تحریر : مفتی سعید احمد پالن
پوری
بسم اللہ الرحمن الرحیم
زبانِ قلم میں یہ قدرت کہاں ٭ جو ہو حمدِ خالق میں گوہر فشاں
بے نہایت حمدوسپاس اس ذات ِ قدسی والا صفات کے لئے ہے جس نے مشت ِ خاک کو
جامۂ انسانیت پہنایا۔ پھر اس کے سر پر اشرفیت کا تاج رکھا۔ اور جس طرح اس
کی جسمانی ضروریات کا انتظام فرمایا، اس کی روحانی ضروریات بھی الہام
فرمائیں۔ ایسی ہدایات نازل فرمائیں جن کی پیروی سے کلاہ ِ دہقاں بآفتاب
رسید! انسان رشک ِ کرُّو بیان بن گیا۔ اور ایسے احکام نازل فرمائے جن کی
تعمیل میں سعادت ِ دارین مضمر ہے۔ دنیا کی خوبی اور آخرت کی بھلائی اسی کی
رہین ِ منت ہے۔
اور بے پایا ں رحمتیں اور سلامتی نازل ہو ان تمام برگزیدہ ہستیوں پر جنھوں
نے انسانوں کو سنوارنے میں اور ان کو احکام الٰہی کے فوائد وبرکات سمجھانے
میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ خاص طور پر اس گروہ کے قافلہ سالار، سید
ابرار، غایت ِ کائنات، فخر موجودات، حضرت ِ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم
پر، جنھوں نے ہر طرح سے لوگوں پر اتمام حجت کردیا اور دین الٰہی کا کوئی
گوشہ تشنہ باقی نہیں چھوڑا۔
اورآپ کی آل واصحاب پر، اور آپ کے دین متین کے حاملین: اساطین ِ امت پر،
جنھوں نے شریعت ِ مطہرہ کے رموز واسرار کو طشت از بام کردیا اور حقائق
ودقائق کو پوری طرح واشگاف کردیا۔ اللہ تعالیٰ امت کی طرف سے ان حضرات کو
جزائے خیر عطا فرمائیں۔ اور ہم کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا
فرمائیں( آمین)
حمد وصلوٰة کے بعد عرض ہے کہ ''حجۃ اللہ البالغہ ''کو امام اکبر ، مجدد
اعظم، محدث کبیر، مفکر ملت ، حکیم الاسلام، جامع شریعت وطریقت، حضرت اقدس
مولانا قطب الدین احمد معروف بہ شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہ کی
تصانیف میں واسِطَةُ العِقْد ( ہار کے بیچ کے عمدہ جوہر )کا مقام حاصل
ہے۔البالغةکے معنی ہیں: پختہ، مضبوط اور کامل۔ روح المعانی میں ہے: البالغة
أی التی بَلَغَتْ غایةَ المتانةِ والقوةِ علی الثبات۔ پس حجۃ اللہ البالغہ
کے معنی ہیں: کامل برہان الٰہی ۔ شاہ صاحب رحمہ اللہ نے یہ نام سورة
الانعام کی آیت 149 سے اخذ فرمایا ہے۔ اس آیت میں تکلیف شرعی کے راز،
مجازات کی حکمت اور احکام شرعیہ کے مبنی برحکمت ومصالح ہونے کی طرف اشارہ
ہے۔ جس کی تفصیل آگے وجہ تسمیہ کے عنوان کے تحت آرہی ہے۔ شاہ صاحب رحمہ
اللہ کی اس کتاب کا موضوع بھی یہی مضامین ہیں۔ اس لئے آپ نے اس کتاب کا نام
حجۃ اللہ البالغہ( کامل برہان الٰہی) تجویز کیا ہے۔ یہ کتاب بجا طور پر آپ
کی تصنیفات میں شاہ کار کی حیثیت رکھتی ہے۔ سید محترم، حضرت اقدس مولانا
