بھٹو کی عظمت کو سلام

ہزایکسیلنسی گورنر بہت خوبصورت ہیں کیونکہ انگریز ہمارے خوبصورت ملک کے خون پر پلتے ہیں۔ یہ کڑک دار اور بصیرت آمیز جملہ1935 میں7 سالہ لڑکے نے بمبئی کے انگریز گورنر لارڈ برابون کو مخاطب کرکے سب کو ششدر کردیا۔ گورنر نے شاہنواز بھٹو کو مبارکباد دی کہ اپکا یہ بیٹا مستقبل میں انقلابی شاعر بنے گا۔ یہ لڑکا بمبئی کے منسٹر شاہ نواز بھٹو کا فرزند تھا جو اپنے 21سالہ بھائی امداد علی بھٹو اور والد کے ساتھ انگریز گورنر کی دعوت میں شریک تھا۔ یہی لڑکا آگے چل کر قائد عوام بنا جس نے ایک طرف برصغیر پاک و ہند کی تاریخ بدل ڈالی جبکہ دوسری طرف اس نے امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر متحد و متفق بنایا جس نے مغرب میں تھرتھلی مچادی۔ 5 جنوری1928 میںپیدا ہونے والہ زیڈ اے بھٹو انگریز گورنر کی دعوت کا حال احوال اپنی تصنیف> مجھے قتل گیا تو کے صفحات پر نقش پا کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ گورنر نے درست ہی کہا تھا کہ میں انقلابی شاعر بنوں گا۔ میں ان سارے برسوں میں یہی رہا ہوں انقلابی اور شاعر۔ میں آخری سانس تک انقلابی ہی رہونگا۔ زیڈ اے بھٹو نے 1945 میں قائد اعظم کو خط لکھا مسلمانوں کو جان لینا چاہیے کہ وہ ہندووں کے ساتھ گزارہ نہیں کرسکتے۔ وہ قرآن دین اسلام اور حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں مانتے۔ اب ہر مسلمان کی ایک ہی اواز ہونی چاہیے پاکستان مسلمانوں کا مشترکہ منشور ہونا چاہیے پاکستان۔ اب ہمیں پاکستان بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہم فخر کرتے ہیں کہ آپ نے مسلمانوں کو ایک جھنڈے تلے جمع کیا ۔ ابھی میں سکول کا طالبعلم ہوں پاکستان کے لئے ابھی میں کچھ نہیں کرسکتا مگر وقت آنے پر میں اپنے وطن کی خدمت کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرونگا اور اگر ضرورت پڑی تو ملک و قوم کی خاطر جان بھی قربان کردونگا۔ مندرجہ بالا اقتباس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سامراج مخالفت اور پاکستان سے لازوال محبت کے عناصر کم عمری میں بھٹو کے خون میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔ بھٹو فیملی کے متعلق کئی روایات مشہور ہیں کہ بھٹوز کی عمر51 سال تک محدود ہے۔ زیڈ اے بھٹو کے دادا مرتضی بھٹو دو چچاؤں واحد بخش بھٹو الہی بخش بھٹو اور دو بھائی سکندر علی بھٹو اور امداد علی بھٹو کو کم عمر نصیب ہوئی سارے 50کے ہندسے کو چھونے سے پہلے ہی عدم راہی ہوگئے۔ شائد قائد عوام کو یہ احساس بھی تھا کہ شائد وہ بھی اپنے بھائیوں کی طرح جلد عالم بالہ کا رخت سفر باندھ سکتے ہیں۔بھٹو کی پیدائش پر برصغیر کے گھاگ اور آزمودہ جوتشیوں نے پیشین گوئی کی تھی کہ انہیں وہ شہرت اور مقبولیت حاصل ہوگی جو شائد کروڑوں انسانوں میں سے کسی ایک طلسماتی شخصیت کو نصیب ہوتی ہے۔