جے پور میں20-24جنوری کے دوران
منعقد لٹریری فیسٹیولDSC Jaipur Literature Festival میں گستاخ رسول سلمان
رشدی کے آنے پرمسلم تنظیموں میں شدید بے چینی پائی جا رہی ہے جبکہ اس
فیسٹول میں امریکی سیلی بریٹی Oprah Winfrey کی ممکنہ شرکت نے اغیار کی
چالوں کو مزید پرکشش بنادیا ہے۔ اس سلسلہ میں رضا اکیڈمی کے جنرل سکریٹری
الحاج محمد سعید نوری نے حکومت ہند کے رویہ پر حیرت ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ
مسلمانوں کے جذبات سے آخر یہ کیوںبار بار کھلواڑ کرتی رہتی ہے کبھی بدنام
زمانہ خود ساختہ مصنفہ تسلیمہ نسرین کی میزبانی کرکے اور کبھی دوسرے اسلام
دشمن شخص کو ملک میں بلا کر مسلمانوں کو پریشان کیا جاتا ہے۔ فی الحال
گستاخ رسول سلمان رشدی کو ہندوستان میں بلایا جا رہا ہے۔ ہم حکومت ہند سے
مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کے یہاں آنے پر روک لگائے ۔انہوں نے کہا کہ اس بدبخت
کافر کے خلاف ہم بہت جلد حکومت کواسکا ویزا منسوخ کرنے کیلئے درخواست دیں
گے اور احتجاج کریں گے ۔ مسلم اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن ایم ایس او آف انڈیا کے
قومی جنرل سکریٹری ایڈووکیٹ شاہنواز وارثی نے تشویس ظاہر کرتے ہوئے ریاستی
حکومت و مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ گستاخ رسول سلمان رشدی کے ویزے کو
منسوخ کرکے ہندوستان میں اس کے آنے پر روک لگائے انہوں نے مزید کہا کہ اس
کے یہاں آنے سے سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں گے ۔ اس لئے
کہ وہ یوروپ ا ورامریکہ کے شہ پر ہمیشہ نبی اکرم ﷺ کی گستاخی کرتا آیا ہے
شیطانی آیات ناول لکھ کر اس نے اسلام اور بانی اسلام کا مذاق اڑیا ہے
لہذامسلمان ایسے شخص کو اپنے ملک میں کبھی برداشت نہیں کریں گے ۔
|
|
اس سے قبل گذشتہ دنوں اخبارات میں یہ خبر بڑے اہتمام سے شائع کی گئی کہ
تسلیمہ کے خلاف مہاراشٹر کے48پولیس اسٹیشنوں میں شکایت درج کرائی گئی جبکہ
ان میں سے چند تھانوں کے افسران کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس کوئی شکایت درج
نہیں کرائی گئی ۔چند افراد پر مشتمل ایک وفد نے ملاقات کی تھی جسے مشورہ
دیاگیا کہ سرکاری سطح سے اس بات کو اٹھائیں تاکہ اسے بڑے پیمانہ پر اٹھایا
جاسکے۔خود تسلیمہ بھی حصول شہرت کے اس حسین موقع کو رائیگاں نہیں جانے دینا
چاہتیںچوں کہ اس سے قبل ہی وہ ادب کے نام پر اپنے تمام ہفوات قارئین کے
حوالہ کرچکی ہیں اور اب ان کی جھولی ان ہفوات سے بھی خالی ہے جن سے نئی نسل
اورپرستاران ہوس جھوٹی لذتوں سے شادکام ہوا کرتے تھے۔اب وہ بھی اس حقیقت سے
بخوبی واقف ہیں کہ انہیں مفت کی شہرت بہر حال مسلمانوں کو ٹھیس پہنچاکر ہی
مل سکتی ہے۔چوں کہ اگر وہ عیسائی ویہودی اعتقادات کو زک پہنچائیں گی تو ان
کا حقہ پانی تو بند ہوگا ہی ان کی زندگی کے لالے بھی پڑ جائیں گے۔ جہاں تک
ہندوازم کی مخالفت کی بات ہے تو اس وقت ان کا واحد ٹھکانہ ہندوستان کی سر
زمین ہے۔ اگرانہیں یہاں رہنا ہے تو ہندوتو کو خوش رکھنا ہی ہوگاجس کا واحد
ذریعہ یہی ہے کہ قرآن وصاحب قرآن کا وہ مذاق اڑاتی رہیں۔ اس طرح یہ کہا
جاسکتا ہے کہ وہ اپنے مقاصد میں سو فی صد کامیاب ہیں۔اس سلسلہ میں یہ بھی
قابل غور ہے کہ ان کی زبان کی ترسیل جتنی جلدی ہندوستانیوں میں ہوگی اتنی
