگست1947تا 4اکتو بر1948)،شیخ دین محمد(
7اکتوبر1948تا19نومبر1949)،میاں امین الدین(19نومبر1949تایکم مئی1953، )جارج
بکسنڈال کو نسٹنٹین(2مئی1953تا12اگست1953، )حبیب ابراہیم رحمت اللہ( 12اگست
1953تا 23جون 1954،)نواب افتخار حسین( 24جون 1954تا14اکتوبر 1955)، صوبہ
مغربی پاکستان کا حصہ (ون یونٹ)14(اکتوبر1955تا یکم جولائی 1970،) رحمان گل
(یکم جولائی 1970تا 20دسمبر1971)،ممتاز بھٹو(22دسمبر1971تا 20اپریل
1972،)میر رسول بخش ٹالپر( یکم جون 1972تا 14فروری 1973،)بیگم رعنا لیاقت
علی خان( 15فروری1973تا 28فروری1976)،محمد دلاور خانجی (یکم مارچ 1976تا
5جولائی 1977،) عبدالقادر شیخ (6جولائی1977تا17ستمبر 1978)، ایس ایم
عباسی(18ستمبر1978تا6اپریل 1984،)جہاندار خان( 7اپریل 1984تا 4جنوری 1987)،
اشرف ڈبلیو تابانی( 5جنوری1987تا 23جون 1988)،رحیم الدین خان(، 24جون
1988تا 12ستمبر1988)، قدیر الدین احمد(12ستمبر1988تا 18اپریل 1989، )فخر
الدین جی ابراہم( 19اپریل 1989تا 6اگست 1990،)محمود ہارون ( پہلی مرتبہ)(
6اگست 1990تا 18جولائی 1993، )حکیم محمد سعید( 19جولائی 1993تا 23جنوری
1994)، محمد ہارون (دوسری مرتبہ )( 23جنوری 1994تا 21مئی 1995)، کمال الدین
اظفر( 22مئی 1995تا 16مارچ 1997،)معین الدین حیدر( 17مارچ 1997تا 17جون
1999، )ممنون حسین( 19جون 1999تا 12اکتوبر 1999،)عظیم داود پوتہ(25اکتو بر
1999تا 24مئی 2000، )محمد میاں سومرو(25مئی 2000تا 26دسمبر 2002) گورنر کی
حیثیت سے سندھ کی خدمت کر چکے ہیں۔
ٍ
گورنرسندھ ڈاکٹر عشرت العباد 2مارچ 1963ء میں کراچی میں پیدا ہوئے انہوں نے
ابتدائی بھی تعلیم کراچی میں حاصل کی اور ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی سے ایم بی
بی ایس کی ۔ان کوشروع ہی سے ہی عوام کی خدمت کرنے کا شوق تھا اسی وجہ سے
انہوں نے طلبہ تنظیم ا ے پی ایم ایس او سے اپنے سیاسی زندگی کاآغاز کیااور
بعد میں رکن سندھ اسمبلی اور صوبائی وزیر بھی رہے۔وہ ایک ٹھنڈے مزاج کے
مالک ہیں ، انہیں 1990میں سندھ کا بینہ میں سب سے کم عمر وزیر منتخب ہونے
اعزاز ملا اور27دسمبر2002 کو سب سے کم عمر گورنر کی حیثیت سے اپنے عہدے کا
حلف اٹھایا جو پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
متحدہ قومی موومنٹ اورپیپلزپارٹی کے درمیان بڑے نشیب و فراز آئے اور کئی
مرتبہ پاکستان کی سیاست میں ہلچل برپا ہوگئی لیکن دونوں جماعتوں کے قائدین
نے فہم و فراست سے کام لیتے ہوئے اس اتحاد کو برقرار رکھا ہوا ہے اور
جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچایا ، دونوں جماعتیں مفاہمت کی پالیسی پر عمل
پیرا ہیں اور جمہوریت کوپھلتا پھولتا دیکھنا چاہتی ہیں ۔ اس وقت گورنر سندھ
ڈاکٹر عشرت العباد ہی تھے جنہوں نے جناب الطاف حسین کی فہم فراست اور تد بر
کے مطابق انتھک محنت سے بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت کو کم کیا اور اتحاد
حکومت اور ملک میں جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچایا جیسا کہ 27جون 2011کو
ایم کیوایم کی جانب سے حکومت سے علیحدگی کے اعلان کے بعد گور نر سندھ ڈاکٹر
عشرت العباد اپنا عہدہ چھوڑکر بیرون ملک چلے گئے تھے اوران کے جانے سے سندھ