ابو الحسن علی میاں صاحب ندوی رحمہ اللہ اس کتاب کے متعلق تحریر فرماتے ہیں
کہ: '' شاہ صاحب کی یہ مایۂ ناز تصنیف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان
معجزات میں سے ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمکی وفات کے بعد، آپ کے
امتیوں کے ہاتھ پر ظاہر ہوئے، اور جن سے اپنے وقت میں رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کا اعجاز نمایاں اور اللہ کی حجت تمام ہوئی''
شاہ صاحب رحمہ اللہ کو ادراک ہوگیا تھا، اور کتاب کے مقدمہ میں اس کی طرف
اشارہ بھی ہے کہ آگے عقلیت پسندی کا دور شروع ہونے والا ہے، جس میں احکام
شریعت کے متعلق اوہام وشکوک کی گرم بازاری ہوگی۔ اسی خطرہ کا سدّ باب کرنے
کے لئے آپ نے یہ بے نظیر کتاب لکھی ہے۔ اس میں آپ نے تعلیمات اسلام کو
مطابق فطرت اور احکام دینی کو مبنی برحکمت ثابت کیا ہے۔ ہر حکم الٰہی اور
امر شریعت کے اسرار ومصالح نہایت بلیغ اور مدلل انداز میں بیان فرمائے ہیں۔
جس سے ایک طرف تو متشککین اور مترددین کے شکوک وشبہات کا ازالہ ہوجاتا ہے
اور دوسری طرف معترضین کے اسلام پر معاندانہ اعتراضات کا منہ توڑ جواب مل
جاتا ہے۔
اس سلسلہ میں حضرت اقدس مولانا محمد منظور نعمانی رحمہ اللہ کی اپنی سرگذشت
ملاحظہ فرمائیں:
'' میں اپنی زندگی میں کسی بشر کی کتاب سے اتنا مستفید نہیں ہوا، جس قدر کہ
اس کتاب سے خدا نے مجھے فائدہ پہنچایا۔ میں نے اسلام کو ایک مکمل اور مرتبط
الاجزاء نظام حیات کی حیثیت سے اس کتاب ہی سے جانا ہے۔ دین مقدس کی ایسی
بہت سی باتیں جن کوپہلے میں صرف تقلیداً مانتا تھا، اس جلیل القدر کتاب کے
مطالعہ کے بعد الحمد للہ میں ان پر تحقیقاً اور علی وجہ البصیرت یقین رکھتا
ہوں ''
غیر مقلد عالم جناب نواب صدیق حسن خاں صاحب''اتحاف النبلاء''میں تحریر
فرماتے ہیں:
''ایں کتاب اگرچہ در علم ِ حدیث نیست ، اَمّا شرح ِ احادیثِ بسیار دراں
کردہ۔وحِکَم واسرار آں بیان نمودہ۔تا آنکہ در فن خودغیرمسبوق علیہ واقع
شدہ۔ ومثل آں دریں دوازدہ صد سال ہجری، ہیچ یکے را از علمائے عرب وعجم،
تصنیفے موجود نیست''
اس فارسی عبارت کا ترجمہ یہ ہے:
'' یہ کتاب اگرچہ فن حدیث میں نہیں ہے، مگر اس میں بہت سی احادیث کی شرح کی
ہے۔ اور ان کی حکمتیں اور ان کے راز بیان کئے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ کتاب اپنے
فن میں بے نظیر واقع ہوئی ہے۔ اور اس جیسی کتاب ان اسلامی بارہ صدیوں میں،
عرب وعجم کے کسی عالم کی موجود نہیں ہے''
حجۃ اللہ البالغہ کے اردو تراجم:
اس کتاب کے درج ذیل اردو تراجم ہوچکے ہیں:
1 : نعمۃاللّٰہ السابغۃ: یہ ترجمہ غالباً سب سے پہلاترجمہ ہے۔مترجم حضرت
مولانا ابو محمد عبد الحق صاحب حقانی رحمہ اللہ(١٢٦٧ـ١٣٣٥ھ) صاحب تفسیر
