کہاں سے لاؤں انہیں

خاکہ نگاری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وہ تحریر ہے جس میں خاکہ نگار کسی انسان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اس طرح اجاگر کرے کہ وہ شخصیت قاری کو ایک زندہ شکل میں نظر آئے اور خاکہ نگار نے اس انسان کی زندگی کا جس قدر مشاہدہ کیا ہو ، غیر جانبداری سے اس سے متعلقہ حالات و واقعات کو قاری کے مطالعہ میں لے آئے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کہتے ہیں:
” اردو ادب میں خاکہ مختصر افسانے کی طرح ایک نئی صنف ہے ۔ اس سے پہلے ہمیں طویل سوانح عمریاں تو ملتی ہیں لیکن ان کی حیثیت عام طورپر ادبی کم اور تاریخی زیادہ ہے۔غالب کے فورا بعد کے دور میں سوانح نگاری نے ایک خاص اہمیت حاصل کرلی اور حالی کی یادگار غالب، حیات سعدی، حیات جاوید، شبلی کی حیات ابو حنیفہ ، المامون اور الفاروق وغیرہ سامنے آئیں۔یہ چیزیں مستقل تصانیف ہیں اور ان میں کسی ایک شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو ہر زاویہ نگاہ سے دیکھا اور دکھایا گیا ہے۔ ان میں تاریخی اہمیت زیادہ اور کردار نگاری کا عنصر کم ہے۔ “

مختلف شخصیات پر مبنی خاکوں کی کتابیں تواتر کے ساتھ شائع ہوتی رہتیں ہیں لیکن کیا ہر کتاب ڈاکٹر جالبی کے بیان کردہ معیار پر پورا اترتی ہے ؟

اس ضمن میں ممتاز رفیق تصویر خانہ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:

” سعادت حسن منٹو نے اپنے خاکوں میں فرشتوں کامونڈن کیااور آج ہم خاکہ نگاروں کے ہاتھوں خاکہ نگاری کا مونڈن ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ان دنوں شائع ہونے والے خاکوں کے مجموعوں میں ہمیں فرشتوں کا اجتماع نظر آتا ہے جس میں ہر فرد دھلا منجھا اور تقریبا ہر انسانی کم زوری سے مبرا دکھائی دیتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ خاکہ نگاری بے حد مشکل صنف ہے جس کا تمام حسن سچائی، دیانت داری اور اس کے غیر جانبدارانہ اظہار میں ہی پوشیدہ ہوتا ہے۔ خاکہ نگار کی مثال ایک ایسے فرد کی سی ہے جو اپنے ہاتھوں میں آئنیہ لیے پھرتا ہے اور جو فرد اس آئینے میں تصویر ہوتا ہے اسے پوری ایمانداری سے بے کم و کاست کاغذ پر نقش کردیتا ہے۔ “

سعادت حسن منٹو ، عصمت چغتائی، اشرف صبوحی، مولوی عبدالحق، شاہد احمد دہلوی ، ڈاکٹر آفتاب احمد، قرة العین حیدر، نصر اللہ خان، مالک رام اور ڈاکٹر اسلم فرخی بلا شبہ خاکہ نگاروں کی فہرست کے قد آور نام ہیں۔

محمد طفیل ، حمید اختر، انور ظہیر خان اور صبیح محسن خاکہ نگاری میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ فلمی خاکوں میں رضا ہاشمی (لاہور)، انیس امروہوی (دہلی)نے دلچسپ خاکے تحریر کیے ہیں۔ دسمبر 2011 میں مدیر و ناشر جناب اجمل کمال نے اپنے سہہ ماہی جریدے آج کے شمارہ نمبر 71 میں ہندوستان کے جاوید صدیقی کے تحریر کردہ گیارہ اہم فلمی شخصیات کے رنگا رنگ خاکے شائع کیے ہیں۔

ڈاکٹر بشیر سیفی نے چند اہم خاکہ نگاروں کے تحریر کردہ خاکوں کو مختلف خانوں میں بانٹا ہے۔ ان کے مطابق تعارفی خاکوں میں چراغ حسن حسرت اور رئیس احمد جعفری ، مدحیہ خاکوں میں رشید احمد صدیقی، نفسیاتی خاکوں میں ممتاز مفتی اور یک رخی خاکوں میں دوزخی از عصمت چغتائی اور جوش ملیح آبادی از شاہد احمد دہلوی کے نام بہ آسانی لیے جاسکتے ہیں۔

