کہاں اسکول؟ کہاں ذہانت؟

تحقیق اور محققین سے ہمیں چڑ، بلکہ خدا واسطے کا بیر ہے۔ قریبی حلقے کہتے ہیں کہ اُصولی طور پر تو ہمیں تحقیق اور محققین سے الرجی ہونی نہیں چاہیے کیونکہ جب بھی کسی نئی تحقیق کے نتائج سامنے آتے ہیں تو ہمیں اپنی لاعلمی (یا جہالت) پر خواہ مخواہ رشک آنے لگتا ہے! اور یوں ہم مزید کچھ سیکھنے کے ارادوں کو پھر ”بالائے طاق کے اُوپر“ رکھ دیتے ہیں! اگر تحقیق کا بازار یونہی گرم رہا تو ہم کبھی کچھ سیکھنے کے معاملے میں سنجیدہ نہ ہوں گے!

ناروے میں سرکاری تحقیق کے ذریعے انکشاف کیا گیا ہے کہ جو بچے اسکول میں زیادہ وقت لگاتے ہیں ان کے آئی کیو میں چار پوائنٹ تک اضافہ ہو جاتا ہے۔ ناروے کی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز نے ایک لاکھ سات ہزار طلبا اور طالبات کے کیسز کا جائزہ لینے کے بعد بتایا ہے کہ جو بچے اسکول کو معمول سے زیادہ وقت دیتے ہیں وہ ذہانت کی دوڑ میں آگے نکل جاتے ہیں۔ 1955 سے 1972 تک اسکولوں میں طلباءکے تعلیمی مدت میں دو سال بڑھائے گئے۔ اس کے نتیجے میں بچے اسکول کی تعلیم سے 14 کے بجائے 16 سال میں فارغ ہونے لگے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ محققین اِس نُکتے پر متفق نہیں ہوسکے کہ اسکول میں وقت زیادہ دینے سے بچوں میں ذہانت پیدا ہوتی ہے یا ذہین بچے اسکول کو زیادہ وقت دیتے ہیں!

ناروے کے محققین نے بہت دیر کردی۔ اُستادِ محترم رئیس امروہوی کے بارے میں مشہور ہے کہ اُنہوں نے رَسمی تعلیم حاصل نہیں کی تھی یعنی کسی اسکول کا مُنہ تک نہ دیکھا تھا۔ اگر اسکول میں زیادہ وقت دینے سے ذہانت میں اضافے کا انکشاف اُن کے جیتے جی ہو جاتا تو شاید وہ بھی کسی اسکول میں داخلہ لیکر تھوڑی بہت ذہانت اپنے اندر پیدا کرلیتے۔ کسی اسکول یا مدرسے سے رسمی تعلیم پائے بغیر رئیس امروہوی صاحب نے جو کار ہائے نمایاں انجام دیئے اب اُن پر شک ہوتا ہے کہ وہ ذہانت کا شاہکار قرار دیئے جاسکتے ہیں یا نہیں! باقاعدگی سے اسکول جانے بلکہ جاتے رہنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے اِس کا ہمیں کچھ بھی اندازہ نہیں (کیونکہ ہم اِس مرحلے سے کبھی نہیں گزرے!) مگر رئیس امروہوی صاحب کے کیس میں یہ ضرور ثابت ہوا کہ اسکول سے دور رہنے کی صورت میں انسان شاعری کرتا ہے، دانش کے موتی بھی بکھیرتا ہے، کالم نگاری بھی کرتا ہے، ہپناٹزم کا ماہر بھی بن جاتا ہے اور نفسیات و مابعدِ نفسیات کے موضوع پر جامع اور موثر مضامین بھی سُپردِ قلم کربیٹھتا ہے! جب بھی ہم کراچی پریس کلب میں ساتھیوں کے ساتھ خوش گپیاں کرتے ہیں تو اُن میں سے بیشتر کی ”علمیت“ دیکھ کر خیال آتا ہے کہ کم از کم کوئی اسکول جوائن نہ کرنے کی حد تک تو وہ رئیس امروہوی صاحب کے ہم پَلّہ قرار دیئے جاسکتے ہیں!