حقانی ہیں۔١٣٠٢ھ میں مولانا نے یہ ترجمہ بہ تحریک جناب مولانامحمد فضل
الرحمن صاحب رئیس اعظم عظیم آباد(پٹنہ) کیا ہے۔ یہ ترجمہ دو جلدوں میں متن
کے ساتھ مطبوعہ ہے اور آج کل بازار میں یہی ترجمہ دستیاب ہے۔
2 : آیات اللّٰہ الکاملة: از جناب مولانا خلیل احمد بن مولانا سراج احمد
اسرائیلی سنبھلی رحمہ اللہ (متوفی ١٣٤٠ھ) یہ ترجمہ متن کے بغیر ٦٢٠ صفحات
میں ١٣١٥ھ مطابق ١٨٩٧ء میں لاہور سے طبع ہوا ہے۔
3 : شموس اللّٰہ البازغۃ: از حضرت مولانا عبد الحق صاحب ہزاروی رحمہ اللہ۔
یہ ترجمہ ١٣٥١ھ میں شیخ الٰہی بخش نے لاہور سے شائع کیاہے۔ یہ ترجمہ سرتاسر
آیات اللہ الکاملہ کی نقل ہے۔ صرف شروع کے چند ابواب کا ترجمہ بدلدیاہے۔(یہ
تینوں ترجمے میرے پاس ہیں)
4 : ان کے علاوہ ایک اور ترجمہ جناب محمد بشیر صاحب نے کیا ہے اور کچھ
تشریحی فوائد بھی شامل کئے ہیں۔ لیکن یہ ترجمہ نامکمل ہے اور مبحث دوم پر
ختم ہوجاتا ہے۔ یہ چھوٹے سائز پر بغیر متن کے شائع ہوا ہے۔ میں نے یہ ترجمہ
نہیں دیکھا۔ جناب مولانا معراج محمد بارق صاحب نے حجۃاللہ مترجمہ مولانا
حقانی کے مقدمہ میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔
5 : لاہور سے مولانا عبد الرحیم صاحب کا ترجمہ بھی بغیر عربی متن کے شائع
ہوا ہے۔ میں نے یہ ترجمہ بھی نہیں دیکھا۔ مولانا بارق صاحب نے اس کا تذکرہ
کیا ہے۔
6 : برہان الٰہی: از مولانا ابو العلاء محمد اسماعیل صاحب گودھروی (
گجراتی) یہ غالباً آخری ترجمہ ہے۔ مترجم غیر مقلد عالم ہیں آپ نے یہ ترجمہ
بہ تحریک مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا عبید اللہ سندھی اور مولانا
محمد منظور نعمانی رحمہم اللہ کیا ہے۔ اور شیخ غلام علی نے اس کو لاہور سے
شائع کیا ہے۔ پھر دوبارہ یہ شائع نہیں ہوا۔ نہایت نایاب ہے۔ میرے پاس یہ
ترجمہ ہے اور میں نے اس سے استفادہ کیا ہے۔
اس آخری مترجم نے سابقہ تراجم پر درج ذیل تبصرہ کیا ہے:
'' اس کتاب کے اردو تراجم پہلے بھی ہوچکے ہیں۔ لیکن وہ ترجمے کیا ہیں؟ ایک
چیستان ہیں۔ جس میں مغلق مقامات کو اور بھی زیادہ مغلق کردیا گیا ہے۔ اکثر
الفاظ ِ مفردہ کا ترجمہ الفاظ مفردہ سے کیا گیا ہے۔ جس سے مطلب کی وضاحت
تودرکنار،الجھاؤ اور بڑھ گیا ہے۔ ایسے مقامات اور الفاظ کو جملوں اور سطروں
سے واضح کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تحت َ اللفظ یا تحت َ اللفظ جیسا ترجمہ
اس کتاب کی شان کے خلاف ہے۔ بلکہ کتاب کے مطالب کو بگاڑ نا ہے''( برہان
الٰہی صفحہ ٢٣)
مگر یہ آخری ترجمہ بھی سابقہ تراجم سے کچھ بہتر نہیں ۔ مترجم نے بیشک جگہ
جگہ شاہ صاحب کے مختصر الفاظ کو جملوں اور سطروں سے واضح کیا ہے، مگر وہ ''
من چہ سرایم وطنبورئہ من چہ سراید'' کا مصداق ہے۔