آسانی سے عربوں میں نہیں ہوسکتی اس لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ ہندوستانی
مسلمانوں کے سر پر مسلط رہیں اور وقتا فوقتا انہیں ان کی اوقات یاد دلاتی
رہیںتاکہ ان کے مغربی آقاﺅں کے ذریعہ ان کی دال روٹی کا انتظام ہوتا رہے
اور مسلمان مرغ بسمل کی طرح بے بسی میں تڑپنے کے علاوہ کچھ بھی نہ
کرسکیں۔یہ تمام باتیں تو سمجھ میں آتی ہیں ،ان کے برعکس یہ سمجھ میں نہیں
آتا کہ مسلمان انہیں مفت کی شہرت طشت میں سجا کر پیش کرنے کیلئے کیوں اتاﺅلے
ہوتے ہیں ؟وہ توبیان دے کر خاموش ہوجاتی ہیں اور شاید مطمئن ہوں گی کہ اب
آگے کاکام مسلمان کردیں گے ۔ مسلمان ہندوستان کے طول وعرض میں ان کے خلاف
جھنڈے لے کر نکل جاتے ہیں خواہ ان کے احتجاج اور مظاہروں کا مثبت فائدہ کچھ
نہیں ہوتا ۔محض اردو اخبارات کے صفحات یا شہروں کی دیواریں سیاہ ہوجاتی
ہیں۔یہ بھی قرین قیاس ہے کہ چند مسلم لیڈران خود ہی ان مواقع کے متلاشی
رہتے ہوں گے تاکہ انہیں بھی بیان جاری کرنے اور ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے
کا موقع ملتارہے جس سے ان کا بھی ملت کے بہی خواہوں میں شمار ہوتا
رہے۔تسلیمہ نے اس مرتبہ مسلم عورتوں کو بھونڈا سا ایک مشورہ دیا تھا بلکہ
خدا تعالٰی کی ذات عالی کو بھی نہیں بخشا ۔اس وقت سے تادم تحریر مخالفتوں
کا بازار گرم ہے۔
|
|
واضح رہے کہ بیشتر انگریزی اخبارات و رسائل اسلام کے خلاف زہر اگلتے رہتے
ہیں۔ آج تک ان کے خلاف حکومت یا کسی ادارہ نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔
یہ لوگ مغرب میں سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کی غیر معمولی پذیرائی دیکھ
کر ایسے مضامین لکھتے ہیں اور اس کی آڑ میں بے پناہ مراعات حاصل کرتے
ہیں۔افسوس کہ ایسے لوگ صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ قادیانی جماعت کے
دوسرے خلیفہ مرزا محمود نے 1952میں اپنی جماعت کو ہدایت کی تھی کہ ہمارا
تناسب فوج میں دوسرے محکمہ جات سے بہت زیادہ ہے، لیکن پھر بھی ہمارے حقوق
کی حفاظت پوری طرح سے نہیں ہوسکتی۔ اس لیے باقی محکمہ جات پولیس، ریلوے،
فنانس، اکاﺅنٹس، کسٹمز، انجینئرنگ وغیرہ تمام محکموں میں ہمارے آدمیوں کو
جانا چاہئے۔ اس تحریک کو آگے بڑھاتے ہوئے 10 فروری 2006کو لندن کی قادیانی
عبادت گاہ میں قادیانی جماعت کے پانچویں خلیفہ مرزا مسرور نے دنیا بھر کے
قادیانیوں کو ہدایت کی کہ وہ صحافت کا شعبہ اپنائیں۔ اس تحریک کا نتیجہ یہ
نکلا کہ انگریزی صحافت میں زیادہ تر قادیانیوں کا غلبہ ہے جواسلام کی
نظریاتی بنیادوں کو منہدم کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ کوئی دن خالی نہیں جاتا
جب کسی نہ کسی انگریزی اخبار میں آئین میں قادیانیوں کو تمام سیاسی جماعتوں
کی طرف سے متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جانے والی ترمیم واپس
لینے، قانون ناموس رسالت اور حدود قوانین ختم کرنے، آئین سے قراردادِ مقاصد
کو کالعدم قرار دینے، ناچ گانے کو سرکاری سرپرستی دینے، حق تعلیم کی آڑ میں
دینی مدارس پر پابندی لگانے، اسرائیل کو تسلیم کرنے، قادیانیوں کو قومی
ہیرو قرار دینے، تعلیمی نصاب سے اسلامیات کا مضمون ختم کرنے، بسنت اور
ویلنٹائن ڈے قومی سطح پر منانے،ا سکولوں میں فیشن شو کرنے، نیو ائیر نائٹ
