سال نیا۔۔۔۔بحران پرانے۔۔۔

بالآخر سپریم کورٹ نے گزشتہ روز این آر او پر عمل درآمد کے لیے حکومت کو آخری وارننگ اور موقع دیا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں این آر او عمل درآمد کیس کے حوالے سے قائم کردہ بینچ نے واضع کیا کہ اگر این آر او پر عمل درآمد شروع نہ ہوا تو کوئی بھی شخص خواہ جتنے بڑے عہدے پر فائز ہو اس کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔عدالت نے دس جنوری کو آئندہ سماعت پر سیکریٹری قانون کو سوئس حکام کو خط لکھنے یا نہ لکھنے کے بارے میں عدالت کو آگاہ کرنے کی سختی سے ہدایت کی ہے۔حکومت کے لیے اب 17رکنی سپریم کورٹ کے فل بینچ کے این آر او کے خلاف متفقہ فیصلے پر عمل درآمد کے علاوہ کوئی اور آپشن موجود نہیں رہی۔ممتاز ماہر قانون اعتزاز احسن سمیت پارٹی کے اندر چند سنجیدہ افراد اس موقف کے حامی ہیں کہ عدالتی حکم کی پیروی کرتے ہوئے سوئس حکام کو خط لکھ دیا جانا چاہیے۔تاہم پیپلز پارٹی کا ایک حلقہ چار سال سے زائد عرصہ حکومت میں گزارنے کے بعد سیاسی شہادت کا رتبہ حاصل کرنے کی تجویز کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔10جنوری کو صورت حال یقینی طور پر کافی حد تک واضع ہو جائے گی ۔صدر آصف علی زرداری کو اس انجام تک پہنچانے میں” محترم “”پروفیسر“”ڈاکٹر“ ”علامہ“ بابر اعوان صاحب کا مرکزی کردار ہے۔میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ عدالت کا منتخب جمہوری حکومت سے لڑنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔یہ لمبی کہانی ہے جس پر تفصیلاًتحریر کروں گا۔چند ماہ قبل راقم نے اپنی تحریر میں این آر او کیس کی ممکنہ صورتحال کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا تھا کہ”این آر او کیس میں عدالت کے فیصلے کے بر خلاف حکومت سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔بات اب سوئس حکام کو خط لکھنے یا نہ لکھنے سے بہت آگے جا چکی ہے۔اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ صدر مملکت کے استثنیٰ کا معاملہ عدالت میں زیر بحث آجائے ۔پھر دلائل کے انبار ہوں گے ۔اولاً تو بتایا جائے گا کہ اسلام میں تو استثنیٰ کا سرے سے کوئی تصور ہی نہیں ہے ۔ ثانیاًدنیا بھرکی عدالتوں کے فیصلوں کے حوالے دے کر یہ ثابت کر دیا جائے گا کہ عدالت عظمیٰ صدر کو حاصل استثنیٰ ختم کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔آپ استثنیٰ کے خاتمے کی خبر بھی سن سکتے ہیں۔اس کے بعد آئین کے آرٹیکل 190کو بروئے کار لانے کے قوی امکانات موجود ہیں۔ایک ہلاکت خیز بحران آتا دکھائی دے رہا ہے ۔اگر اس بحران سے کسی مزاحمت کے بغیر نکل گئے تو پھر بتایا جائے گا کہ الیکشن کمیشن تین کروڑ جعلی ووٹوں کے اخراج ،تحقیق اور نئی ووٹوں کے اندراج میں مصروف عمل ہے لہذا الیکشن کمیشن درخواست گزار ہے کہ الیکشن کروانے کے لئے مزید وقت دیا جائے ۔اس کیلئے بھی سپریم کورٹ مددگار ہوگی۔پھر ایک خاص مدت کےلئے ”غیر جانبدار“عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایاجائے گا ۔کتنی مدت کےلئے حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔“

