بے وقت کی راگنی اور بے سُرے دوستوں کا سونامی

پاکستان کی طرح اور،عمران خان کی طرح میں بھی دوستوں کے معاملے میںخاصا خودکفیل ہوں بلکہ دوستوں کا سُونامی میرے اردگرد ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے۔کئی بار تو وہ جھک بھی مار دیتا ہے مگر میں جمہوریت کا قائل ہوں اس لئے کسی سے پنگا نہیں لیتا کیونکہ پنگا لینا چنگا نہیں ہوتا۔آج کل کے حالات کو دیکھ کر تو یہ بات مزید میرے دل مین دھرنا مار کر بیٹھ گئی ہے کہ اپنے ہوں یا غیر اُن کے بارے میں اظہارِ خیال کرنے سے پہلے بندہ ایک بار اپنے بابر اعوان سے ضرور مشورہ کر لے کیونکہ وہ آج کل جس طرح دشمنوں کے ساتھ جس زبان میں بات کر رہے ہیں وہ دل جلے کے ڈائیلاگ تو ہو سکتے ہیں کسی پڑھے لکھے سیاست دان کو یہ الفاظ زیب نہیں دیتے۔بہر حال ایسے ہی بے سُرے دوست اور بے وقت کی راگنی الاپنے والے ہی لُٹیا ڈبودیتے ہیں۔ایسے ہی کچھ مشکوک کردار والے ،مخدوش مستقبل کے حامل اور مخصوص مقاصد رکھنے والے دوست میرے اردگرد بھی زکام زدہ مینڈکی کی طرح ٹراتے رہتے ہیں۔ابھی کچھ دنوں کی بات ہے چند شیخ چلی نما دوست میرے پاس ہانپتے کانپتے آئے اور کہنے لگے یار ایک مشورہ دینے آئے ہیں۔
میں نے کہا کہ اب منہ سے پھوٹو بھی
کہنے لگے کیوں نہ ہم بھی دوسرے سمجھ دار لوگوں کی طرح ایک پُر ہجوم پریس کانفرنس میں تحریکِ انصاف میں شامل ہونے کا اعلان کر دیں ۔
میں نے کہا تو پھر ؟
پھر کیا ہم بھی عمران خان کے سونامی کا حصہ ہوں گے۔
میں نے کہا تو پھر ؟
ہم بھی عمران خان کی تبدیلی کی اس جنگ میں اُن کا ساتھ دے کر ملک میں تبدیلی لائیں گے۔اور ورکر بن کر ملک کے لئے کام کریں گے۔

میں نے کہا تم سارے نکمے ہو کیا کام کرو گے دراصل تم نے تی وی پر لوگوں کو کرسیاں لے جاتے دیکھ کر عمران خان سے ہمدردی جتا کر دو چار کرسیاں لوٹنا چاہتے ہو اور تم کچھ کرنے کے قابل ہوتے تو گھر والے تمھیں کوئی ڈھنگ کے کام پر نہ لگاتے۔یہ سُن کر وہ چپکے سے نو دو گیارہ ہو گئے یہ ہے ماجرا ۔یقینا آج کل ہر گھر ، گلی، محلے میں اسی بات کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے کہ اگر کل کلاں ہمارے شہر میں تحریکِ انصاف کا جلسہ ہوا تو کون کون جلسے میں شرکت کرے گا اور کیسے اختتام پر کرسیاں گھیر گھار کر گھر تک لائے گا۔واہ رے پاکستانی تو ہے قوم سیانی ۔پاکستان سے یاد آیا پاکستان بھی تو ایسے ایسے بے سُرے دوستوں کا مالک ہے کہ دل غش غش کر اُٹھتا ہے۔ امریکہ کو ہی لے لیں کیا نادر اور نایاب قسم کا دوست ہے جس کی موجودگی میں دشمن پالنے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ امریکی دونوں خصلتوں کے حامل ہیں۔سامنے دوست اور پیٹھ پیچھے دشمن ۔

اور آجکل تو ہندو بنیے سے حکومت پیار کی پینگیں ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے اگر دوستی کی یہ پینگ رس گئی تو پھر اللہ ہی حافظ ہے کیونکہ پانی پہلے ہی ہندو نچوڑ چکے ہیں اب پہاڑ ہی نہ ُاٹھا لے جائیں۔