علاوہ ازیں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ نے
المصالح العقلیة للأحکام النقلیة ( جو اب'' احکام اسلام: عقل کی روشنی میں
'' کے نام سے شائع ہوتی ہے) مطلق تراجم کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ:
'' اس مبحث میں ( یعنی مصالح عقلیہ کے بیان میں) ہمارے زمانہ سے کسی قدر
پہلے زمانہ میں حضرت مولانا شاہ ولی اللہ صاحب حجة اللہ البالغہ لکھ چکے
ہیں ۔ سنا ہے کہ ترجمہ اس کا بھی ہوچکا ہے۔ مگر عوام کو اس کا مطالعہ مناسب
نہیں کہ (اصل کتاب) غامض زیادہ ہے( یعنی صرف ترجمہ سے کتاب سمجھ میں نہیں
آسکتی )( دردیباچہ مصالح عقلیہ)
شرح کی ضرورت:
غرض حجۃ اللہ البالغہ کے لئے شرح کی ضرورت تھی۔ اور ہر کوئی اس ضرورت کو
محسوس بھی کرتا تھا۔ مگر چند دشواریاں ایسی تھیں، جن کی وجہ سے آج تک کسی
نے یہ فریضہ انجام نہیں دیا۔ وہ دشواریاں یہ ہیں:
١: مصنف کا البیلا انداز نگارش: شاہ صاحب قدس سرہ عرش پر بیٹھ کر باتیں
کرتے ہیں۔ شرح میں ان مضامین کو جب تک فرش پر نہ لایا جائے، بات نہیں بن
سکتی۔ اور یہ کام کتنا دشوار ہے اس کا اندازہ ہر کوئی کرسکتا ہے۔
٢: عبارت میں غایت درجہ ایجاز:شاہ صاحب نغز نویس ہیں۔ایک کلمہ بھی زائد از
حاجت نہیں لاتے۔ بلکہ بعض جگہ تو عبارت میں بخیلی کار فرمانظر آتی ہے۔یہ تو
خیر ہوئی کہ شاہ صاحب مترادفات استعمال کرنے کے عادی ہیں۔ مفرد کی مفرد سے
، جملہ ناقصہ کی جملہ ناقصہ سے اور جملہ تامہ کی جملہ تامہ سے تفسیر کرتے
ہیں، جس سے دال دَلیا ہوجاتا ہے۔ اگر شاہ صاحب کی نگارش میں یہ بات نہ ہوتی
تو بہت سے مضامین لوگوں کی گرفت سے باہر رہ جاتے ۔
٣: مخصوص اصطلاحات :شاہ صاحب کی اپنی کچھ مخصوص اصطلاحات ہیں، جب تک ان کو
کما حقُّہ نہ سمجھ لیا جائے مضمون ذہن نشین نہیں ہوسکتا۔ اور نہ شاہ صاحب
نے اپنی اصطلاحات کی کسی جگہ تشریح کی ہے، نہ کسی اور نے یہ کام بخوبی
انجام دیا ہے۔
٤: فکری بلندپروازی: شاہ صاحب کی فکری بلند پروازی کا یہ حال ہے کہ بعض جگہ
تو ان کے پیچھے چلنا بھی دشوار ہوجاتا ہے اور آپ ہی کی لکھی ہوئی کہاوت آپ
پر صادق آتی ہے کہ:'' جناب تو شیر پر سوار ہیں، آپ کے پیچھے سواری کرنے کی
ہمت کون کرسکتا ہے!''
٥: مضامین کی جدّت :شاہ صاحب کی ہر بات انوکھی ہوتی ہے۔ ہر مصنف کی باتوں
کو حل کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ مصادر ومراجع مل جاتے ہیں، مگر شاہ صاحب کی
کوئی بات کسی کتاب میں نہیں ملتی، پھر یہ مضامین کیسے حل کئے جائیں!
غرض مذکورہ بالا وجوہ سے اور ان کے علاوہ دیگر وجوہ سے یہ قرض باقی چلا
آرہا تھا کہ ایک بڑھیا اپنا مٹھی بھر کاتا ہوا سوت لے کر بازار مصر میں
یوسف کی خریدار بن کرآگئی ۔ دیکھئے اس کا نصیب کیسا ہے!