اسکول کی تعلیم پر ویسے بھی ہمارا کبھی کچھ زیادہ اعتقاد نہیں رہا۔ ڈھنگ سے جینے کے انداز اور زمانے سے ہم آہنگ ہونے کے اطوار سیکھنے کے لیے والدین نے کسی نہ کسی طرح ہمیں پاک ماڈرن کالونی کے شائننگ اسٹار اسکول میں داخل تو کیا تھا مگر خیر گزری کہ ہم نے اسکولی تعلیم کو زیادہ اہمیت نہ دی اور چمکتا ہوا نصابی ستارہ بننے سے باز رہے! ہم نے اسکول کے زمانے میں ہمیشہ خط کو تار سمجھا، آدھے کو پورا جانا، ہاف ٹائم کو ہمیشہ فُل ٹائم کا درجہ دیا یعنی ہاف ٹائم کی گھنٹی بجتے ہی رفو چکر ہو جایا کرتے تھے۔ اگلے دن کلاس ٹیچر کے سامنے پیشی پر ہم ہاف ٹائم میں بھاگنے کے حوالے سے ایسے شاندار بہانے تراشا کرتے تھے کہ اب بچپن کی ذہانت پر رشک آتا ہے! اِس بہانہ تراشی نے ہم میں سوچنے کے عمل کو تحریک دی اور ہم وہ سب کچھ سوچنے کے قابل ہوئے جسے صحافت میں لازمی صلاحیت کا درجہ حاصل ہے!

اسکول سے روزانہ ”ٹُلّا“ مارنے کی عادت ہی نے ہم میں صحافیانہ جراثیم پیدا کئے اور ہم لکھنے لکھانے کی طرف آئے۔ ہاف ٹائم میں اسکول سے بھاگ کر ہم بڑا بورڈ کے نزدیک چمن سنیما میں میٹینی شو دیکھا کرتے تھے۔ فلمیں دیکھ دیکھ کر ہم نے ایسے بہت سے مکالمے یاد کرلیے جو اب کالم نگاری میں بہت کام آتے ہیں! شکر ہے کہ ہم پنجابی فلمیں زیادہ نہیں دیکھتے تھے ورنہ آج ہمارے کالم میں مزاح کم اور بڑھک زیادہ ہوتی اور ہمارے کالم کے ”حسن“ پر قارئین بے ساختہ نثار ہو جاتے!

ایسا نہیں ہے کہ اسکول سے ٹُلّا مار کر صرف چمن سنیما کا رخ کرنے ہی سے ہمارے دل و دماغ کے گلشن میں بہار آتی تھی۔ کبھی کبھی آب و ہوا تبدیل کی خاطر اور ضمیر کی خلش کو کچھ کم کرنے کے لیے ہم ناظم آباد ڈاک خانے کے پہلو میں واقع عثمانیہ لائبریری کا چکر بھی لگا لیتے تھے۔ وہاں دو تین اخبارات پر نظر ڈال کر اور بچوں کا ایک آدھ رسالہ پڑھ کر دِل کو یہ کہہ کر بہلانے کا موقع مل جاتا تھا کہ اسکول سے ہاف ٹائم میں بھاگ کر ایک آدھ ڈھنگ کا کام بھی کیا ہے!

پوری باقاعدگی سے اسکول جانے اور فل ٹائم کی گھنٹی بجنے پر باہر آنے والوں کو ہم نے لگی بندھی زندگی بسر کرتے ہی دیکھا ہے۔ مگر خیر، یہ بھی غنیمت ہے۔ اگر اسکول میں پڑھاکو بچے نہ ہوا کریں اور فل ٹائم بیٹھ کر ڈھنگ سے بہت کچھ سیکھنے والے کم ہوں تو دفاتر کو بابو لوگ کہاں سے ملیں؟

کالم لکھتے لکھتے خواہ مخواہ سوچنے کی عادت سی پڑگئی ہے۔ اِسی عادت سے مجبور ہوکر ہم نے اکثر سوچا ہے کہ اگر اسکول میں پوری توجہ اور زیادہ وقت دینے سے بچوں میں زیادہ ذہانت پیدا ہوتی ہے تو پھر ہر کلاس میں دو دو سال گزارنے والے بچے زیادہ ذہین ہونے چاہئیں! اِس خیال کا اظہار ہم نے اپنے ایک ٹیچر دوست کے سامنے کیا تو اُنہوں نے چند انتہائی ”عالمانہ“ الفاظ سے ہمارے خیالات کو ”خراج تحسین“ پیش کرکے اسکول میں زیادہ وقت گزارنے سے پیدا ہونے والی شاندار ذہانت کا مظاہرہ کیا! ویسے اسکولوں میں سب سے زیادہ وقت تو خود اساتذہ گزارتے ہیں۔ اِس نُکتے پر اب تک تحقیق نہیں ہوئی کہ اسکولوں میں زندگی بسر کرنے سے اساتذہ کی ذہانت میں اضافہ ہوتا ہے یا نہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524672 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More