اوپر والا جب بھی دیتا ہے
چھپڑپھاڑ کر دیتا ہے ،اُس کے گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں،وقت سے پہلے اور
قسمت سے زیادہ کبھی کسی کو نہیں ملتا ،ایسی کہاوتیں شاید بنی ہی عمران خان
جیسے قسمت کے دھنی لوگوں کے لیئے ہیں عمران خان نے جب انٹرنیشنل کرکٹ کئیر
ئرکا آغاز کیا تو عمران خان کو بہت زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا اُس وقت
کے بڑے بڑے کرکٹرز نے یہ دعوے کیئے تھے کہ عمران انٹر نیشنل کرکٹ میں
کامیاب نہیں ہو سکے گا لیکن عمران خان نے اپنی محنت اور لگن سے وہ کر
دکھایا جو کوئی اور نہ کر سکا اور جیت کر دیا پاکستان کے عوام کو کرکٹ ورلڈ
کپ کا وہ تحفہ جسے پاکستان کے عوام رہتی دنیا تک فراموش نہیں کر سکتے کرکٹ
سے ریٹائرمنٹ کے بعدجب عمران نے پاکستان میں فری کینسر ہسپتال بنانے
کااعلان کیا تو تب بھی عمران کو لوگوں کی بھرپور تنقید کا سامنا کرنا پڑا
کیونکہ چند لوگوں کا یہ سوچنا تھا کہ عمر ان خان ہسپتال کے نام پر معصوم
عوام کو دھوکا دے رہا ہے لیکن آج پوری دنیا دیکھ سکتی ہے شوکت خانم میموریل
ہسپتال پاکستان میں موجود ہے جو کسی طرح سے بھی انٹرنیشنل معیار سے کم نہیں
ہے اور جہا ں کینسر کا مفت علاج کیا جا تا ہے۔ پھر جب عمران سیاست میں آئے
تو تب بھی اُسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیااور پاکستان کا کوئی بھی بڑا
سیاست دان یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ عمران خان سیاست میں کوئی خاطر
خواہ کامیابی حاصل کر سکیں گئے ۔پندرہ سال پہلے عمران نے پاکستان تحریک
انصاف کی بنیادرکھی اور ان سالوں میں تحریک انصاف گُمنامی کے اندھیروں میں
ہی رہی ماہرین کا خیال تھا کہ عمران خان دلبرداشتہ ہوکر بہت جلد سیاست کو
خیر آباد کہہ دیں گے لیکن ایک بار پھر عمران خان نے اپنے اوپر ہونے والی
تنقیدوں کا منہ تو ڑ جواب دیا کیونکہ پچھلے تین سے چار مہینوں میں تحریک
انصاف جس طرح ابھر کر سامنے آئی ہے اور جس طرح لوگ تحریک انصاف میں شمولیت
اختیار کررہے ہیں اس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا اب آخر کار عمران
کی پندرہ سال کی محنت رنگ لائی اور پاکستان میں تیسرے درجے کی سمجھی جانے
والی سیاسی جماعت آ ج پاکستان کی ٹاپ تھری سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے
ماضی سے لیکر اب تک اگر عمران خان کی مستقل مزاجی کو دیکھا جائے تو اُس سے
پتہ چلتا ہے کہ عمران خان نے جس کام کو بھی شروع کیا اُسے انجام تک پہنچایا
عمران کی اپنے کا م کے ساتھ سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے اب یہ کہنا غلط نہیں
ہوگا کہ آنے والے وقت میں تحریک انصاف پاکستان کی نمبر ون سیاسی جماعت اور
عمران خان پاکستان کے صدر یا وزیر اعظم ہو سکتے ہیں ۔پاکستان تحریک ِانصاف
نے لاہور کے کامیاب جلسہ کے بعدجو اُمیدیں کراچی کے جلسہ سے وابسطہ کر رکھی
تھیں اس میں کوئی شک نہیں رہا وہ تمام اُمیدیں پوری ہوگئی ہیں اور ساتھ ہی
اُن قیاس آرائیوں نے بھی دم توڑ دیا ہے جن کا خیال تھا کہ عمران خان کراچی
میں لوگوں کو جمع کرنے میں ناکام رہیں گئے لیکن جس بھرپور طریقے سے لوگوں
نے تحریک انصاف کے کراچی کے جلسہ میں شرکت کی ہے اس سے اب واضع ہے کہ
پاکستان کے عوام تبدیلی چاہتے ہیں۔لوگوں کا ہجوم اکٹھا کر لینا ایک الگ بات
ہے لیکن لوگوں میں اتنا ولولہ، جوش و جذبہ دکھائی دینا جو یقیناً اشارہ ہے
پاکستان میں آنے والی تبدیلی کا لوگوں کے جوش وخروش سے بھرا ایسا سیاسی
جلسہ کافی عرصے بعد دیکھنے کو مِلاہر ایک زبان پر ایک ہی نعرہ تھا ،انقلاب