منانے، گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والے لڑکے لڑکی کو قانونی تحفظ دینے،
اسقاط حمل کی اجازت دینے، کنڈوم کلچر کو فروغ دینے، شریعت اسلامیہ کو
ناقابل عمل قرار دلوانے، جہاد کو دہشت گردی قرار دینے، ہم جنس پرستی کو
فروغ دینے، طوائفوں کو جنسی ورکر قرار دینے، مشترکہ خاندانی نظام کو سبوتاژ
کرنے، شراب پر پابندی ہٹانے، عارضی شادی کی اجازت دینے، بیہودہ فلموں کی
نمائش پر پابندی ہٹانے، آئین سے اسلامی دفعات ختم کرنے، مردوں کی دوسری
شادی پر پابندی لگانے،جعلی کرنسی عام کرنے، ایٹمی پروگرام ختم کرنے کے بارے
میں کوئی نہ کوئی اسٹوری یا مضمون شائع نہ ہوا ہو۔
قادیانی اخبارات و جرائد پر شعائر اسلامی استعمال کرنے کی پابندی
اورقادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دئے جانے کے باوجود قادیانی مسلسل
شعائر اسلامی استعمال کرتے ہیں۔ غیر مسلم ہونے کے باوجود اپنی عبادت گاہ کو
مسجد، مرزا قادیانی کو نبی اور رسول، مرزا قادیانی کی بیوی کو ام المومنین،
مرزا قادیانی کے دوستوں کو صحابہ کرام، قادیان کو مکہ مکرمہ، ربوہ کو مدینہ،
مرزا قادیانی کی باتوں کو احادیث مبارکہ، مرزا قادیانی پر اترنے والی نام
نہاد وحی کو قرآن مجید اور محمد رسول اللہ سے مراد مرزا قادیانی لیتے ہیں۔
چنانچہ 26 اپریل 1984 کو پاکستانی حکومت نے مسلمانوں کے پرزور مطالبہ پر
امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا جس میں قادیانیوں کو شعائر اسلامی کے
استعمال سے قانوناً روکا گیا۔ اس آرڈیننس کے نتیجہ میں تعزیرات پاکستان کی
دفعہ 298/B اور 298/C کے تحت کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہلوا سکتا،
اپنے مذہب کو اسلام نہیں کہہ سکتا، اپنے مذہب کی تبلیغ و تشہیر نہیں کر
سکتا اور شعائر اسلامی وغیرہ استعمال نہیں کر سکتا۔ خلاف ورزی کی صورت میں
وہ 3 سال قید اور جرمانہ کی سزا کا مستوجب ہوگا۔ قادیانیوں نے اپنے خلیفہ
مرزا طاہر کے حکم پر آرڈیننس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پورے ملک میں شعائر
اسلامی کی توہین کی اور آرڈیننس کے خلاف ایک بھرپور مہم چلائی۔ جس کے نتیجہ
میں پاکستان کے اکثر شہروں میں ہی نہیں بلکہ2008کے دوران ہندوستان کی ممبئی
میں بھی لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہوئی۔پاکستان کے سپریم کورٹ نے اپنے
تاریخی فیصلہ ظہیر الدین بنام سرکار (1993 SCMR 1718) میں قرار دیا کہ کوئی
قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہلوا سکتا اور نہ اپنے مذہب ہی کی تبلیغ کر
سکتا ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں وہ سزا اور جرمانے کا مستوجب ہوگا۔ یہ بھی
یاد رہے کہ یہ جج صاحبان کسی دینی مدرسہ یا اسلامی دارالعلوم کے استاد نہیں
تھے بلکہ انگریزی قانون پڑھے ہوئے تھے۔ ان کا کام آئین و قانون کے تحت
انصاف مہیا کرنا ہوتا ہے۔ فاضل جج صاحبان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قادیانی
اسلام کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ دھوکہ دینا کسی کا بنیادی حق
نہیں ہے اور نہ اس سے کسی کے حقوق یا آزادی ہی سلب ہوتی ہے جبکہ ’جوشخص
بلحاظ اسم مسلمان ہو اور خدا تعالیٰ اور اس کے برگزیدہ پیغمبروں اور نبی