50 سال کے بعد جوتشی کوئی پیشین گوئی نہ کرسکے انکا علم پچاس کے بعد کام کرنے سے انکاری ہوجاتا تھا۔ جوتشیوں کے اندازے درست نکلے۔ بھٹو کی عمر پھانسی کے وقت51 سال تھی۔بھٹو کے والد شاہنواز بھٹو نے1937 میں سندھ اسمبلی کا الیکشن لڑا مگر وہ کھوڑو خاندان سے ہار گئے۔ زیڈ اے بھٹو اس شکست پر افسردہ تھے اور انہوں نے حساب برابر کرنے کا اعلان کیا تھا۔1970 میں بھٹو نے حساب چکتا کردیا انہوں نے قومی نشست پر ایوب کھوڑو کو49 ہزار ووٹوں کی لیڈ سے ہرایا۔ بھٹو کی پہلی شادی اپنی کزن سے ہوئی جو10 سال بڑی تھی۔ وہ اولاد نرینہ سے محروم تھی۔ زیڈ اے بھٹو نے پہلا عشق نصرت بھٹو کے ساتھ کیا۔ نصرت بھٹو پہلے عشق کا قصہ خود سنایا کرتی تھیں۔ نصرت بھٹو کے مطابق دونوں فیملیوں کی اتفاقیہ ملاقات کھنڈالہ کے تفریح مقام پر ہوئی اس وقت میری عمر صرف11 سال تھی۔وہ پہلی نظر میں پیار کربیٹھے۔ دوسری ملاقات1951 میں ہوئی جب بھٹو امریکہ میں زیر تعلیم تھے۔ بھٹو کی بہن شیری بیگم نے ہماری شادی میں اہم کردار ادا کیا۔نصرت بھٹو بتاتی ہیں کہ وہ زیڈ اے بھٹو کی پہلی شادی سے آگاہ نہ تھیں مگر جونہی یہ بھانڈہ پھوٹامیں بہت خفا ہوئی کہ آپ شادی شدہ ہیں اپ نے میرے ساتھ دھوکہ کیا۔میں خفا ہوکر ایران چلی گئی۔ قائد عوام بھی پیچھے پیچھے وارد ہوگئے اور خاندانی مجبوریوں کے تحت ہونے والی شادی کی پوری داستان سنائی یوں ہماری صلح ہوگئی۔ کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب آدمی کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ نصرت بھٹو اس جملے کی تعریف پر پورا اترتی ہیں۔ بیگم نصرت بھٹو نے اپنے عظیم المرتبت شوہر کی لازوال و بے مثال کامیابیوں میں اہم کردار کیا۔ بھٹو ضیائی مارشلا کی بھینٹ چڑھے تو نصرت بھٹو نے ایک طرف پارٹی کی صدارت سنبھالی تو دوسری طرف وہ ثابت قدمی سے مارشلا کے خلاف ڈٹ گئیں۔ قائد عوام زندان میں ڈالے گئے تو نصرت بھٹو pppکی چیر پرسن بن گئیں۔ضیائی غنڈوں نے ppp اور بھٹوز فیملی پر سوز تشدد زہنی ٹارچر کوڑوں قید و بند کی صعوبتوں اور پھانسیوں کی یلغار کردی تاکہ ppp کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے مگر اسکی استبدادیت اور ڈکٹیٹرشپ نصرت بھٹو بیٹی بینظیر بھٹو اور جیالوں کے عزم و جنون کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ ضیا 1987 میں بہاولپور کے نزدیک بستی لال کمال کے ہوائی سانحے میںخود راکھ ہوگیا مگر بھٹوز کا نام اج بھی کروڑوں مزدوروں کسانوں غریب طبقات کے دلوں پر راج کررہاہے۔ نصرت بھٹو کی کاوشوں اور قربانیوں کو تاریخ نے اپنے سنہری صفحات پر کندن کردیا ہے جو تاابد بھٹو ز کو حسینیت کی طرح زندہ و تابندہ رکھے گی۔نصرت بھٹو پاکستانی قوم کی ماں تھی۔