میں نے یہ کتاب حکیم الاسلام حضرت اقدس مولانا محمد طیب صاحب قاسمی قدس سرہ
(سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند) سے پڑھی ہے۔ حضرت کو شاہ صاحب کے علوم پر
کمال ِ قدرت حاصل تھی۔مگر افسوس کہ درس میں چند ابواب ہی شامل تھے۔ کاش
حضرت سے پوری کتاب یا کتاب کا معتد بہ حصہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوتی۔
پھر جب میں نے العون الکبیر فی حلِّ الفوز الکبیر لکھی تو اس میں یہ التزام
کیا تھا کہ شاہ صاحب کے کلام کی خود شاہ صاحب کے کلام سے شرح کی جائے۔
چنانچہ راندیر کے قیام کے زمانہ میں اس مقصد سے پہلی مرتبہ پوری کتاب کا
مطالعہ کیا ۔ مگر اس وقت کتاب کماحقہ حل نہیں ہوئی تھی۔
پھر جب ١٤٠٨ھ میں دارالعلوم دیوبند میں اس کتاب کا درس مجھ سے متعلق کیا
گیا تو میں نے از سر نو پوری کتاب کا مطالعہ کیا۔ اورمطبوعہ صدیقی سے پوری
کتاب کا مقابلہ بھی کیا۔ اس مقابلہ سے مجھے بہت فائدہ ہوا۔ کتاب کا بڑا حصہ
بحمداللہ حل ہوگیا اور یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ کتاب میں کچھ ایسی طباعتی
اغلاط ہیں جن کی تصحیح کے بغیر کتاب کماحقہ حل نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ اسی وقت
سے مجھے کتاب کے مخطوطوں کی تلاش رہی۔ بالآخر ''جوئندہ یا بندہ ''مقصد میں
کامیابی ہوئی۔
میری خواہش یہ بھی تھی کہ شرح لکھنے سے پہلے کم از کم ایک بار پوری کتاب
پڑھالوں ۔ کیونکہ پڑھانے سے مضامین کی تسہیل کا طریقہ ہاتھ آجاتا ہے۔ مگر
یہ بات مقدر نہ تھی۔ ایک سال دارالعلوم دیوبند کے استاذ، برادر عزیز جناب
مولانا مفتی محمد امین صاحب پالن پوری زید شرفہ اور مرحوم نور چشم مولوی
رشید احمد رحمہ اللہ( متوفی ١٤١٥ھ) نے اسی مقصد سے حجۃ اللہ البالغہ کے سبق
میں شرکت بھی کی تاکہ وہ تقریرضبط کریں ۔ عصر کے بعد بھی قسم دوم سے سبق
شروع کیا گیا۔ مگر طلبہ نے اس وقت کے ناظم تعلیمات حضرت مولانا ریاست علی
صاحب بجنوری زید مجدہ سے شکایت کی کہ درس املاء کرانے سے کتاب سمجھ میں
نہیں آتی۔ کلام سننے میں تسلسل باقی نہیں رہتا۔ ذہن بات سے ہٹ جاتا ہے،
چنانچہ وہ سلسلہ موقوف کرنا پڑا۔ اور عصر کے بعد کا سبق بھی چند روز کے بعد
بند ہوگیا۔
پھر اتفاق یہ ہوا کہ ١٤١٨ھ میں طلبہ نے پورے سال کی تقریر ٹیپ کی اور صاف
کرکے مجھے دی تاکہ میں اس کو مرتب کروں۔ چنانچہ ١٤١٩ھ میں جب سبق شروع ہوا
تو میں نے اس تقریر کو مرتب کرنا شروع کیا۔ مگر وہ تقریر چوتھے مبحث پر ختم
ہوگئی، کیونکہ درس میں کتاب اتنی ہی پڑھائی جاتی تھی۔ اس طرح مجبوراً کام
آگے بڑھاناپڑا۔ اور بحمد اللہ دو سال کے عرصہ میں کتاب کے ایک معتد بہ حصہ
