بمشکل بیس فیصد ہی باقی ہے

صدر زرداری نے جو تقریر اپنی اہلیہ بینظیر بھٹو کی چوتھی برسی پر کی اس پر بہت سے تبصرے ہورہے ہیں اور مزید کچھ عرصہ تک ہوتے رہیں گے۔ ان کی تقریر مختلف النوع عوامل کا ایک مکسچر تھی جس کی کافی ساری جہتیں ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ پیپلز پارٹی نے اپنے منشور پر اسی فیصد عمل کرلیا ہے اور حکومت جب اپنی میعاد پوری کررہی ہوگی تو باقی بیس فیصد پر بھی عمل ہوچکا ہوگا۔ جب کوئی مقرر کسی مجمع سے خطاب کررہا ہوتا ہے تو بعض اوقات اس کی زبان سلپ ہوجاتی ہے، اس کے ذہن میں کچھ اور ہوتا ہے اور اس کی زبان سے کچھ اور نکل جاتا ہے۔ عام گھریلو گفت و شنید میں بھی بعض اوقات ایسی باتیں منہ سے نکل جاتی ہیں جو ذہن میں نہیں ہوتیں لیکن جب بات زبان سے نکل جائے تو وہ واپس نہیں آسکتی اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شرمندگی کا باعث بن جاتی ہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی جو کچھ کہنا چاہتا ہے زبان اس کا ساتھ نہیں دیتی اور وہ دماغ میں پکنے والی کھچڑی کو سرعام کہہ ڈالتا ہے اور بعد میں دوسرے ہنستے ہیں اور بات کرنے والا عرصہ دراز تک شرمندہ رہتا ہے۔ اس کی ایک مثال وزیر داخلہ سندھ منظور وسان کی جانب سے میڈیا پر آصف زرداری کو ”چور چیرمین“ کہنے کی بھی ہے جب وہ روانی میں آصف زرداری کو ”چور چیرمین“ کہہ گئے تھے اور بعد میں میڈیا چینلز نے ان کا کہا بار بار دکھایا بھی اور سنایا بھی لیکن شائد منظور وسان اس طرح شرمندہ نہیں ہوئے جس طرح ان کو ہونا چاہئے تھا۔ بات ہورہی تھی صدر زرداری کی جانب سے پیپلز پارٹی کے منشور پر عمل کی۔ ان کے ذہن میں شائد کچھ اور تھا لیکن عین وقت پر انہوں نے ذہن میں خیالات کی یلغار کو روکا اور وہ کہہ گئے جو ہم سب نے دیکھا اور سنا۔