نصرت بھٹو نے ملک و قوم کی بقا آئین کی کارفرمائی اور جمہوریت کے احیا کی خاطر عظیم شوہر دونوں بیٹوں شاہ نواز بھٹو مرتضی بھٹو اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم دختر مشرق کی زندگیاں قربان کردیں۔بھٹو کی سیاسی زندگی کو کوزے میں بند کیا جائے تو کہنا درست ہوگا وہ آئے دیکھا اور چلے گئے۔ بھٹو نے مختصر سیاسی زندگی پائی مگر قائد عوام کی قربانیاں ہمیشہ آکاش سیاست پر چودھویں کے چاند کی طرح جگمگاتی رہیں گی۔ سکندر مرزا اور شاہنواز بھٹو کی دوستی تھی۔مرزا شکار کی غرض سے المرتضی لاڑکانہ میں قیام کرتے تھے۔ وہ بھٹو کی زہانت و فطانت سے متاثر ہوئے ۔ مرزا سکندر نے1957 میں بھٹو کو uno جانے والے وفد کا ممبر بنادیا جبکہ اگلے سال1958 میں بھٹو وفد کے سربراہ تھے۔بھٹو نے uno میں پرتاثیر تقریر کرکے عالمی سطح پر خطرے کی گھنٹی بجادی۔بھٹو7 اکتوبر1958 کو وفاقی وزیر تجارت1960 میں وزیراطلاعات اور بعد میں دور ایوبی میں وزارت خارجہ کے مہاراج بن گئے۔بھٹو نے1963 میں امریکی صدر کینڈی کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی۔ کینڈی بھٹو کی بصیرت و فراست اور خداداد صلاحیتوں کے سحر میں کھو گئے۔کینڈی نے بھٹو کو مخاطب کیا ۔مسٹر بھٹو اگر اپ امریکن ہوتے تو امریکہ کے فارن منسٹر ہوتے بھٹو نے جوابی میزائل داغا نو اگر میں امریکن ہوتا تو فارن منسٹر کی بجائے امریکہ کا صدر ہوتا۔22 ستمبر1965 میں بھٹو نے یواین او میں تقریر کی جس نے راتوں رات بھٹو کو عالمی سطح کا مدبر مفکر اور سیاسی رہنما بنادیا۔ بھٹو نے یو این او کے شرکا کو جھنجھوڑ کر رکھا کہ قدرت کا یہ قانون نہیں کہ تیسری دنیا کے پسماندہ ملک بھوک و ننگ میں سڑتے رہیں۔کیا پسماندگی جہالت اور بھوک ہماری تقدیر بن گئی نہیں ہم اپنی عوام کی فلاح و بہبود کے لئے پسماندگی اور مفلوک الحالی کی زنجیروں کو توڑنا چاہتے ہیں۔ہم اپنے دفاع کے لئے ایک ہزار سال تک جنگ کریں گے۔1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد بھٹو اور ایوب کے مابین معاہدہ تاشقند پر اختلاف ہوگئے۔بھٹو مسئلہ کشمیر کو ایجنڈے اور معاہدے میں شامل کروانا چاہتے تھے مگر ایوب خان نے جیتی ہوئی جنگ تاشقند میں ہار دی۔ بھٹو نے وزارت سے استعفی دیا۔ بھٹو نے چاروں صوبوں کے کونوں کھدروں کے دورے کئے۔ پاکستانیوں نے ہر جگہ بھٹو کےلئے دیدہ دل فرش واہ کردئیے۔بھٹو جہاں جاتے لوگ دیوانہ وار اسکی عقیدت میں سڑکوں پر نکل آتے۔بھٹو نے30 مارچ1967 میں پی پی پی کی بنیاد رکھی۔پاکستانی جوق در جوق پی پی پی میں شامل ہوتے گئے۔پی پی پی نے1971 میں مغربی پاکستان میں کلین سوئیپ کیا۔ جرنیلوں کی درخواست پر بھٹو نے سقوط کے بعد بکھرے اجڑے ملک اور شکست خوردہ قوم کی باگ ڈور سنبھالی۔تنکوں کو خون جگر کی ابیاری سے دوبارہ یکجا کرکے دوبارہ آشیانے کا روپ دیا۔