ملکی اور غیرملکی قرضہ109 کھرب
84ارب سے بڑھ گیاہے
قرضوں کے بوجھ تلے دبے عجب ملک کی عجب کہانی حکمرانوں کے لئے روٹی، کپڑااور
مکان سب کچھ ہے مگرعوام کے لئے کچھ نہیں کیوں ...؟؟
اِس میں کوئی شک نہیں کہ آج اِس موجودہ صدی میں قرض ایک ایسی لعنت بن گیاہے
کہ اِس لت میں پڑے اشخاص اور اِس میں لپٹی قومیں تباہ ہوگئیں ہیں جس نے بھی
قرض کو اپنا حق جاناوہ کبھی بھی پنپ نہیں سکاہے اِسی لئے توازل سے دانایہی
کہتے آئے ہیں کہ قرض ایک ایساقفس ہے جس میں داخل ہوناآسان اور سُکھ پانے
جتناہے مگر اِس سے باہر نکلنا اِتناہی مشکل ہے جیسے کسی کانٹے دار درخت میں
پھنسے اپنے کپڑے نکالنا اور کتنے بدعقل ہیں وہ لوگ اور اُن ممالک کے حکمران
و سیاست دان جو ادائیگی قرض کے متعلق دل فریب ذرائع آمدنی کا تصورباندھ کر
اپنے غیرضروری اخراجا ت کم کرنے کے بجائے اپنی عیاشیوں اور اخراجات کے لئے
بے دھڑک قرض لیتے ہیں وہ سخت ترین غلطی پرہوتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہوتے ہیں
جواِس بات کو سمجھے بغیر ایساکرتے ہیں وہ ایک نہ ایک دن ترنت آکاش سے زمین
پر بھی ضرورآگرتے ہیں ۔
بزرجمہر کا ایک قول ہے کہ ”میں نے جنگ کے اوزاروں کو استعمال کیااور پتھروں
کو اٹھاکر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے گیامگر قرض سے زیادہ بوجھل میں نے کسی
چیز کو نہیں دیکھا“یعنی قرض کو فرض سمجھ کر اداکرنے والوں کے لئے قرض کا
وزن دنیاکی اُن تمام بھاری بھرکم چیزوں سے بھی کہیں زیادہ ہے جو اپنی ساخت
اور ہیت کے لحاظ سے وزن رکھتی ہیں اور جو قرض لے کر ادانہ کرناچاہئے اُس سے
زیادہ بغیرت اور بدمعاش اِس دنیامیں کوئی نہیں ہے لیور کا کہناہے کہ” قرض
اِنسانوں، قوموں اور ملکوں کے لئے بہت بڑی لاچارگی ہے“ جس نے قرض پر انحصار
کرکے اپنے معاملات چلائے وہ ایک نہ ایک دن پستی میں جاگرتاہے۔اِس سارے پس
منظر میں ہمیں یہ کہنے دیجئے کہ جیسے اِن دنوں ہمارے ملک کے حکمرانوں نے دل
فریب ذرائع آمدنی کا تصور باندھ اپنے غیرضروری اخراجات کو کم کرنے کے بجائے
اپنی عیاشیوں کے خاطر ملکی اور غیرملکی قرضوں کے بوجھ تلے ملک اور قوم کو
جکڑ دیاہے ہم سمجھتے ہیں کہ اَب اِس جنجال کا ازالہ کون اور کیسے کر پائے
گا ...؟کوئی نہیں ہے جو قوم کو اِس سے جھٹکارہ دلوائے یہ وہ مصیبت ہے آج جس
کی وجہ سے ہم لاچارگی سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔
اور ایسے میں ہمارے حکمران ہیں کہ اپنے پرائے سب سے قرض لے کر عیاشیوں میں
مگن ہیں اور قوم ہے کہ اپنے بنیادی حقوق گیس ، بجلی، پانی ، خوراک، اچھی
صحت، بہتر تعلیم اوراچھے علاج ومعالجہ سمیت اچھی سفری سہولیات سے بھی محروم
ہے اور اِس پر حکمرانوں کا یہ دعوی ٰ ہے کہ اُنہوں نے اپنے چار سالہ دور
اقتدار میں ملک اور قوم کے لئے اتناکچھ اچھاکردیاہے کہ قوم اِنہیں آئندہ
انتخابات میں دوبارہ اقتدار میں لائیں گے جبکہ آج حقیقت یہ ہے کہ ملک اور
قوم کی خدمت کادعویٰ کرنے والے حکمرانوں نے ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کے
ریلیف کے خاطر ایک ڈھلے کا بھی کام نہیں کیاہے یقین نہیں آتاتو حکمران عوام
میں آکرپوچھ لیں کہ عوام اِن کی چار سالہ کاکردگی اور کارناموں سے کتنے خوش
یا ناراض ہیں ...اِس پر جب کوئی لکھاری حکمرانوں کو اِس بابت کوئی تجویز دے
تو حکمران کہہ اٹھتے ہیں کہ آپ لوگ ایک صحافی کی حیثیت سے ہماری حکومتی
کارکردگی کا موازنہ مت کریں بلکہ ہماری سیٹ پر بیٹھ کر دیکھیں کہ ہم نے
اپنے ملک اور عوام کے لئے کیا کیا اچھے کارنامے نہیں کردیئے ہیں جرنلسٹ بن
کر اگر کوئی ہماری حکومت کی چارسالہ کارکردگی اور کارناموں کا جائزہ لے گا
تو وہ سوائے تنقیدیں کرنے کے اور کچھ نہیں کرسکے گا کیوں کہ جرنلسٹ کا تو
