عائشہ قذافی کا اسرائیل کی حکومت سے سیاسی پناہ کی درخواست؟

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

امت مسلمہ پر دور غلامی کی باقیات میں سے بہت مضبوط زنجیریں خاندانی وبادشاہی نظام حکومت کی صورت میں آج بھی باقی ہیں۔استعمارکے آلہ کار یہ خاندان، اکیسویں صدی کی دہلیزپرچکاچوند روشنیوں کے اس دور میں بھی اپنی مسلمان رعایاپر جبرواستبدادکے گھٹاٹوپ اندھیروں کو باقی رکھے ہوئے ہیں۔اس خاندانی جبروت نے امت کی سیاسی آزادیوں اور عقل و دانش کے دروازوں پراتنے بڑے بڑے قفل لگائے رکھے ہیں کہ تحریروتقریر کی آزادیاں ان ریاستوں میں ایک وہم خوش گمان سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔جوکوئی جرات و ہمت کر کے سراٹھانے کی جسارت کرتا ہے ،خاندانی نظام کا یہ آسیب اس کو اس طرح چاٹ جاتاہے کہ اس کانام و نشان تک نہیں ملتا۔لیکن اب خاندانی حکمرانوں اور شخصی اقتدارکی یہ بلندوبالافصیلیں بڑی سرعت سے شکست و ریخت کا شکارہیں،اس کاتازہ ترین شاہکارلیبیاکی سرزمین ہے جہاں کے قومی و ملی شعور نے دہائیوں سے گڑھے ہوئے ایک شخصی اقتدارکو جڑوں سے اکھاڑ پھینکاہے،قومیت و نسلیت پرستی سے عبارت وہ طاغوت علم و آگہی کے بڑھتے ہوئے طوفان کے سامنے ریت کی ناپختہ دیوار محض ثابت ہوااور نوجوانوں کے ناقابل شکست و ناقابل تسخیر قوت ارادی نے اسے اس طرح چلتاکیاکہ جیسے اس کا وجود ہی نہ تھا۔وقت کے بدلتے دیر نہیں لگتی ماضی کے سیاہ وسفید کے مالک اس قصہ پارینہ کی نسلوں پرآج وہی زمین اپنی وسعت سمیت تنگ کردی گئی ہے ،فاعتبرویااولی الابصار(اے نظر والو عبرت حاصل کرلو)۔

عائشہ قذافی،لیباکے سابق حکمران کی بیٹی ہیں اور اپنی نسوانی وذاتی حیثیت سے ہمارے لیے باعث عزت و تکریم ہیں لیکن ان کی سیاسی حیثیت ان کے کردار سے متعین ہو گی اور مورخ کاقلم اس حیثیت کے تعین میں کسی رو رعائت کا روادارنہیں ہوا کرتا۔عائشہ قذافی نے جو اپنی مملکت کی حیات نو کے بعد وہاں سے فرارہو کر الجیریامیں پناہ گزین ہیں29دسمبر2011کواسرائیلی نیوز ایجنسی WALLAایک خفیہ ادارے کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے اسرائیل جیسی اسلام دشمن اور مسلمان کش ریاست سے سیاسی پناہ کی درخواست کی ہے اور ایک بیان میں انہوں نے کہاہے کہ ممکن ہے الجیریاکے میزبان انہیں لیبیاکے حوالے کر دیں اور انہوں نے ”اسرائیل“کواپنے اور اپنے خاندان کے لیے بہترین جائے پناہ قرار دیاہے۔لاس اینجلس ٹائمز(Los Angeles Times)کے مطابق عائشہ قذافی نے جس وکیل (Nick Kaufman)کی خدمات حاصل کی ہیں وہ بھی اسرائیلی یہودی ہے اور اس سے پہلے وہ اسرائیلی وزارت انصاف کا سینئرافسر بھی رہ چکا ہے۔ انٹرنیشنل بزنس ٹائمزنے ان حقائق کی بنیادپر دعویٰ کیاہے کہ معمرقذافی کایہودی المذہب ہونا خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ 2009میں اسرائیلی ٹیلی ویژن نے دو یہودی خواتین کا انٹرویونشر کیاتھا جس میں انہوں نے دعویٰ کیاتھا کہ معمرقذافی یہودی تھے ان میں سے ایک خاتون ”گوئٹابراؤن“نے تو یہاں تک کہاکہ معمرقذافی کی والدہ اسکی خالہ تھیں۔اگریہ اخباری اطلاعات عدالت میں درجہ ثبوت تک پہنچ جاتی ہیں تو اسرائیلی قانون واپسی (Law of Return)کے مطابق نہ صرف یہ کہ عائشہ قذافی کی سیاسی پناہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں گی بلکہ وہ اسرائیلی شہری کی حیثیت سے وہاں رہائش پزیر بھی ہو سکیں گی۔