گزشتہ روز ہی مسلم لیگ(ہم خیال ) کے رہنما ﺅں اعجاز الحق اور ہمایوں اختر نے مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعے اعلان کیا کہ مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد کرنے جا رہے ہیں۔دراصل یہ اتحاد نہیں ایک طرح کی ن لیگ میں شمولیت ہے اتحاد کا لفظ سوچ سمجھ کر آئین کی ڈیفکشن کلاز سے بچنے کے لیے استعمال کیا ہے۔وگرنہ معاملات کافی عرصہ پہلے طے پا چکے تھے۔میاں نوازشریف، چوہدری برادران کے علاوہ تمام منحرف مسلم لیگیوں کو واپس لینے پر رضا مند ہو چکے تھے۔تاہم مسلم لیگ ق کے اراکین کی ایک بڑی تعداد کو پاکستان تحریک انصاف کی طرف جاتے دیکھ کر ان کی پریشانی میں مزیداضافہ ہوا۔یہ کام بہت پہلے ہو جاتا اگر خود میاں نواز شریف کی ذات اس میں رکاوٹ نہ بنتی۔مسلم لیگ ن کی مستقبل کی پالیسی کیا ہوسکتی ہے ؟ اس حوالے سے چند ماہ قبل ایک کالم میں تحریر کیا تھا کہ”دو خدشات مسلم لیگ کے قائد کے حوالے سے ظاہر کئے جا رہے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ،مقتدر حلقوں اور امریکہ کے لئے نواز شریف سخت موقف کے باعث قابل قبول نہیں ہیں۔علاوہ ازیں مسلم لیگ ق اور ہم خیال گروپ کے حوالے سے ان کے اندر کوئی لچک موجود نہیں ۔اپنے قارئین کے لئے عرض ہے کہ مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما خواجہ آصف امریکی سفارتکاروں اور نمائندوں سے گذشتہ کئی ماہ سے مسلسل ملاقاتیں اور میٹنگز کرتے چلے آرہے ہیں۔یقینی طور پہ تو نہیں کہا جاسکتا بہر حال کچھ نہ کچھ یقین دہانیاں کروائی جا چکی ہیں۔تمام منحرف لیگیوں کے لئے دروازے کھول دئیے گئے ہیں ۔ہمایوں اختر جو میاں نواز شریف کی انتہائی منفی فہرست میں شامل تھے ان سے معاملات طے پا چکے ہیں۔ہم خیال لیگیوں کی ملاقاتیں مسلم لیگ ن کے رہنماﺅں کے ساتھ تسلسل کے ساتھ ہو رہی ہیں۔جوں جوں حکومت پہ دباﺅ بڑھتا جائے گا توں توں مسلم لیگ ق سے بڑی تعداد میں لیگی رہنما ن کی طرف رجوع کرتے نظر آئیں گے۔سندھ میں قوم پرستوں کے ساتھ مسلم لیگ ن کا الائنس ہونے جا رہا ہے معاملات بہت حد تک طے پا چکے ہیںمحض اعلان ہونا باقی ہے۔“

میاں نواز شریف کا کراچی میں امن قائم کرنے کے لیے فوجی عدالتو ں کے قیام کا بیان ، پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک ، قوم پرست جماعتوں سے الائنس کی کوششیں ،پیپلز پارٹی کی سیاسی شہادت کی تیاری، سینیٹ کے الیکشن ، اپوزیشن کے اسمبلیوں سے استعفے،جنرل (ر) مشرف کی واپسی، صدر مملکت کے استثنیٰ کا خاتمہ ،خارجہ پالیسی کی از سر نو تشکیل وغیرہ وغیرہ اس ماہ میڈیا کی بحث کے ممکنہ موضوعات ہوں گے۔گمان یہ ہے کہ میمو کیس نہیں صد ر زرداری کے لیے اصل پھندہ این آر او کیس اور صدارتی استثنیٰ کا خاتمہ ہے۔آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا -
Syed Abid Gillani
About the Author: Syed Abid Gillani Read More Articles by Syed Abid Gillani: 24 Articles with 20376 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.