چند روز قبل (دسمبر 2011) خاکوں کی ایک ایسی کتاب شائع ہوئی ہے جس کے مصنف کہنے کو تو ایک نامور محقق ، مدرس و فارسی داں ہیں لیکن یہ کتاب لکھ کر انہوں نے وصف خاکہ نگاری کے تمام اہم تفاضوں کو پورا کیا ہے۔ یہ ذکر ہے حافظ محمود شیرانی کے پوتے اور اختر شیرانی کے صاحبزادے پروفیسر مظہر محمود شیرانی اور ان کی کتاب ’ کہاں سے لاؤں انہیں‘ کا۔

پروفیسر مظہر شیرانی 9 اکتوبر 1935 کو راجپوتانہ کی ریاست جودھ پور میں کے گاؤں شیرانی آباد میں پیدا ہوئے۔ دربار ہائی اسکول ٹونک اور میونسپل ہائی اسکول لاڑکانہ (سندھ) سے ابتدائی تعلیم حاصل کی او ر بعد ازاں نقل مکانی کر کے پنجاب چلے آئے۔ شیخوپورہ سے میٹرک اور لاہور سے ایف اے، بی اے اور اس کے بعد تاریخ میں ایم اے کیا۔ فارسی زبان سے قلبی لگاؤ کی بنا پراس میں ایم اے کیا اور پھر اپنی تمام تر صلاحیتیں اسی شعبے کی نذر کردیں۔ مظہر شیرانی نے 1963 میں شیخوپورہ میں رہائش اختیار کی اور تاحال وہ اسی شہر میں مقیم ہیں۔ پہلے گورنمنٹ کالج لاہور اور پھر گورنمنٹ کالج شیخوپورہ میں تدریسی خدمات سر انجام دیں۔ سن اسی کی دہائی میں اپنے دادا حافظ محمود شیرانی پر پی ایچ ڈی مکمل کی۔ 1995 میں گورنمنٹ کالج شیخوپورہ سے ریٹائر ہوئے لیکن 2003 میں 51 جلدوں پر مشتمل فارسی لغت کو مرتب کرنے کا وہ جناتی کام شروع کیا جو انہیں ایک مرتبہ پھر گورنمنٹ کالج لاہور لے آیا۔ مظہر محمود شیرانی کے علمی و تحقیقی مضامین پاکستان کے نامور جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ 2006 میں ’بے نشانوں کا نشاں‘ کے عنوان سے خاکوں کی پہلی کتاب شائع ہوئی جس میں عام لوگوں کے خاکے ہیں، بالکل ویسے جیسا کہ بابائے اردو نے نام دیو مالی کا خاکہ لکھ کر اسے امر کردیاہے۔رشید احمد صدیقی کا کندن اور اشرف صبوحی دہلوی کا مٹھو بھٹیارا ایسی ہی چند مزید مثالیں ہیں۔

کہاں سے لاؤں انہیں میں کل بارہ خاکے ہیں۔’ شعلہ مستجل ‘کے عنوان سے کتاب کا پہلا خاکہ مصنف نے اپنے والد اختر شیرانی مرحوم پر لکھا ہے۔ دیگر خاکوں میں احمد ندیم قاسمی، مشفق خواجہ، مولانا سید محمد یعقوب حسنی، پروفیسر حمید احمد خان، سید وزیر الحسن عابدی، حکیم نیر واسطی، اکرام احسن خان، ڈاکٹر ضیاءالدین دیسائی، ڈاکٹر غلام مصطفی خان،رشید حسن خان اور پروفیسر وحید قریشی کے خاکے شامل ہیں۔ ان تمام خاکوں کے عنوانات ایسے دلچسپ ہیں کہ قاری انہیں پڑھنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
نباض الملک، صاحب اکرام، بن ٹھن کے کہاں چلے؟، نظیر خویش نہ بگذاشتند و بگذ شتند، کون گلی گیو خان، سانجھ بھئی چودیس وغیرہ۔