پر کام ہوگیا۔ اس میں سے یہ جلد اول قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔
اور دوسری جلد کی کتابت چل رہی ہے۔ وہ بھی ان شاء اللہ جلد پیش کی جائے
گی۔(اب یہ شرح پانچ جلدوں میں مکمل ہوگئی ہے۔مکتبہ حجاز)
شرح کا انداز
شرح میں انداز یہ اختیار کیا گیا ہے کہ پہلے ایک عنوان قائم کرکے مسئلہ کی
تقریر کی گئی ہے، جس طرح سبق میں کی جاتی ہے اور بات واضح کرنے کے لئے
مثالوں وغیرہ کا اضافہ بھی کیا گیا ہے اورکہیں کتاب کی ترتیب بھی بدل گئی
ہے۔ غرض تقریر میں ہر بات شاہ صاحب کی نہیں ہے، اس میں میں نے اپنی باتیں
بھی ملائی ہیں۔ البتہ مدعی شاہ صاحب ہی کا ہے۔ اور یہ طریقہ اس لئے اختیار
کیا گیا ہے کہ کتاب حل ہوجائے۔
پھر متعلقہ عربی عبارت ضروری اعراب کے ساتھ دی گئی ہے۔ پھر درسی اندازکا
ترجمہ کیا گیاہے۔تاکہ طلبہ ترجمہ کو عبارت سے ملاکر کتاب حل کرسکیں۔ پھر
لغات کے عنوان سے مشکل الفاظ کے معانی اور ضروری ترکیب وغیرہ دی گئی ہے۔
اور کسی بات کی تشریح ضروری معلوم ہوئی تو وہ بھی کی گئی ہے۔ غرض متن اور
ترجمہ میں میں نے کوئی بات اپنی طرف سے نہیں ملائی ۔ اور متن کو لکیروں کے
چوکٹھے میں رکھاگیا ہے۔ بعض جگہ میں نے اصل کتاب میں عناوین بڑھائے ہیں۔ ان
کو چوکٹھے سے باہر اس طرح ] [کی عمودی قوسین میں رکھا گیا ہے۔ اورمتن میں
جہاں کہیں نمبرڈالے گئے ہیں ان کو بھی عمودی قوسین میں رکھا ہے۔
شرح کے مآخذ
کتاب حل کرنے کے لئے میرے پاس کوئی ما ٔخذ نہیں تھا۔ کتاب کے چار تراجم
ضرور تھے مگر وہ بوقت حاجت غائب ہوجاتے تھے یا الجھاکر رکھ دیتے تھے۔ البتہ
اچانک ایک امداد غیبی ہوئی،پاکستان کے شہر چشتیان کے جناب مولانا عبد
القدیر صاحب تشریف لائے۔ میں نے شرح لکھنے کا تذکرہ کیا، تو انھوں نے بتایا
کہ ان کے یہاں حضرت استاذ الاستاذ مولانا عبید اللہ سندھی رحمہ اللہ کی ایک
تقریر ہے جو قلمی ہے۔ میں نے اس کی خواہش ظاہر کی، اللہ تعالیٰ جزائے خیر
عطا فرمائیں مولانا موصوف کو کہ انھوں نے واپس لوٹتے ہی اس تقریر کی دو عدد
فوٹو کاپیاں بھیج دیں۔ اس تقریر سے کتاب حل کرنے میں بڑی مدد ملی۔
مولانا سندھی رحمہ اللہ نے ایک بار مکہ مکرمہ میں حجۃ اللہ پڑھائی
تھی۔تلامذہ نے ان کی تقریر منضبط کرلی تھی۔ یہ تقریر عربی میں قید تحریر
میں لائی گئی ہے اور کتاب کے تین ربع تک ہے۔ آخر کا ایک ربع اس میں شامل
نہیں ہے۔ اس تقریر میں عام طور پر مفردات کی تشریح ، ضمائر کے مراجع کی
تعیین اور عبارت کی تصحیح اورکہیں کہیں افادات ہیں۔ کسی مسئلہ کو یا عبارت
کو نہیں سمجھایاہے۔ مگر بہرحال اس سے بڑی مدد ملی۔ اللہ تعالیٰ ان تلامذہ
کوجنت کے بلند درجات عطا فرمائیں۔ انھوں نے ایک قیمتی ذخیرہ محفوظ کردیا۔
میں نے شرح میں کہیں کہیں وہ افادات نقل بھی کئے ہیں ۔ اور آخر میں ( سندی