زندہ باد یا پھر عمران خان قدم بڑھاﺅ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ انقلاب زندہ باد
،انقلاب زندہ باد مزار قائد کراچی سے لگائے گئے ان نعروں کی آواز اتنی بلند
تھی کہ شاید اب تک بھی اسلام آباد کے ایوانوں میں اُن نعروں کی آواز گونج
رہی ہو۔ ۔عمران خان نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ میر ی خواہش تھی کہ میں
زرداری صا حب کے ساتھ میچ کھیلوں اُن کی قسمت اچھی کہ وہ ریٹائریڈ ہٹ ہوگئے
ہیں اب میاں صاحب نے مجھ سے دس دس اور کا میچ کھیلنے کی خواہش ظاہر کی ہے
تو میں میاں صاحب کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اُن کی دعوت کو قبول کرتا
ہوں لیکن میاں صاحب جلدی کھیل لیں یہ میچ کہیں ایسا نہ ہوکہ بعد میں آپ کو
میچ کھیلنے کے لیئے ٹیم ہی نہ ملے ۔ جلسہ میں موجود لوگوں کی یہ رائے تھی
کہ پاکستان کے اس مشکل وقت میں صرف عمران خان اُمید کی واحد کرن ہیں لوگ
ایسے جذباتی ہو رہے تھے کہ عمران خان کے لیئے ووٹ کے ساتھ ساتھ اپنی جان
دینے کی بھی باتیں کر رہے تھے ۔لوگوں میں ایسے جذبات اُس وقت دیکھنے کو ملے
تھے جب شہید ذوالفقار علی بُھٹونے پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی تھی آج بھی
شہید ذوالفقار علی بُھٹوعوام کے دلوں میں ایسے بسے ہوئے ہیں کہ چند لوگوں
کا یہ کہنا تھا کہ عمران خان کے اندرشہید ذوالفقار علی بھٹو کی روح گھس گئی
ہے اور جسطرح پاکستان میں پہلے پاکستان میں شہید ذوالفقار علی بھٹو انقلاب
لے کر آئے تھے اب ویسا ہی انقلاب عمر ان خان لے کر آئیں گے ۔چند روز پہلے
ہی کی بات ہے جب مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما ءچوہدری نثار نے عمران خان پر
تنقید کرتے ہوئے کہا کہ خان صاحب ایک گیند پر دو دو وکٹیں لینے کی کوشش میں
لگے ہوئے ہیں جو ناممکن ہے عمران خان نے جواب میں کہا کہ چوہدری نثار آپ
تھوڑا انتظار کرو میں آپ کو دکھاؤں گا کہ ایک گیند پر دو وکٹیں کیسے لی
جاتی ہیں یہ بات عمران خان کے منہ سے نکلنا تھی اور پوری ہونی تھی اور پہلی
وکٹ عمران خان نے پیپلز پارٹی کی گرائی جب شاہ محمود قریشی نے تحریک انصاف
میں شمولیت کی اور دوسری وکٹ مسلم لیگ ن کی گرائی جب مسلم لیگ ن کے سینئر
رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی جو یقیناً
تحریک انصاف کے لیئے ایک بڑ ی کامیابی اور مسلم لیگ ن کے لیئے ایک بڑ ا
دھچکا ثابت ہوگا اس میں کوئی شک نہیں کہ عمر ان خان نے سیاست کی اننگز میں
یہ دونوں بہترین وکٹیں حاصل کی ہیں عمران نے ایک بار پھر ناممکن کو ممکن
بنایا اور ایک گیند پر دو وکٹیں کیسے لی جاتی ہیں یہ دکھا کر اپنے سیاسی
مخا لفین کے منہ بند کردئیے ہیں۔
مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے دلبرداشتہ عوام اب تحریک انصاف کو دیکھ رہے
ہیں اور عمران خان کے لیئے یہ بہت بڑی خوشخبری ہے کہ 1992ءکی طرح ایک بار
پھر پاکستان کے عو ام عمران خان پر اپنا اعتماد دکھا رہے ہیں۔عمران
خان!لوگوں نے آپ سے بہت زیادہ امیدیں لگا رکھی ہیں اوراس بار آپ کی ذمہ
داری پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے کیونکہ اس بار آپ کو پاکستان کے لیئے
صرف کرکٹ کا ورلڈ کپ نہیں جیتنا بلکہ اس بار آپ کو جیتنا ہے پاکستان کے
عوام کے لیئے ،انصاف ، امن ،روزگار، تعلیم ،صحت ، خو شحالی ،بجلی ،گیس،
روٹی ،کپڑا ،اور مکان، پوری قوم نے آپکو پاکستان کا کپتان نامزد کردیاہے
اور خان صاحب آپ نے بھی معصوم عوام کے دلوں میں جو امید کا چراغ روشن کیا
ہے خدا کے لیئے اُسے بجھنے نہ دینا۔۔۔!!! |