کتاب کا ابتدائی خاکہ نہ صرف اہم ہے بلکہ شاعر رومان کی زندگی کی تہہ در تہہ پرتوں کو عیاں کرتا ہے۔ اس سے قبل اختر شیرانی ہمیں منٹو کے خاکے میں ایک رند بلا نوش نظر آئے تھے۔ لیکن ’شعلہ مستجل ‘ میں مظہر شیرانی نے جہاں اپنے والد کی شفیق شخصیت کو دیانتداری سے نمایاں کیا ہے وہاں ان کی بادہ نوشی اور اس کے اثرات کا ذکر بھی تفصیل سے کیا ہے۔ مذکورہ خاکے کا طرز بیاں ملاحظہ ہو:

” درمیانہ قد، وجیہ چہرہ، کسرتی جسم پر کھلے پا ئنچوں کا پاجامہ،قمیض اور شیروانی، پاؤں میں گرگابی یا پمپ شو، یہ تھے ہمارے والد اختر شیرانی جنہیں ہم پنجابی محاورے کے مطابق بھا ءجی کہا کرتے تھے۔ وہ ہم بہن بھائیوں سے بے انتہا پیار کرتے تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے کبھی مجھے مارا یا جھڑکا ہو۔ کھانے پینے کا انہیں شوق نہیں تھا ، ان کی ضروریات شراب کے علاوہ سگریٹ اور پان تک محدود تھیں۔

۔۔۔ ان ایام میں خندہ روئی اور خوش مزاجی ان پر غالب رہتی تھی۔ ہم بچوں سے ہنسی مذاق کرتے اور پھلجھڑیاں سی چھوڑتے رہتے۔ ایک روز سہہ پہر کی چائے میں ذراتاخیر ہوئی۔ انہوں نے یاد دلایا۔ ہماری والدہ نے کہا پانی رکھا ہوا ہے، جوش نہیں آیا۔ بولے جوش کی کیا ضرورت ہے، جب اختر موجود ہے۔ماں نے ایک بار بیٹے (اختر شیرانی) کے لیے کرتا سلوایااور پہناتے وقت بڑے چاؤ سے اپنی طلائی گھنڈیاں جن میں تہری زنجیریں پڑی ہوئی تھیں، لگا دیں۔ وہ باہر نکلے۔ کسی ضرورت مند نے سوال کیا، انہوں نے زنجیریں نوچ کر اس کو بخش دیں۔ “

اختر شیرانی کی بادہ نوشی ان کے گھرانے کے لیے اور بالخصوص ان کے والد حافظ محمود شیرانی کے لیے سوہان روح بن گئی تھی۔ اس علت کو چھڑانے کی غرض سے ان کے اہل خانہ طرح طرح کے ٹو ٹکے آزماتے رہتے تھے۔ایک مرتبہ کسی نے بھنگ کی تجویز پیش کی، اگلے روز دستر خوان پر بھنگ ملی برفی موجود تھی جسے اختر شیرانی نے آنکھ تک اٹھا کر نہ دیکھا۔ مظہر شیرانی لکھتے ہیں :” ایک روز کسی بقراط نے شیر کا جھوٹا گوشت پکا کر کھلانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اس عمل سے شراب ہمیشہ کے لیے چھوٹ جاتی ہے ۔جے پور کے چڑیا گھر سے رابطہ کرکے شیر کا پس خوردہ منگوایا گیااور بڑے اہتمام سے اختر صاحب کے آگے رکھا گیا۔ انہوں نے کھایا بھی لیکن نتیجہ وہی ٹائیں ٹائیں فش۔ اور شراب چھوڑی تو کس وقت! جب مرض الموت میں مبتلا ہوکر میو اسپتال میں داخل ہوئے۔ حالت سقیم ہوئی تو ڈاکٹروں نے صلاح کرکے کوشش کی کہ انہیں دو گھونٹ بطور دوا پلائے جائیں ، لیکن جب آب طربناک کا جام منہ کے نزدیک لے جایا گیا تو اس کی بو سونگھتے ہی ہونٹ بھینچ لیے او ر منہ کی طرف اشارہ کرکے انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھا دی۔ مطلب تھا کہ مے آلودہ دہن لے کر بارگاہ خداوندی میں حاضر ہونا مناسب نہیں “