میں ایک ایساخلاء پیداہواجس کوہرخاص وعام سمیت خاص طور پر ملک بھر کے تاجر
برادری نے نہ صرف محسوس کیابلکہ ان کی واپسی کیلئے ایم کیوایم کے قائدجناب
الطاف حسین اورصدرمملکت آصف علی زرداری سے باقاعدہ رابطے بھی کیے اور صوبہ
بھر کی عوام کی خواہش پر ڈاکٹر عشرت العباد نے گورنر سندھ کا عہدہ دوبارہ
سنبھالااوروہ 19جولائی 2011ء کو وطن واپس پہنچے توایئرپورٹ پر ہزاروں لوگوں
نے ان کا پر تپاک استقبال کیا ۔گورنر سندھ سب سے طویل عرصے تک گورنر رہنے
والے واحد شخصیت ہیں جنہوں نے اپنے عہدہ کے دوران دوصدور، پانچ وزرائے اعظم
اور تین وزرائے اعلیٰ کے ساتھ کام کیا۔
گورنر سندھ نے اپنے منصب پر 9سال مکمل کرلئے ہیں ان بر سوں میں گورنر سندھ
نے صوبہ سندھ کی ترقی وخوشحالی، صوبے میں امن وستحکام ،بھائی چارگی کے
فروغ، عوام کے مسائل کے حل، تعلیم ، صحت ، سرمایہ کاری، اور صنعت و تجارت ،
ثقافت و کھیل، ترقیاتی کاموں اور دیگر شعبوں میں جس طر ح دن رات کام کیا،
ہر مسلک اور مکتبہ فکر کے لوگ اس کا برملا عتراف کرتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے
دور میں صوبے کو سنگین بحرانوں سے جس خوش اسلوبی سے نکالا اس کی مثال بہت
کم ملتی ہے انہوں نے اپنے دور میں صوبے کے مختلف مکاتب فکر کے درمیان ہم
اہنگی پید اکرنے کیلئے ذاتی کوششیں کیں ۔ انہیں ہمیشہ سندھ کی تاریخ میں
ایک نظیر کے طور پر پیش کیا جائے گا ان کی کوششوں و ذاتی کاوشوں اور محنت
کے نتیجے میں سندھ کا گورنر ہاؤس ہر مکتبہ فکر اور ہر شعبہ ہائے زندگی کے
افرادکیلئے کھلا ہے جو تعاون ،محبت واخوت اور رواداری کے جذبات کامظہر ہے
۔گورنرسندھ کے چرچے نہ صرف سندھ اوردیگرصوبوں میں ہیں بلکہ بیرون ملک بھی
ہیں انہوں نے جس طرح شمالی بحری قزاقوں سے۔MV Suez shipکے کیپٹن وصی اور
دیگر عملے کوآزادکروایااور معصوم بچوں کو باپ ، بیوی کوشوہرایک ماں
کوبیٹااورایک بہن کوان کے بھائیوں سے ملادیا جو اپنی مثال آپ ہے۔
’’بیشک اللہ رب العالمین جسے چاہتاہے اسے عزت عطا فرماتاہے اور جسے چاہتاہے
اسے ذلت سے ہمکنار کر تاہے‘‘
ایم کیوایم ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جس نے غریب متوسط طبقے کے تعلیم
یافتہ اور ایماندارافراد کو ایوانوں تک پہنچایا جس کی ایک مثال کراچی کے
سابق سٹی ناظم سید مصطفی کمال ہیں جنہیں دنیا کے بہترین مئیر میں شمار کیا
جاتا ہے اور سندھ کے گورنرڈاکٹر عشر ت العباد کو طویل عر صے تک غیر متنازعہ
گورنر رہنے کا اعزاز ملا اور تاحال اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے انجام دے
رہے ہیں اوران کی خاص بات یہ ہے کہ وہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں اور تمام
مکاتب فکرکے علمائے کرام کو ساتھ لیکر چل رہے ہیں جو صرف اور صرف جناب لطاف
حسین کی تربیت اورتعلیمات کا نتیجہ ہے اوران کی کامیابی دراصل الطاف حسین
کے فکر وفلسفہ اور نظرئیے کی کامیابی ہے اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ جب
تک غریب متوسط طبقے لوگ ایوانوں میں نہیں پہنچیں گے تب تک غریب عوام کے
مسائل حل نہیں ہونگے عوام کو سکون میسر نہیں آئیگا یہی وہ غریبوں کا پر امن
انقلاب ہے جس کی بات متحدہ قومی موومنٹ کے قائد جناب الطاف حسین کرتے چلے
آرہے ہیں ۔ |