کیاخیال ہے...؟لاہور میں خواتین کی مخصوص بسوں کا اِجرا

فی الحال لاہور میں جن خاص روٹس پر خواتین کے لئے چند مخصوص بسوں کا اِجراءکردیاگیاہے وہ بیشک ایک مستحسن اقدام ہے اگرچہ ایسا بہت پہلے کردیناچاہئے تھامگرحکومت ِ پنجاب نے خواتین کے سفرکے دوران پیش آنے والی مشکلات اور پریشانیوں کا احساس کرتے ہوئے دیرسے ہی صحیح خواتین کو سفری سہولیات کے خاطر یہ اقدام کیا تو ہے اِسے بھی عافیت جانی چاہئے ہے اور ہمیں حکومت پنجاب اور حمزہ شہباز کے اِس قابلِ تعریف اقدام کو حد ف تنقید بنانے سے اجتناب کرناچاہئے تاکہ حکومت پنجاب کے اِس اقدام کو تقویت ملے اور یہ ملک کا ایک بڑاصوبہ ہونے کے ناطے اپنے یہاں خواتین سے متعلق اوربہت سے ایسے اچھے منصوبوں کی بنیادڈالے جو برسوں سے حل طلب ہیں اِس موقع پر ہم یہ کہیں گے کہ آج جس کی شروعات حکومتِ پنجاب نے کردی ہے اِسے صرف لاہور ہی کی حد تک محدودنہیں رکھناچاہئے بلکہ ملک کے دیگر صوبوں اور شہروں کو بھی چاہئے کہ وہ بھی اپنے یہاں اِس قسم کی مثال اپنے خرچ یا پھر وفاقی حکومت کے تعاون سے قائم کریں جس سے خواتین میں یہ احساس پیداہوگاکہ اَب مردوں کے معاشرے میں اِنہیں تعظیم وتکریم دی جارہی ہے اور اِس طرح ہماری کُل آبادی میں مردوں سے زیادہ تعداد رکھنے والی خواتین میں یہ احساس بھی لازمی طور پر پیدا ہوگاکہ یہ اَب مجبور و بے بس اور لاچار خواتین نہیں رہی ہیں کہ مسائل کی چکی میں پستی رہیں اور یوں ہی پس ماندگی کے باعث اپنی زندگی کی سانس پوری کرکے ملک عدم کو سِدھارجائیں اوراَب اِسی کے ساتھ ہی ہماری خواتین کو اِس بات کا بھی پورایقین کرلیناچاہئے کہ پاکستان کے مرد اِنہیں عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں وہ تودورِ جہالت تھا جب ہمارے یہاں تعلیم عام نہیں ہوئی تھی تو جاہل اور اَن پڑھ مرداپنے آگے عورت کی صلاحیتوں کو زیرسمجھتے اور اِس کی تعظیم وتکریم کرنااپنی توہین سمجھاکرتے تھے مگر موجودہ زمانے میں ایساہرگزنہیں ہے آج ہماری باصلاحیت عورت اپنے ملک میں دنیاکا کونساایک قدیم وجدیدشعبہ نہیں ہے جس میں اِس نے اپنی صلاحیتوں کے لوہے نہ منوالئے ہوں اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ آج جس کا اعتراف مرد حضرات بَرملاکرتے نظرآتے ہیں اور اِس بات کوبھی اپنے کُھلے دل ودماغ سے تسلیم بھی کرتے ہیں کہ ہماری پاکستانی عورت تحمل مزاجی اور صبروبرداشت میں مردوں سے زیادہ بااعتماد ہے اوراپنے حصے میں آنے والے ہر کام میں یکسوئی سے متحرک رہتی ہے اور اِس کی تکمیل کے بعد سُکھ کا سانس لیتی ہے ہمیں یاد پڑتاہے کہ جس زمانے میں صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں صوبائی حکومت کے ماتحت ایک ادارہ کے ٹی سی قائم ہواکرتاتھا جو اَب ماضی کا حصہ بن گیاہے اِس ادارے نے بھی شہرِ کراچی کی خواتین کی سفری سہولیات کے خاطر اپنی چندبسیں اِس مقصد کے لئے مختص کردیں تھیں جس میں ڈرائیور تو مرد ہواکرتے تھے مگر اِس بس میں کنڈیکٹر سمیت دیگر عملہ خواتین پر مشتمل ہواکرتاتھااور یہاں ہمیں اِنتہائی افسو س کے ساتھ یہ کہناپڑرہاہے کہ خواتین کی یہ بس سروس چند ماہ ہی چل سکی اور ایک دن یکدم سے بندکردی گئی اور اِس کے بندہونے کا ادارہ کے ٹی سی اور صوبائی حکومت نے یہ جواز پیش کیاکہ اِس بس سروس سے ادارے کو نقصان پہنچ رہا تھاکیوں کہ اِس بس سروس سے اِن میں تعینات خواتین