لیبیاکے سابق حکمران خاندان کے بارے میں درج بالااطلاعات کی روشنی میں یہ اندازہ لگانا قطعاََ بھی مشکل نہیں کہ یہ خاندان اور اس قبیل کے دیگر خاندان مسلمانوں سے،امت مسلمہ سے اور دین اسلام سے کس حد تک وفا شعار ہیں۔انسانی نفسیات کی یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مشکل وقت میں یاد آنے والوں سے ہی اصل قلبی و روحانی لگاؤ ہواکرتاہے۔لیبیاکے سابق حکمران کے یہودیوں سے تعلقات کی یہ خفیہ کہانیاں اور یہودی خواتین سے قریبی تعلقات کے بعد اس حکمران نے امت سے اور دین سے کس حد تک انصاف کیا ؟؟ یہ نوشتہ دیوار ہے۔کم و بیش 42سالوں تک لیبیا کی سرزمین اپنے پاؤں سے روندتے رہنے کے باوجوداور دنیاکی بہترین دولت سرزمین لیبیاکی تہوں سے برآمد ہونے کے باوجود یہ زورآور حکمران اپنی قوم کو غربت و جہالت کے اندھیروں سے نہ نکال سکااور تیسری نسل کے نوجوان تنگ آمد بجنگ آمد کے تحت مجبورہوئے کہ سڑکوں پر نکل آئے اور پھرآسمان نے وہ دن بھی دیکھے کہ اسرائیل اور نیٹو کے سامنے ناک رگڑنے والی فوجوں نے اپنے ہی نہتے شہریوں پر ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں سے اندھادھندفائرنگ کی اور اپنے عوام کو فتح کرنے کی کوشش میں سابق حکمران مفتوح ومقتول ہوا۔

عائشہ قذافی 1976میں پیداہوئیں،یہ معمر قذافی کی دوسری بیوی سے تھیں اوراپنے والد کی پانچویں اولاد ہیں۔تعلیم اور پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں اوروالد بزرگوار کی فیوض و برکات سے اپنی ملک کی فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فائز رہیں کیونکہ اتنا بڑا عہدہ عموماََ کسی کو نہیں دیاجاتا تھااور وہ بھی فوج جیسے ادارے میں لیکن چونکہ ”باپ کاراج“تھااس لیے یہ مراعات بھی اس خاتون کے حصے میں آئیں۔یورپی طاغوت کی آشیرباد کے طور پراپنے ہی ملک میں اقوام متحدہ کی نمائندہ(UN Goodwill Ambassador,)بھی رہیں،اس حیثیت سے انہوں نے ایڈزکے خلاف اور عورتوں کے حقوق کے لیے بہت سے منصوبوں پر عملدرآمد کرایا۔یورپی سیکولر تہذیب ان منصوبوں کی آڑ میں جوارادے رکھتی ہے ان کی حقیقت آج طشت ازبام ہوچکی ہے۔”بھلے وقتوں“میں اپنے ملک کی سفیرکے طور پر بھی کام کرتی رہیں اور2000ءمیں جب عراق پر پابندیاں لگائی گئیں تواپنے ملک کی حکومت کے 69سینئر افسران کے ساتھ عراق کے شہر بغداد میں گئیں اور اس وقت کے عراقی آمر صدام حسین کے ساتھ ملاقات بھی کی۔عائشہ قذافی وکلاءکی اس ٹیم کا بھی حصہ رہیں جو صدام حسین کے لیے قانونی جنگ لڑ رہاتھا۔یورپی یونین کے مختلف پروگرامز میں بھی اپنے ملک کی نمائندگی کرتی رہیں۔عربستان کے اخباروں نے اس خاتون کو جرمنی کی ایک ماڈل گرل Claudia Schifferکانام دے رکھا ہے کیونکہ بنت قذافی اپنے بالوں کے انداز میں اس ماڈل کی نقالی کرتی ہیں اوراسرائیل سے سیاسی پناہ کی درخواست کی اس خبر کے بعد متعدد اخباری ویب سائٹس نے بنت قذافی کی جو تصاویر آویزاں کی ہیں وہ اسی بالوں کے انداز کی عکاسی کرتی ہیں اور عرب پریس کے مطابق ”عائشہ قذافی“شمالی افریقہ کی کلوڈیاشیفرہیں،اس نام کے پس منظرسے مزید پردہ اٹھانے میں ہمارا قلم حیاکرتاہے۔