برسی کی تقریر میں صدرشائد یہ کہنا چاہتے تھے کہ جب ہمیں حکومت ملی تو اس کے بعد ہم نے اس ملک کے اداروں کا اسی فیصد بیڑہ غرق کرلیا ہے اور ہم اس طرح ہم اپنے منشور کے اسی فیصد حصے پر عمل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کے ذہن میں شائد یہ بھی ہو کہ ہم نے پی آئی اے کو اسی فیصد بلکہ اس سے بھی زیادہ تباہ کرکے رکھ دیا ہے، ہم نے ریلوے کا بیڑہ غرق کرنے میں بھی اسی فیصد کامیابی حاصل کی، ہم نے اسی فیصد سے بھی زیادہ مہنگائی کی شرح کو بڑھایا اور اس ملک کے اسی فیصد عوام ایسے ہیں جو سنجیدگی سے خودکشی کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور اگر یہی صورتحال باقی رہی تو وہ دن دور نہیں جب سو فیصد لوگ (عوام) خود کشی کے بارے میں سوچ رہے ہوں گے اور جلد ہی اسی فیصد اس پر عمل بھی شروع کردیں گے۔ ان کے ذہن میں یہ بھی ہوگا کہ اس وقت اس ملک میں نوجوانوں کی اسی فیصد اکثریت نوکری نہ ہونے کی وجہ سے مایوس ہے اور اگر انہیں وقت ملا تو وہ اس تعداد کو سو فیصد تک پہنچانے کی بھرپور صلاحتیں رکھتے ہیں۔ تقریر کے دوران وہ سوچ رہے ہوں گے کہ اس وقت ان کی حکومت اور کابینہ میں اسی فیصد وزراءکرپشن میں ملوث ہیں اور دن رات ”دیہاڑیاں“ لگا رہے ہیں، جلد ہی اسے بھی سو فیصد کرنے کا منصوبہ ہے۔ سٹیل مل بھی بیس فیصد ہی باقی ہے۔ سپریم کورٹ کے ابھی صرف اسی فیصد فیصلوں پر عمل نہیں ہورہا اور حکومت کی میعاد تک (انشاءاللہ) باقی بیس فیصد فیصلوں پر بھی مکمل عدم تعاون اور رد کرنے کا پروگرام ہے۔ ان کے ذہن میں یہ بھی ہوگا کہ ابھی بیس فیصد علاقے ایسے ہیں جہاں بجلی، گیس اور پانی کی مکمل لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی اور یہ حکومت جاتے جاتے وہاں پر بھی ایسے اندھیرے پھیلانے کی پوری کوشش کرے گی کہ لوگ برسوں نہیں بلکہ ان کی حکومت کو صدیوں یاد کریں گے۔ وہ شائد یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ باقی بیس فیصد پر بھی عمل کرکے ہم عوام کو خوشخبری دینا چاہتے ہیں کہ ان کو ایسے دور میں واپس بھیج دیں گے جہاں ان کا خرچہ ہی نہیں ہوا کرے گا، کوئی ٹیکس نہیں ہوگا البتہ سانس لینے پر صرف ایک ٹیکس ہوگا۔ ظاہر ہے جب تک ان کی حکومت اپنی میعاد پوری کرے گی اس وقت تک اس ملک میں نہ تو بجلی بچے گی، نہ گیس اور نہ پانی جو پہلے ہی نایاب ہورہا ہے، اس وقت نئی آنے والی حکومت کس چیز پر ٹیکس لگائے گی؟

صدر زرداری کی اس پالیسی میں شائد پنجاب حکومت اور مسلم لیگ (ن) بھی بہت حد تک ان کے ساتھ ہے تبھی وہ اس حکومت اور نظام کو بچانے کے لئے ہمیشہ اپنی بیساکھیاں فراہم کرتی رہی ہے اور انشاءاللہ کرتی رہے گی جب تک کہ انہیں انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی طرف سے اگلی باری کی یقین دہانی موجود ہے۔ وہ اس ملک اور اداروں کی تباہی میں زرداری کے ساتھ مکمل طور پر شامل ہیں، اگر اب بھی تحریک انصاف کی جانب سے عوامی رابطے شروع نہ کئے جاتے تو مسلم لیگ (ن) مزید ایک سال اور چپ سادھے اپنی باری کا انظار کررہی ہوتی، اب بھی اگر میاں صاحبان کچھ متحرک ہوئے ہیں اور ان کی گردن کا سریہ کچھ کم ہوا ہے تو اس وجہ سے کہ پنچھی ان کا دانہ چھوڑنے کی تیاریاں کررہے ہیں اور جاوید ہاشمی نے تو اس جماعت کی کمر ہی توڑ کر رکھ دی ہے۔ بہرحال عوام سے یہی استدعا ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ان دونوں پارٹیوں کو پورا وقت دے تاکہ کم از کم پیپلز پارٹی کے باقی بیس فیصد منشور پر عمل ہوسکے اور عوام خوشی خوشی خودکشیاں کرکے اپنے اللہ کے پاس جاسکے کیونکہ ملک بھی بمشکل باقی بیس فیصد ہی بچا ہے ۔ ان پارٹیوں کو تو یہ سوچنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ اگر عوام ہوں گے تو ان پر حکومت کریں گے اور مال بنائیں گے، خالی زمین پر حکومت کرنے کا خاک مزا آئے گا....؟
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207362 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.