پاکستان کی دوست شماری اگر نادرا یا الیکشن کمیشن کو سونپی جائے تو یہ کام سمجھو گیا کھوہ کھاتے کیونکہ آج تک ان سے ووٹر لسٹیں تو مکمل ہوئی نہیں اور اگر یہ کام کسی وزیر بے محکمہ کے ذمہ داری میں دیا جائے تو ہو سکتا ہے چار پانچ سال میں کچھ کم ہو جائے ویسے کتنی عجیب و غریب وزارت ہے۔ وزیر بے محکمہ یعنی ہمارے ملک میں کچھ ایسے بھی محکمے ہیں جو خیالی اور خلا میں معلق ہوتے ہیں۔ایسے محکموں کا دیدار (کیا یاد کرا دیا ظالم چلو چھوڑو مٹی پاو ¿ یہ نہ ہو پڑھنے والوں کو کاغذ،قلم اور لفظ ناچتے نظر آئیں اور یہ کہہ کر چپک جائیں کہ جھپی گھٹ کے جوپاویں ہک وارگجرا رہواں گی تیری تا بعدار گجرا)کرنے کے لئے ہی ورلڈ بنک والے آتے ہیں اور ایسے محکموں کو چلانے کے لئے ڈالر دے جاتے ہیں۔اللہ تعالٰی نے ہمیں ایسے نرالے اور عجیب نیچر سے مزین دوستوں کا پورا ایک غول عنایت کیا ہے۔جسے اگر اس لوڈ شیڈنگ کے دور میں بندہ ڈھونڈنے نکلے تو پھر واپسی میںایک بھی ہاتھ نہ لگے کیونکہ سارے اپنے اپنے محاذ پر لڑ نے مرنے اور کونے کھدرے میں گھسے موبائل پر فی میل سے نان سٹاپ گفتگو میں مگن ملتے ہیں ۔میرے کچھ دوست امریکی فطرت کے ہیں جو دھونس ، دھاندلی اور منت ترلے سے اپنے مقاصد نکالنے میں طاق ہوتے ہیں۔امریکہ ایسا دوست ہے جو تھپڑ بھی مارتا ہے اور رونے بھی نہیں دیتا اور کوئی رو دے تو ایسی آنکھیں نکالتا ہے کہ دل دہل جاتا ہے۔ کچھ دوست افغانستان جیسی الزامی طبیعت رکھتے ہیں جو ہر وقت زبان پر بس الزام ہی الزام اور دل میں دشنام کی آکاس بیل لٹکائے ملتے ہیں۔اور کچھ بھارت جیسی میسنی صورت بنا کر اندر سے کٹ لیتے ہیں اور کاٹ بھی ایسی کہ زخم سدیوں نہ بھرے۔کچھ دوست سابق صدر (وہی ڈھلک طبلے والے) کے دوستوں جیسے ہیں جب عروج ہو تو اردگرد لڈیاں اوربھنگڑے ڈالتے ہیں اور جب زوال شروع ہر تو پھر بی مینڈکی کی طرح یوں غائب جیسے گدھے کے سر سے سینگ یعنی بندہ جتنا بے سُرا گائے ، راگ کا ستیاناس کرے ،بے وقت کی راگنی الاپے سارے ہی واہ واہ کریں ایسے دوستوں کے لئے بندہ لاہ لے جھتی تے مارے دس تے گنے ایک ۔ ایک دوست جو بلا کا بے سُرا ارو راگ وغیرہ کے بارے میں اس کا نالج بالکل فالج تھا ۔مگر جیب میں قائدِاعظم کی تصویر والے نئے نئے نوٹ تھے ۔اس لئے اس کے سارے ووٹ تھےمیں لعن طعن کرتا مگر وہ تھا کہ خوشامد کی ہوا میں اڑ رہا تھااور سارے حواری اس کی اس کمزوری سے خوب استفادہ کرتے اسی ہوا میں اڑتے اڑتے ایک دن اس کی جیب خالی ہو گئی اور اردگرد میٹھی میٹھی بولیاں بولنے والے بھی پھُر سے اڑ گئے اور وہ اداس بلبل کی طرح ٹہنی پر اکیلا بیٹھا میری باتیں یاد کرکے خوب رویا مگر اب روئے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت ۔

میں نے اپنے دوستوں کو خوب کھری کھری سنا لی ہیں اس لئے اجازت دیں کہیں کوئی دوست جوتا بدست ادھر نا آن دھمکے اور مجھے بش کی طرح دو ایک جوتا نہ جڑ دے۔لہذا خدا حافظ میرے لئے دُعا کرنا کہ کہیں کسی دوست کے ہتھے نہ چڑھ جاؤں -
Muhammad Kamran Shehzad
About the Author: Muhammad Kamran Shehzad Read More Articles by Muhammad Kamran Shehzad: 7 Articles with 5800 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.