عائشہ قذافی کے اس سیاسی پس منظر کے بعداب ان کا اسرائیل سے سیاسی پناہ طلب کرناان کا ذاتی فعل نہیں رہتاوہ اپنے ملک کے سابق حکمران کی محض بیٹی نہیں رہتیں بلکہ لیبیا کے سابق حکمران کی اور اس کے طرز حکمرانی کی ایک نمائندہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔کتنی حیرت کی بات ہے کہ ایک خاندان 42سالوں تک ایک قوم کی خدمت کرتارہے اور اس کے بعد وہ قوم اس سے باغی ہو جائے اور اس حکمران خاندان کا وجود بھی برداشت نہ کرے؟؟؟آخر اس دنیامیں کتنی ہی ریاستیں ہیں جہاں کے حکمران ہر چار پانچ سالوں کے بعد تبدیل ہو جاتے ہیں اور پھر اپنی ہی قوم کے درمیان رہتے ہیں اور بہت بڑے بڑے اعزازات بھی حاصل کرتے ہیں،وہ قومیں انہیں سرآنکھوں پر جگہ دیتی ہیں،ریٹائرہوجانے کے باوجودان سابق حکمرانوں کوقومی اہمیت بڑے بڑے نازک اور حساس مناصب دیے جاتے ہیںجبکہ اس دنیاکا نقشہ ہی مکمل طور پر مختلف ہے۔وجہ صرف یہی ہے کہ دوسری دنیاؤں کے حکمران نہ صرف یہ کہ منتخب شدہ ہوتے ہیںبلکہ اپنے ملک و قوم و مذہب کا مفاد عزیزتر رکھتے ہیں اور اپنے دور اقتدارمیں اپنی قوم پر جملہ احسانات روا رکھتے ہیں اور جب وہ اپنی قوم کی قدر کرتے ہیں توقوم ان سے بڑھ کر ان کی منزلت کرتی ہیں جبکہ مسلمانوں کے استبدادی خاندان اورشخصی حکمران محض اپنی نسل و قوت کی بنیاد پر مسند اقتدارپر براجمان رہتے ہیں اور ہمیشہ ان قوتوں کے خیرخواہ رہتے ہیں جوان کے اس ناجائزاقتدارکی طوالت کاباعث بننے میں ممدومعاون ثابت ہوں اور ظاہر ہے وہ ہمیشہ سے خارجی قوتیں ہی ہوتی ہیں جو ان ان حکمرانوں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں اور ان کو اپنی ہی قوم ،ملک اور مذہب کے خلاف استعمال کرتی ہیںاور اس طرح امت مسلمہ میں اول روز سے منافقین و غداران کا ایک طبقہ پرورش پاتارہتاہے۔

اب وہ وقت آن پہنچاہے کہ مشرق و مغرب سے ٹھنڈی ہواؤں کی آمد آمد ہے،وہ ریگزار افریقہ ہو یا نخلستان عرب ہوامت مسلمہ کے سپوت جاگ اٹھے ہیں،عائشہ قذافی ایک استعارہ ہے ڈوبتے ہوئے استبدادی جہاز کا جس کے چوہوں نے چھلانگیں لگانا شروع کردی ہیں اس کے بعد ایک طویل قطارہوگی مسلمانوں کے دورغلامی کے پروردہ غدارحکمرانوں کی جو اپنے آقاؤں کے دیس میں سدھارجائیں گے اور بلآخر امت کا سمندر اس ہچکولے کھاتے ہوئے سفینے کو اپنی گہرائیوں کی آغوش میں لے ڈوبے گااور یہ آسمان مشرق سے طلوع ہونے والے امت مسلمہ کے عروج کے سورج کابنظر عام مشاہدہ کرے گاتب مسلمانوں سمیت کل عالم انسانیت کو کو حقیقی فلاح و آسودگی و راحت نصیب ہوگی اور انسانیت کے نام سیکولر مغربی تہذیب نے انسانوں کے استحصال اورعورت کو ظلم و جبرو بے آبروئی کی چکی میں جوپیس رکھاہے اس سے نجات حاصل ہوگی کہ یہ زمین اﷲ تعالٰی کی ہے اوراس کے آخری نبی کا لایاہوانظام ہی اس زمین کی مستقبل کا صحیح حق دار ہے۔
Dr. Sajid Khakwani
About the Author: Dr. Sajid Khakwani Read More Articles by Dr. Sajid Khakwani: 470 Articles with 524300 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.