عملے کی نہ تو تنخواہ پوری ہوپارہی تھی اور نہ ہی ڈیزل اور بسوں کی مینٹیننس کے اخراجات نکل پارہے تھے سو اِن بے مقصد وجوہات کی بنیاد پرخواتین کی اِس بس سروس کو فوری طور پر بندکردیاگیاتھا جس کے بعد خواتین کو اُن ہی بسوں میں سفرکرناپڑاجس میں اِن کے حصو ں میں مردحضرات بیٹھ کر سفرکرتے تھے اور خواتین اپنے حصے میں مردوں کے داخلے پر پابندی لگانے جیسی آواز بھی نہیں اٹھاسکتی تھیں اور پھر تب سے آج تک یہی ہورہاہے گوکہ آج ادارہ کے ٹی سی تو اپنے مالی خسارے اور کرپشن کی وجہ سے ختم ہوگیاہے اور اِس کی بسیں بھی گل سڑ کر شہر کے کباڑخانوں میں کہیں پڑی ہوئی ہوں گیں مگر اِس ادارے کی بڑی اور کشادہ آرسی سی کی بنی عمارتیں اور اِن سے ملحقہ وہ وسیع میدان جہاں اِس ادارے کی بڑی بسیں کھڑی ہواکرتیں تھیں وہ ابھی موجودہ ہیں اور وہ ورکشاپ بھی ایساہی پڑاہے جیسایہ پہلے کبھی ہواکرتاتھا ہاں البتہ! یہ ضرور دیکھنے میں آیاہے کہ آج بعض مقامات پر سندھ حکومت نے پاک رینجرز کے کیمپس اور عارضی طور مختلف اداروں کے دفاتر قائم کردکردیئے ہیں ۔یہاں ہماراکہنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ آج حکومتِ پنجاب نے اپنے یہاں خواتین کے لئے سفری سہولیات میں آسانی پیداکرنے کے لئے جن مخصوص روٹس پر چند خواتین بس سروس کا اجراءکیاہے اَب اِسے جاری رہناچاہئے اور اِن میں دن بدن اضافہ ہوکہیں یہ نہ ہوکہ ادارہ کے ٹی سی کی طرح مختلف نوعیت کے بے مقصد اور بے بنیادوجوہات کی وجہ سے حکومت ِ پنجاب بھی اتناکہہ دے کہ ”ادارے کو خواتین بس سروس سے نقصان پہنچ رہاہے اِس لئے یہ بس سروس بن کی جاتی ہے“ اور خواتین ایک بار پھر اپنے آپ کو مجبور اور لاچار محسوس کریں اور ایک اچھی سفری سہولت سے محروم ہوجائیں ۔اُدھر سعودی عرب سے بھی خواتین کی اہمیت اور احترام کو اُجاگرکرنے سے متعلق ایک خبر یہ آئی ہے کہ سعودی عرب میں خواتین کی ضروری اشیاءکی فروخت کے لئے قائم تمام کاسمیٹکس کی دُکانوں پر مردعملے کی تعیناتی پر نئے سعودی قانون کے تحت پابندی ہوگی جس سے خیال کیاجارہاہے ساڑھے سات ہزار خالص مرد اِس پابندی سے متاثر ہوں گے اور اِس قانون کااطلاق جمعرات پانچ جنوری سے ہوتے ہی چالیس فیصدسعودی خواتین کو آسانی سے روزگار مہیاہوسکے گاایک غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق سعودی عرب میں خواتین کی دکانوں سے مرد ملازمین کو نکالے جانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ”اِس قانون کی منظوری گزشتہ برس سعودی فرمان رواں شاہ عبداللہ کی جانب سے اُس وقت ہی دے دی گئی تھی جب سعودی علماءکرام نے انڈرویئر،بریزئیر اور دیگر ضروری اشیاءکی فروخت کرنے والی دکانوں پر مردعملے کی تعیناتی کو خلاف شریعت اقدام قراردیاتھا اور اَب باقاعدہ طور پر یہ قانون سعودیہ میں ہے اِس پس منظر میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک اسلامی ملک کا اچھااقدام ہے اور اِس کی تائیداور تقلید ہمیں بھی کرنی چاہئے اور اپنے یہاں ایسے ہی اقدامات کرنے چاہئیں جیسے سعودیہ نے کئے ہیں۔ کیاخیال ہے....؟کیاہم اپنے یہاں ایساکرسکتے ہیں یاروشن خیالی کی اُوٹ میں اپنے مقصد رشتوں سے جڑی خواتین کی بے حرمتی کراتے رہیں گے۔(ختم شد)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 904257 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.