مظہر شیرانی نے متذکرہ خاکے میں بحوالہ قمر تسکین ایک حیرت انگیز بات لکھی ہے ۔ 1942 کی بات ہے، اختر شیرانی عرب ہوٹل میں احباب کے ساتھ محفل جمائے ہوئے تھے کہ ایک سانولے رنگ کا نوجوان اندر داخل ہوا اور اختر مرحوم کو سلام کر کے اور ایک کاغذ ان کی جانب بڑھا کر ادب سے ان کے قریب بیٹھ گیا۔اختر صاحب نے جیب سے قلم نکالا اور اصلاح شروع کردی۔ اختر کو نوجوان کی غزل میں ایک شعر سخت ناپسند تھا جسے حذف کرکے انہوں نے اس کی جگہ ایک اور شعر لکھا اور پھر اس شعر کو احباب کے سامنے پڑھا:
اے دوست ہم نے ترک تعلق کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

قمر تسکین لکھتے ہیں کہ اختر کے اس نوجوان شاگرد کا نام ناصر کاظمی تھا اور متذکرہ شعر ناصر کاظمی کی غزل میں استاد کا عطیہ تھا۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ یہ شعر اس غزل کی جان قرار پایا۔

حکیم نیر واسطی کا خاکہ نباض الملک بھی ماضی کی یادوں اور متفرق واقعات کا مرقع ہے۔ اختر شیرانی کے حکیم نیر واسطی کے ساتھ مراسم انتہائی بے تکلفانہ نوعیت کے تھے۔ مظہر شیرانی لکھتے ہیں کہ ” والدکا مزاج گھڑی ماشہ گھڑی تولہ ۔جب لاڈ میں ہوتے تو حکیم صاحب کو قبلہ کہہ کر مخاطب کرتے اور جب ترنگ میں بگڑ بیٹھتے تو مجمع میں بے نقط سنا دیتے۔ مگر واہ رے حکیم صاحب مجال ہو کہ کبھی چتون پر بل آیا ہو۔ ہنس ہنس کر فرماتے مولانا! یہ سب گالیاں پرانی ہوگئی ہیں، کوئی نئی گالی دیجیے۔“

حکیم نیر واسطی کی طبیعت میں بذلہ سنجی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ایک روز مظہر شیرانی اپنے ایک دوست کے بھائی کو لے کر حکیم صاحب کے پاس پہنچے ۔ نوجوان لڑکا تھا، تبخیر معدہ کا مریض ، بیماری بڑھتی چلی گئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ کہ جنون کی کیفیت میں دو مرتبہ خودکشی کی کوشش کرتے پکڑا گیا۔ حکیم صاحب نے نوجوان کی نبض پکڑی اور بولے میں جو پوچھتا جاؤں اس کا جواب دیتے جانا۔ پیٹ سے گیس اٹھتی ہے ؟ یہ گیس دل کو چڑھتی ہے؟ کھانا ہضم نہیں ہوتا؟ گھبراہٹ، پریشانی ، خودکشی کرنے کو جی چاہتا ہے ؟

مریض ہر سوال کے جواب میں جی ہاں، جی ہاں کرتا جاتا تھا۔ آخری سوال کے جواب میں اس نے بڑے خشوع و خضوع سے اثبات میں جواب دیا۔

حکیم صاحب نے نبض چھوڑی اور اور ایک قہقہ لگا کر کہا تو پھر کب ارادہ ہے ؟

نظیر خویش نہ بگذاشتند و بگذ شتند، ڈاکٹر غلام مصطفی خاں صاحب (حیدرآباد،سندھ ) کا خاکہ ہے۔ مظہر شیرانی نے ڈاکٹر صاحب قبلہ کی کتاب فضل کبیر میں درج کئی مکاشفات بیان کیے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ: ۔۔’ ’ایک مرتبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مجھ سیاہ کار پر شفقت ہوئی۔ فرمایا کہ مجھے مسلمان قوم سے شرم آتی ہے کہ میری قوم نے ان کو بہت دھوکے دیے ہیں۔ “

۔۔” ایک مرتبہ حضرت شہباز قلندر کی خدمت میں پروفیسر علی نواز جتوئی کے ساتھ ریل میں سہیون پہنچا، وہاں سے تانگے میں بیٹھ کر ہم لوگ مزارشریف کی طرف جانے لگے تو حضرت شہباز قلندر خود ہی تشریف لے آئے۔ فرمایا: تم کہاں جارہے ہو ؟ میں تو بدعات کی وجہ سے وہاں نہیں رہتا۔

