عوام کی ”جنگ“

ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے جب یہ ملک ایک آمر نے امریکہ کی نام نہاد اور جعلی دہشت گردی کی جنگ میں جھونک دیا تھا، اس سیاہ رو نے، جو آج کل امریکہ اور یورپ میں ”لیکچرز“ دینے میں مشغول ہے اور جو پاکستان واپس آنے کے لئے اپنے غلیظ پر تول رہا ہے، اس نے ”سب سے پہلے پاکستان“ کا نعرہ لگا کر سب سے زیادہ پاکستان کو نقصان پہنچانے اور اسے تباہ و برباد کرنے کا جیسے ٹھیکہ اٹھا لیا تھا۔ اس نے تقریباً نو سال تک بلا شراکت دیگرے اس ملک پر بادشاہوں کی طرح حکومت کی اور بالآخر ان لوگوں کے ساتھ ایک ”سیاہ“ معاہدہ کرکے ان کو واپس لایا جن کے بارے میں وہ کہا کرتا تھا کہ اب ان کا پاکستانی سیاست میں کوئی کردار نہیں۔ این آر او جیسے بدنام زمانہ قانون کو سپریم کورٹ نے کالعدم تو قرار دیدیا تھا لیکن اس کے باوجود اسی این آر او کی چھتری تلے آنے والے لوگ اس ملک پر حکومت کررہے ہیں، چاہے وہ صدر زرداری ہوں یا گورنر سندھ یا وزیروں کی اکثریت ہو، سبھی این آر او کی گنگا میں اشنان کرکے پاک صاف ہوچکے ہیں۔ یہ این آر او ہی تھا جس کے ذریعے امریکہ نے اس وقت مستقبل کی پاکستانی حکومت کو بھی اپنے پنجرے میں قید کرلیا تھا تاکہ مشرف کے کوچ کرنے کے بعد جو لوگ پاکستان پر حکومت کریں گے، ان کی جان بھی امریکہ کے قبضے میں ہو اور کسی میں یہ جرات نہ ہوکہ وہ امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ سے نکل سکے یا نکلنے کا سوچے بھی۔ اس این آر او میں فوج بھی ایک ادارے کے طورپر شامل رہی اور موجودہ فوجی چیف اس تمام بات چیت اور ”بارگیننگ“ میں موجود تھے۔

دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ، جو اصل میں دہشت گردی ختم کرنے کی نہیں تھی بلکہ مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کرنے کی جنگ تھی اس میں پاک فوج کا کردار یقینا قابل ستائش نہیں تھا اور نہ ہی مورخ کبھی اس کی تعریف کرسکتا ہے، وہ کیا مجبوریاں تھیں، وہ کیا حالات تھے جن کے تحت عالم اسلام کی سب سے بڑی فوج جو ایٹمی اسلحے سے بھی لیس تھی،اپنے ہی بھائیوں کے خلاف لڑنے پر مجبور ہوئی اور پاکستان کو ایک اڈے کے طور پر افغانیوں کے خلاف استعمال میں لانے کی اجازت دیدی گئی۔ یہ کس کی جنگ تھی جو میرے وطن سے لڑی گئی اور آخر ایک وقت آیا کہ وہ ہمارے گلے پڑ گئی۔ ایک طرف امریکہ کی طرف سے ”ڈو مور“ کا تقاضہ اور دوسری طرف افغانی ہمارے دشمن، وہ سرحد جس پر آج تک کسی چوکی کی بھی ضرورت نہ پڑی تھی، وہ سرحد بھی غیر محفوظ کرلی گئی اور پاکستان شدید قسم کی مشکلات کا شکار ہوتا چلا گیا۔ ایک بات جو اکثر لوگ سوچتے تو ہیں لیکن شائد اتنے کنفیوز ہیں یا ڈرے ہوئے کہ وہی کام اگر کوئی فوجی جرنیل کرے تو وہ محب وطن اور اگر کوئی سویلین کرے، کوئی سفیر کرے تو ملک دشمن؟ مشرف جس کو سپریم کورٹ بھی غاصب قرار دے چکی ہے اس کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں ہوئی، آرٹیکل 6 کا ملزم تو گردانا جاتا ہے لیکن مرکزی حکومت نے تو اس کے خلاف کوئی پرچہ کٹوانا ہی نہیں تھا، اگر مقدمہ ہی بنانا ہوتا تو اسے سلامی دے کر سرخ قالینوں کے ذریعے نہ بھیجا گیا ہوتا لیکن سپریم کورٹ کے سامنے کیا رکاوٹ تھی کہ اس نے بھی حکومت کو ایسا کرنے کو نہیں کہا، مسلم لیگ (ن) جس کے قائد ہر وقت مشرف کے ظلم بیان کرتے رہتے ہیں اور لوگوں کو ”رلاتے“ رہتے ہیں، ان کی پنجاب حکومت کو کس نے روک رکھا ہے، اگر آئین ایسی کوئی قدغن لگاتا ہے کہ آرٹیکل 6 کا مقدمہ صرف وفاقی حکومت درج کرواسکتی ہے تو وہ مشرف کے خلاف مقدمے کے لئے سپریم کورٹ کیوں نہیں گئے، کیا انہیں چوہدری نثار یا شہباز شریف نے روک رکھا ہے؟ آخر کوئی تو وجہ ہوگی....!کیا عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کے طعنے دینے والے خود بھی اسی کشتی کے مسافر ہیں، اگر ایسا نہیں تو اپنے کردار سے ثابت کیوں نہیں کیا جاتا؟