) لکھا ہے۔ غرض کتاب حل کرنے کے لئے میرے پاس یہی ایک ما ٔخذ تھا ۔ دوسری
کوئی چیز دستیاب نہیں تھی۔ اس لئے شرح میں اگر کوئی لغزش ہوگئی ہے تو اس کے
لئے وجہ جواز ہے ۔
احادیث کی تخریج
شرح میں کتاب کی احادیث کی تخریج کا معروف طریقہ اختیار نہیں کیا گیا۔
کیونکہ اس سے کتاب بہت طویل ہوجاتی اور قاری مقصد سے دور جا پڑتا۔ میں نے
تخریج احادیث کا یہ طریقہ اختیار کیا ہے:
١: کتب حدیث کی مراجعت کرکے حدیث کے بارے میں اطمینان کرلیاہے۔ اورعام طور
پر صرف مشکوٰة کا حوالہ دیدیا ہے۔ اوراگر حدیث مشکوٰة میں نہیں ملی تو اصل
مراجع کا حوالہ دیا ہے۔
٢:اگر کوئی حدیث ضعیف ہے تو اس کی اطلاع دیدی ہے، مزیدوضاحت نہیں کی۔
٣ : اور اگر کوئی حدیث نہایت ضعیف، ساقط کے درجہ کی ہے تو اس کی پوری وضاحت
کی ہے، مثلاً اسی جلد (مبحث خامس باب سوم ) میں یہ حدیث آئی ہے کہ دادی
حواء رضی اللہ عنہا نے شیطان کے اغواء سے اپنے بیٹے کانام عبد الحارث رکھا
تھا۔ یہ حدیث ترمذی کی ہے، مگر قطعاً باطل ہے، چنانچہ اس پر مفصل کلام کیا
ہے۔
٤: اوراگر کوئی حدیث تلاش بسیار کے باوجود نہیں ملی تو بس یہ لکھ دیا ہے کہ
یہ حدیث مجھے نہیں ملی جیسے جلد اول مبحث پنجم، باب ١٣ کے آخر میں یہ روایت
آئی ہے کہ مؤمن کا حصہ عذاب میں سے دنیا کے مِحَن ہیں۔ یہ حدیث مجھے نہیں
ملی۔
٥ : علامہ کوثری مصری رحمہ اللہ نے حُسن التقاضی فی سیرة الامام أبی یوسف
القاضی کے آخر میں حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ پر یہ تنقید کی ہے کہ آپ دربارۂ
احکام وفروع صرف متون ِ احادیث کو پیش نظر رکھتے ہیں ۔ ان کی اسانید میں
نظر نہیں کرتے۔ حالانکہ اہل علم کسی وقت بھی اسانید حدیث سے قطع نظر نہیں
کرسکے، اور نہ کرسکتے ہیں۔ حتی کہ صحیحین کی اسانید پر بھی نظر ضروری ہے،
چہ جائیکہ دوسری کتب صحاح وکتب سنن وغیرہ۔ اور جب دربارۂ احتجاج فی الفروع
اسانید میں نظر ضروری ہے تو باب اعتقاد میں توبدرجۂ اولی اس کی ضرورت
واہمیت ہے۔(کوثری کی بات پوری ہوئی)
اس کی مثالیں اس جلد میں بھی موجود ہیں۔ روح اعظم کی روایت جس کا تذکرہ
مبحث اول کے باب سوم میں آیا ہے اورعبدالحارث نام رکھنے کی روایت بے اصل
ہے۔ مگر شاہ صاحب قدس سرہ نے ان کومسلمہ حیثیت سے پیش کیا ہے، بلکہ ان پر
استدلال کی بنیاد رکھی ہے۔
قصہ مختصر: کتاب حل کرنے میں میں نے اپنی والی پوری کوشش صرف کرڈالی ہے،
کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ رہی یہ بات کہ میں اپنے مقصد میں کس حد تک
کامیاب ہواہوں، تواس کا فیصلہ قارئین کرام کریں گے۔ میں توبس یہ کہہ کر
خاموش ہوجاتا ہوں کہ:
سُپردم بتو مایۂ خویش را ٭ تودانی حسابِ کم وبیش را |