شکست خوردہ فوج کا مورال اپ کیا۔ بے ائین قوم کو متفقہ ائین دیا۔پاک فوج کو دوبارہ دنیا کی طاقتور فورس کا مقام عطا کیا۔ایٹمی پروگرام کی بنیاد ڈالی۔ہنری کسنجر امریکی وزیرخاجہ ہنری کسنجر نے لاہور میں بھٹو کو دھمکی دی کہ ایٹمی پروگرام کا خواب چھوڑ دو ورنہ تمہیں عبرت کا مقام بنادیں گے۔ بھٹو نے یہ سلسلہ جاری رکھا۔بھٹو نے امریکہ اور سوویت یونین کے مقابلے میں امت مسلمہ کو تیسری پاور بنانے کی خاطر لاہور میں او آئی سی کانفرنس کا انعقاد کیا۔کانفرنس میں بھٹو کو او آئی سی کا چیرمین نامزد کیا گیا۔امریکہ نے بھٹو حکومت کے خاتمے کا ٹاسک سی آئی اے کو سونپا۔ڈالروں کی بوریوں کے منہ کھل گئے۔pna نے سی آئی اے اور ضیاالحق کی شہہ پر تحریک شروع کردی۔5 جولائی1977 میں ضیائی فتنہ گروں نے ایک طرف بھٹو کی منتخب حکومت پر شب خون مارا تو دوسری طرف ضیاالحق نے بھٹو کو قتل کے خود ساختہ مقدمے میں زندان میں ڈال دیا۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں ضیائی حکم پر ایجنٹ ٹائپ ججز کو تعینات کیا گیا۔سپریم کورٹ نے انصاف کی دھجیاں اڑادیں۔ بھٹو کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ امریکہ کے اٹارنی جنرل رمزے کلارک نے مارچ1978 میں کیلی فورنیا یونیورسٹی میں پیشین گوئی کی تھی کہ بھٹو کو پھانسی دے دی جائیگی۔ ضیاالحق cia کے ساتھ ڈیل کرچکا ہے۔کلارک کا تجزیہ درست ثابت ہوا۔ آمروں نے سامراجیت کے تحفظ اور وائٹ ہاوس کی خوشنودی کی خاطر بھٹو کو4 اپریل1979 میں پھانسی کے تختے کا دولہا بنادیا۔ بھٹو کا عدالتی قتل ہوا۔ بھٹو کی پھانسی جمہوریت کا بلاتکار آئینی تشخص کی پامالی ججز کی فسوں کاری پی پی کے جاگیرداررہنماوں کی بے حسی مگر ڈکٹیٹرشپ کی شکست اور حق و سچ کی آئینہ دار ہے۔ بھٹو ریفرنس اجکل سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ بھٹو کی روح سپریم کورٹ سے انصاف طلب کررہی ہے۔ بھٹو کی سالگرہ پر قوم سپریم کورٹ سے اپیل کرتی ہے کہ بھٹو ریفرنس کا فیصلہ ایک ماہ کے اندر کیا جائے۔ بھٹو کا عدالتی قتل عدلیہ کی ازادی حرمت کے ماتھے پر کلنک کا نشان ہے۔ بھٹو ریفرنس کی شکل میں سپریم کورٹ کو ایک گولڈن چانس میسر آیا ہے کہ وہ بھٹو کی روح کے ساتھ انصاف کریں یوں مقدس عدلیہ کے ماتھے پر کندن سیاہ کلنک بھی ہمیشہ کے لئے دھل سکتا ہے اور انصاف پرور ججز کی پاکبازی یقینی بن سکتی ہے۔ اگر انصاف کے علمبردار کسی مصلحت کے تحت ریفرنس کا فیصلہ نہیں کرتے تو پھر دنیا بھر میں ہزاروں رمزے کلارک کینگرو کورٹ کی داستانوں پر مرثئیے پڑھتے رہیں گے اور بابر اعوان ایسے ہزاروں جیالے کارکن عدلیہ کی جانبداری کے نوحوں پر ماتم اہ و فغاں کرتے رہیں گے۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140691 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.