کام ہی حکومتوں پر تنقیدیں کرناہے ۔
بہرحال اگر ہم اِس بحث میں پڑگئے تو ہم آج کے اپنے موضوع سے بھی بھٹک جائیں
گے تو ہم آتے ہیں اور اپنے اصل نقطے کی طرف جو ملکی اور غیرملکی قرضوں سے
متعلق ہے اِس حوالے سے اطلاع ہے کہ گزشہ دنوں محمدریاض ملک کے سوال کے
تحریری جواب میں وزیرخزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے اِس بات کا اعتراف کرتے
ہوئے قومی اسمبلی کو کچھ یوں بتایاکہ”پاکستان نے ملکی وغیرملکی قرضوں کی مد
میں 109کھرب 84ارب روپے زائد اداکرنے ہیں رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی
میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور دیگر بینکوں سے223ارب روپے اُدھار کے طور پر
لئے گئے ہیں وزیر خزانہ نے بتایاکہ پاکستان نے اکتوبر2011کے اختتام تک
62کھرب 32ارب 90کروڑ روپے ملکی قرضوں کی مد میں اداکرنے ہیں اسی طرح 54ارب
90کروڑ ڈالر کا غیر ملکی قرضہ اداکرناہے پاکستان نے مجموعی طور پر
10.98ٹریلین روپے سے زائد کا قرضہ اداکرناہے اور اُنہوں نے قرضوں کی وصولی
کے معاملے میں موجودہ حکمرانوں کے کارنامے گنواتے ہوئے بتایاکہ حالیہ برس
میں 217ارب 60کروڑ روپے کا ملکی جبکہ 57ارب 45کروڑ روپے کا غیر ملکی قرضہ
حاصل کیااِسی طرح کشور زہرہ کے سوال کے تحریری جواب میں وزیرخزانہ کے مطابق
جولائی ستمبر2011کے عرصے کے دوران بینکنگ سیکٹر سے119ارب روپے مستعارلئے
گئے اِسی طرح مذکورہ عرصہ کے دوران اسٹیٹ بینک سے 104ارب روپے اُدھارکے طور
پر حکومت نے اپناسینہ تان کر اور اپنے ہاتھ پھیلاکر لئے ہیں اِس کے علاو ہ
وزیرخزانہ نے قومی اسمبلی کو حکومتی قرضوں کے حوالے سے جو بتایاوہ یہ ہے
اُنہوں نے کہاکہ موجودہ مالی سال کے بجٹ خسارے کو جی ڈی پی کے 5.9فیصدکے
مقابلے میں 4.7فیصدرکھنے کا تخمینہ ہے ۔
جبکہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہاکہ سال 2010میں جی ڈی پی پر قرض کے بوجھ کا
تناسب 60فیصدتھاحکمرانوں کی ناقص منصوبہ بندی اور حکمت ِ عملی کی وجہ سے
نومبر2011ءکے اواخرتک جس کا تناسب صرف55.7فیصدرہاتھا جبکہ اُنہوں نے اُمید
ظاہر کرتے ہوئے قومی اسمبلی کو تبایاکہ مالی سال 2012ءکے اختتام تک یہ شرح
زیادہ سے زیادہ58فیصدتک ہو جائے گی ۔اور آخر میں اپنی وزارت میں مہارت
رکھنے والے ہمارے وزیرخزانہ عبدالحفیظ شیخ نے شیخ روحیل اصغر کے سوال کے
تحریری جواب میں کہاکہ مالیاتی ذمہ داری اور تجدید قرضہ ایکٹ 2005ءکے حکومت
کی قرضوں کے حوالے سے حد 60فیصد کی ہے او راُنہوں نے روحیل اصغر کو بھی یہی
اُمیددلوائی کہ رواں مالی سال کے اواخر تک جی ڈی پی پر قرض کے بوجھ کا
تناسب 58فیصدکرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
اِس ساری صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد ہم اِس نتیجے پر پہنچ پائے ہیں کہ
ہمارے یہ جمہوری حکمران جواپنے ملک کے غریب عوام کے لئے روٹی، کپڑااور مکان
کا نعرہ لے کر اقتدار میں آئے تھے اِنہوں نے اپنے چار سالہ دورِ اقتدار میں
ملکی اور غیرملکی قرضوں کے بدولت اپنے لئے تو روٹی ، کپڑااور مکان کا
بندوبست کرلیامگر اِس سارے عرصے میں اِنہوں نے قوم کو قرضوں میں جکڑکرروٹی
کپڑااور مکان سے محروم کردیاہے اَب اِن سے کوئی یہ پوچھے اِنہوں نے اپنے
پرائے سب سے جھولیاں پھیلاپھیلاکر خوب قرض لے لیااَب اِس کی ادائیگی کون
اور کس طرح کرے گا..؟؟ اور اِسی کے ساتھ ہی آخر میں ہم یہ کہہ کراجازت
چاہیں گے کہ کیایہ ہمارے عجب ملک کی عجب کہانی نہیں ہے کہ حکمرانوں کے لئے
روٹی ، کپڑااور مکان تو سب کچھ ہے مگر ہمارے غریب ملک کے مفلوک الحال عوام
کے لئے یہ سب کچھ کیوں ناپیدکردی گئیں ہیں کیوں ہے کوئی جو ہمارے اِس سوال
کا جواب دے سکے....؟؟ |