اگر کپتان بھی دھوکے باز نکلا؟

حاجی صاحب سے کافی دن بعد ملاقات ہوئی۔ حاجی صاحب کا تعارف ایک بار پھر کرادوں کہ وہ ابھی اپنے آپ کو ”نوجوان“ سمجھتے ہیں، عمر کوئی چالیس کے قریب، دنیا جہاں کے ہر موضوع پر بے تکان بول سکتے ہیں اور خوش قسمتی سے میرے بہت اچھے دوست ہیں، لاہور کے ”جماندرو“ رہائشی ہیں، سونے پر سہاگہ کہ دیہاتی پس منظر ہونے کے اضافے کی وجہ سے غضب کے مہمان نواز ہیں۔ ایک وقت تھا کہ میاں نوازشریف کے انتہائی دلدادہ اور متوالے تھے لیکن جب میاں صاحب اینڈ فیملی رات کے اندھیرے میں ملک چھوڑ گئے تو حاجی صاحب کے لئے دن میں بھی اندھیرے تھے کیونکہ وہ بڑھکیں لگایا کرتے تھے کہ ”میاں ساڈا شیر اے....“ اور شیر کبھی ڈر کر نہیں بھاگ سکتا لیکن جب لاکھوں لوگوں کے ساتھ حاجی صاحب کا دل بھی ”شیر“ کے جانے سے ٹوٹ گیا تو انہوں نے 2008ءکے الیکشن میں میاں صاحب کو ایک آخری موقع دینے کا پروگرام بنایا اور مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو ووٹ دیا لیکن پہلے مرکز میں فرینڈلی اپوزیشن اور بعد میں پنجاب میں (ان کے بقول) کوئی خاص کارکردگی نہ دکھانے کی وجہ سے ان کا دل ایک بار پھر ٹوٹا اور وہ اکثر کہتے پائے جاتے ہیں کہ اب میں کسی سے دھوکہ نہیں کھاﺅں گا اور اچھی طرح ٹھونک بجا کر اپنے ووٹ کا حق استعمال کروں گا۔

چنانچہ اب حاجی صاحب کی زیارت ہوئی تو وہ حسب معمول پہلے تو کچھ دیر گہری سوچ میں غرق رہے۔ میں سمجھ گیا کہ حاجی صاحب کے دماغ میں کوئی کھچڑی پک رہی ہے اور وہ الفاظ کی ترتیب صحیح کرنے میں مشغول ہیں، لہٰذا میں خاموشی سے ان کے بولنے کا منتظر رہا۔ بالآخر حاجی صاحب گویا ہوئے تو یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ کوئی خاص اور اہم فیصلہ کرکے بول رہے ہیں۔ حاجی صاحب کا کہنا تھا کہ یار اس بار تو میرا ووٹ کپتان کے لئے پکا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کا پروردہ ہے اور آپ کے کپتان کے پیچھے بھی وہی ایجنسیاں ہیں جو کبھی آئی جے آئی کی تشکیل کرتی ہیں، کبھی ایم ایم اے کی اور کبھی قاف لیگ کی، حاجی صاحب کاجواب تھا کہ یہ صرف پراپیگنڈہ ہے تاکہ ان لوگوں کو کپتان سے دور کیا جائے جو فوج اور اس کی ایجنسیوں کے سیاسی کردار کے خلاف ہیں، میں نہیں مان سکتا کہ عمران خان جیسا شخص ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن سکتا ہے، میں نے پھر عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ جس طرح کے لوگ دھڑا دھڑ تحریک انصاف میں شامل ہورہے ہیں ان کا بیک گراﺅنڈ دیکھ لیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی کے اشارے پر PTI میں آرہے ہیں اور وہ اشارے ظاہر ہے ایک خاص جانب سے ہی آسکتی ہیں، ایسے ہی اعتراض اٹھانے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ لاہور اور کراچی کے جلسے بھی ایجنسیوں نے ”ارینج“ کئے تھے، حاجی صاحب نے مجھ سے سوال پوچھا کہ کیا تم 30 اکتوبر کو مینار پاکستان گئے تھے یا 25 دسمبر کو کراچی، میرا جواب اثبات میں تھا کہ میں کراچی تو نہیں گیا لیکن 30 اکتوبر کو مینار پاکستان ضرور گیا تھا، کہنے لگے تم کس کے کہنے پر وہاں گئے تھے، میرا جواب تھا کہ میں تو اپنی مرضی سے گیا تھا، حاجی صاحب بولے کہ وہاں تمہیں کوئی اپنا جاننے والا ملا، میں نے کہا کہ بہت سارے لوگ تھے، وہ بولے ان میں سے کون کون ایجنسیوں کے ”پے رول“ پر ہے، میں نے کہا شائد کوئی بھی نہیں۔ حاجی صاحب نے استہزائیہ نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر بولے یار ایک تو مجھے آپ لوگوں کی سمجھ نہیں آتی، پہلے تحریک انصاف میں بڑے نام نہیں تھے تو بھی تنقید تھی اور اب اگر بڑے سیاسی ناموں والے لوگ آرہے ہیں تو بھی لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں، وجہ صرف یہ ہے کہ ”باریوں“ والے کسی تیسرے کو ”باری“ کے لئے آگے بڑھتا دیکھ ہی نہیں سکتے کیونکہ جن لوگوں کو یہ گارنٹی دی گئی تھی کہ ”اگلی“ باری ان کی ہے وہ کیسے یہ برداشت کرسکتے ہیں کہ کوئی ان کی ”باری“ شبخون مارنے کی کوشش کرے۔اور ایک بات مجھے بتاﺅ کہ کیا جاوید ہاشمی، جس نے مشرف جیسے آمر کے دور میں مسلم لیگ (ن) کو زندہ رکھا، جس نے اس دور میں بے تحاشہ ظلم و تشدد بھی برداشت کیا، کیا وہ جاوید ہاشمی بھی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر تحریک انصاف میں شامل ہوا ہے، کیا کوئی ایجنسی جاوید ہاشمی جیسے باغی کو اپنے اشارے پر چلا سکتی ہے؟