مختصراً یہ کہ موجودہ حکومت اور پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن، دونوں کی پوزیشن امریکی جنگ کے حوالے سے تقریباً ایک جیسی ہے۔ اپوزیشن نے اس حکومت کو چار سال کا طویل عرصہ، اس ملک کا بیڑہ غرق کرنے کے لئے دئے رکھا، کیوں؟ اس ”کیوں“ کا جواب کون دے گا؟ اگر اب ”اصحاب قاف“ کے سارے گناہ معاف ہوگئے ہیں، ان کو واپس مسلم لیگ (ن) میں لیا جارہا ہے یا ایک متحدہ مسلم لیگ بنائی جارہی ہے جو اتحاد کرکے آئندہ الیکشن لڑے گی تو پہلے جب سب لوگ کہہ رہے تھے کہ ان کو معافی دیدی جائے، اس وقت ایسا کیوں نہ ہوا؟اگر اس وقت ایسا کرلیا جاتا تو پارلیمنٹ میں آپکی اکثریت بھی ہوتی اور حالات یہاں تک بھی نہ پہنچتے لیکن چونکہ ”باریوں“ کا کھیل پہلے سے طے شدہ تھا اور طے بھی ان لوگوں نے کیا جنہوں نے پہلے جدہ لیجانے کا بندوبست کیا، جنہوں نے این آر او کی ڈیل کروائی اور جن کی مدد سے لیڈران دس سال سے پہلے واپس بھی آگئے، اس لئے صرف باری کے انتظار میں ، باری پوری کروانے کے چکر میں اس قوم کو چکر میں ڈال دیا، اب اسی چکر میں اگر قوم کسی تیسری قیادت کی راہیں تک رہی ہے اور اس کی جانب کھنچی چلی جارہی ہے تو غصہ کیوں؟ نہ تو ”باریوں“ کا معاہدہ عوام کے لئے کیا گیا، نہ ”باریاں“عوام کی خاطر لی جارہی ہیں، یہ ان کی اپنی اور ان کے آقاﺅں کی جنگ ہے جس میں عوام کو صرف جھونکا جاسکتا ہے، ان سے سپاہیوں کا کام لیا جاسکتا ہے، ان سے شہادتیں اور قربانیاں طلب کی جاسکتی ہیں لیکن ان کی خاطر، ان کے حقوق کی خاطر، ان کے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کی خاطرنہ تو کچھ کیا جاسکتا ہے نہ سوچا جاسکتا ہے۔ عوام کو اپنی جنگ بالآخر خود لڑنا ہوگی، انہیں اپنے حقوق کے لئے خود اٹھنا ہوگا، شائد اس بار اس ملک کے لئے، اپنے لئے اور آنے والی نسلوں کے لئے قربانیاں دینا پڑیں، خون دینا پڑے، شہادتیں قبول کرنا پڑیں، ایک طویل جنگ لڑنا پڑے....! یہ جنگ عوام کو اپنے دست و بازو کے بھروسے پر نہیں بلکہ اللہ کی آس پر لڑنی ہوگی، اگر ہمیں اسی ملک میں رہنا ہے، اگر ہماری آنے والوں نسلوں کو بھی اسی ملک میں رہنا ہے، اگر اس ملک سے کوچ کرنے کا کوئی پروگرام نہیں، اگر اپنے بچوں کو سیاستدانوں، فوجیوں، بیوروکریسی اور دوسرے مافیاز کا غلام نہیں بنانا تو آج کوشش کرنا ہوگی، آج جنگ کی تیاری کرنا ہوگی، جو جہاں ہے، جس حال میں بھی ہے اسے اس جنگ میں شامل ہونا ہوگا کیونکہ یہی وہ جنگ ہے، یہی وہ انقلاب ہے جو عوام کا ہے، باقی ساری جنگیں جھوٹی ہیں، عوام کی نہیں خواص کی ہیں، چنانچہ عوام کو اپنی جنگ کا نقارہ بجا دینا چاہئے۔ اگر عوام بجلی، گیس اور پانی کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کررہے ہیں تو بڑے بڑے گھروں میں کیوں روشنی بھی ہے، ہیٹر بھی چل رہے ہیں اور ایکڑوں بلکہ مربوں میں پھیلے ہو ئے باغات کو دن رات پانی بھی ملتا ہے، اگر عوام مہنگائی کی وجہ سے اپنے بھوکے بچوں کو دیکھ کر خودکشیوں پر مجبور ہیں تو بڑے بڑے محلوں میں کنالوں پر پھیلے ہوئے باورچی خانے کیوں چل رہے ہیں، وہ کون ہیں جن کی وجہ سے عوام گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں کہ بڑے صاحبان کی سواری گزر جائے....!نہیں ہرگز نہیں، اب ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ پہلا کام یہ ہو کہ کسی وی آئی پی کے لئے ٹریفک نہ رکنے پائے، اگر ایک بار، صرف ایک بار ایسا ہوگیا کہ وہ لوگ جو میلوں لمبی قطار میں اپنی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں اذیت سہہ رہے ہوتے ہیں وہ اسی سڑک کو بلاک کردیں جس پر شاہی سواری جارہی ہو تو دیکھیں باقی معاملات بھی کیسے حل ہوتے ہیں، بس ایک بار ہمت کرنے کی ضرورت ہے،یہی عوام کی جنگ کا نکتہ آغاز ہوگا....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207360 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.