۔۔” بالا کوٹ میں موٹر اسٹینڈ کے قریب ہی حضرت سید احمد شہید کا مزار ہے۔ وہاں عجیب کیفیت ہوئی۔ مزارکے قریب پھسل کر گر پڑا اور بے تاب ہوگیا۔ پھر سکون ہوا تو حضرت سید احمد شہید نے فرمایا میں اسی جگہ شہید ہوا تھا اور میرا گھوڑا بھی یہیں کھڑا ہوا تھا، شاہ اسمعیل لڑتے ہوئے آگے بڑھ گئے اور آگے جاکر شہید ہوئے ، تمہارے (ڈاکٹر غلام مصطفی) بعض اعزاہ بھی میرے ساتھ تھے۔“

۔۔اپریل 1968 میں معروف دانشور علامہ آئی آئی قاضی نے دریائے سندھ میں کود کر خودکشی کرلی تھی، اس موقع پر ایک بزرگ نے کہا کہ ان کی نماز جنازہ پڑھانا جائز نہیں ہے لیکن ڈاکٹر غلام مصطفی خان نے علامہ صاحب کی نماز جنازہ پڑھائی۔ ڈاکٹر غلام مصطفی بیان کرتے ہیں کہ یہ واقعہ تیرہ اپریل کا ہے، نماز جنازہ اور تدفین سے فارغ ہوکر میں گھر آیا اور سو گیا۔ رات کو تین بجے علامہ صاحب تشریف لائے۔ مجھے جگایا اور فرمایا تم نے ابھی تک تہجد کی نماز نہیں پڑھی۔ میں نے وضو کیا اور نماز شروع کی، علامہ صاحب میرے مصلے کے قریب بیٹھے رہے، پھر فرمایا مجھ سے غلطی ہوئی لیکن اللہ تعالٰی بڑا رحیم و کریم ہے۔

مظہر شیرانی لکھتے ہیں کہ :
”ڈاکٹر غلام مصطفی خان قبلہ کی نظر صحیح معنوں میں کیمیا اثر تھی۔ ان کے تصر ف کا ایک واقعہ ڈاکٹر اسلم فرخی کے حوالے سے یہاں درج کرتا ہوں۔ 1988 میں جب ڈاکٹر صاحب کو انجمن ترقی اردو کی طرف سے نشان سپاس پیش کیا جانا تھا، ان دنوں انجمن کے صدر نور الحسن جعفری تھے۔ وہ حکومت پاکستان کے معتمد مالیات کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے اور ’صاحب‘ آدمی تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے اعزاز میں جلسے کی اجازت تو دے دی لیکن خود اس میں شرکت سے معذرت کرلی۔ بہرحال انجمن کے دوسرے کار پردازان کے اصرار پر نور الحسن جعفری جلسے کی صدارت پر آمادہ ہوگئے۔ مختلف تقاریر کے بعد آخر میں جعفری صاحب صدارتی کلمات کہنے کے لیے مائیک پر آئے تو بجائے کچھ کہنے کے زار و قطار رونے لگے ۔پھر ہاتھ جوڑ کر بولے حضرت ڈاکٹر غلام مصطفی خان صاحب، مجھے معاف کردیجیے۔ میں آپ کے مقامات ظاہری اور مراتب باطنی سے بالکل بے خبر تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اٹھ کر انہیں سینے سے لگایا اور تسلی دی تب کہیں جا کر ان کو قرار آیا۔“

’ کہاں سے لاؤں انہیں‘ ایک ایسی کتاب کہلانے جانے کی حقدار ہے جس کے مصنف نے خاکہ نگاری کے بھاری پتھر کو محض چوم کر نہیں رکھ دیا ہے بلکہ تمام شخصیات کی یادوں کو دلنشیں و مربوط انداز سے سمیٹا ہے اور ان سے متعلق ہر اس بات کا ذکر کیا ہے جس سے ان شخصیات کے مصنف سے تعلقات نکھر کر سا منے آتے ہیں۔

خوبصورت سرورق سے مزین اس کتاب کو القا پبلشر ، لاہور نے شائع کیا ہے۔ صفحات 285 اور قیمت 590 ہے
ناشر کا پتہ وفون نمبر یہ ہے:
12 K، مین بلیوارڈ، گلبرگ 2، لاہور 54660
فون نمبر: + 92-42-35757877
ای میل پتہ: [email protected]
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 280255 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.