حاجی صاحب کہنے لگے یار میری بات غور سے سنو! میرا نظریہ کیا ہے، میں بتاتا ہوں۔ عمران خان میرا نہ تو رشتہ دار ہے نہ ہی دوست اور نہ ہی میں کوئی اس کا دیوانہ ہوں لیکن میں صرف یہ سوچتا ہوں کہ یار اس بار اسے آزما کر تو دیکھ لیں، کوشش توکریں کہ اس ملک کا کوئی نیا کپتان ہو جو ہارنے کے لئے میچ فکس نہ کرے، ذاتی مفادات کے لئے، اپنے کاروبار کو بڑھانے یا صرف موروثی سیاست کےلئے سیاست میں نہ ہو بلکہ اس ملک کے عوام کی بھلائی کے لئے، اس قوم کی عزت کے لئے سیاست کی اس کٹھن وادی میں اترا ہو۔ کیا عمران خان کے لئے دولت، عزت اور شہرت کوئی نئی بات ہے؟ کیا وہ ابھی بھی شاہانہ زندگی بسر نہیں کرتا؟ اگر ساری باتیں سچ ہیں تو اب اسے کس بات کا لالچ ہوگا؟ مجھے کم از کم اتنا پتہ ہے کہ وہ نہ تو لالچی آدمی ہے، نہ خود غرض ہے اور نہ ہی کمینہ، نہ ہی اس پر مالی کرپشن کا کسی قسم کا کوئی الزام ہے اور میرا دل کہتا ہے کہ وہ اگر حکومت بنانے میں کامیاب ہوگیا تو کم از کم مالی کرپشن نہیں کرے گا اور نہ ہی کسی بھی طاقت سے ڈرے گا کیونکہ وہ ایک غیرت مند آدمی ہے۔ میں نے کہا حاجی صاحب آپ کی باتیں شائد ٹھیک ہیں لیکن اگر کپتان بھی دو غلا نکلا، اگر اس نے بھی دھوکہ دے دیا تو؟ بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگے کہ یار ایک بات پر میرا ایمان بڑا پکا ہے کہ جتنی تباہی پاکستان کی ہوچکی ہے اور ہورہی ہے اس سے زیادہ کوئی بھی نہیں کرسکتا، اگر کپتان اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بھی ثابت ہوگیا، اگر اس نے اپنے چہرے پر منافقت کا چہرہ بھی سجایا ہوا ہے تو کم ازکم موجودہ دونوں جماعتوں سے زیادہ برا اس ملک کے ساتھ نہیں کرسکتا، بس اب تم مجھے مزید ورغلانے کی کوشش مت کرو، اگر دھوکہ ہوا بھی تو میرا اور اس قوم کی اکثریت کا آخری دھوکہ ہوگا، اگر کپتان بھی دھوکے باز نکلا تو پھر یقین رکھو کہ پاکستان میں کوئی بھی قابل بھروسہ نہیں ہوگا، یہ بات کپتان کو بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اگر وہ بھی دھوکے باز نکلا تو وہ کسی ایک کا مجرم نہیں ہوگا بلکہ اٹھارہ کروڑ عوام کا مجرم ہوگا، ان کی امنگوں، امیدوں اور آرزوﺅں کا قاتل ہوگا....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222449 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.