آخر الزماں فخر موجودات اور محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی
ہنسی اڑاتا ہو ان کے بارے میں استہزائیہ انداز اختیار کرتا ہو‘ جو ازواج
مطہرات کی شان میں گستاخی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے
میں نازیبا الفاظ کا استعمال کرتا ہو اورقرآن مجیدکے بارے میں یہ کہتا ہو
کہ یہ کوئی تاریخ نہیں فقط ناول ہے ،اور اک دیوانے شخص کا خواب ہے، جسے
کہانی کا رنگ دیا گیا ہے تو ایسے شخص یعنی سلمان رشدی ملعون کیلئے
علماءکرام کا فتویٰ جاننا چاہئے کہ جو آدمی (کافر ہو یا مسلم )سیّد الاولین
وآلاخرین، شفیع المذنبین ، رحمة للعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر
ہنسی اڑاتا ہے، یا ان کی سیرت و زندگی کے کسی گوشے کے بارے میں استہزائیہ
انداز اختیا رکرتاہے، یا ان کی توہین و تنقیص کرتاہے یا ان کی شان میں
گستاخی کرتاہے،یا ان کو گالی دیتا ہے، یا ان کی طرف بری باتوں کو منسوب
کرتا ہے یا آپ کی ازواج مطہرات اور امّہات المومنین (رضی اللہ عنہا) کو
بازاری عورت اور طوائفوں کے ساتھ تشبیہ دیتاہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کرتاہے اور قرآن مجید کو ایک
دیوانہ اور مجنون آدمی کا خواب بتاتا ہے، یا ایک ناول اور کہانی سے تعبیر
کرتاہے تو وہ آدمی سراسر کافر، مرتد، زندیق اور ملحد ہے۔ مشہور قول کے
مطابق اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ اور جو اس کے کفر میں شک کرتاہے وہ
بھی کافر ہے اور یہ ائمہ اربعہ کا مسلک ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے۔
یہ بات اہل دنیا کے سامنے ظاہر ہے کہ ملعون سلمان رشدی نے حالیہ
ناول’شیطانی آیات‘ The Satanic Versesکے علاوہ ’مڈنائٹ چلڈرن‘ اور ’شیم‘
میں بھی شان رسالت میں دریدہ د ہنی اور ذہنی خباثت کی بدترین مثال پیش کی
ہے۔ تفصیل کیلئے ’انڈیا ٹوڈے‘ستمبر1988کی اشاعت میں موجودہے۔اور مزید اس
کتاب کو متعدد ممالک سے شائع کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے تاکہ دنیا میں
فساد پھیلایا جائے اور دین اسلام کو بدنام کیا جائے، تاریخ کو مسخ کیا جائے،
ناپختہ اذہان کو اسلام سے برگشتہ کیا جائے اور مسلمانوں کے دل و جگر پر
تیشے چلائے جائیں اور تلاش حق میں دامن اسلام کی طرف بڑھنے والے سادہ دل
انسانوں کو اسلام اور مسلمانوں سے بد ظن کیا جائے۔ لہٰذا یہ شخص اگر پہلے
سے مسلمان تھا تو اب مرتد ہوگیا ہے اور ارتداد پر اصرار کرنے کی وجہ سے
ملحد اور زندیق ہے جس کی توبہ کا کچھ اعتبار نہیں ۔دنیا کے تمام مسلمانوں
کا عقیدہ اور ایمان ہے کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور
رسول ہیں، تبلیغ دین اور اشاعت حق میں بالکل امین اور حق گو ہیں اور اس
منصب کو بالکل صحیح صحیح طریقہ سے انجام دینے والے ہیں اور دین اسلام کی
تکمیل فرمادی گئی ہے اس میں کسی قسم کی کوتاہی اور خامی نہیں ہوئی ہے اسی
طرح قرآن مجید کو اللہ پاک کا کلام سمجھتے ہیں۔قرآن کو غیر اللہ کا کلام
کہنا سراسر کفر ہے۔ اسی لئے جب کفار مکہ نے قرآن کے کلام ’انسانی ‘ ہونے کا
دعویٰ کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے جواب میں یہ چیلنج دیا کہ اگر قرآن اللہ
کا کلام نہیں ہے اور غیر اللہ کا کلام ہے تو تم اور تمہارے سارے دوست احباب
اکھٹے ہوکر قرآن کی ایک چھوٹی سی سورت جیسی کوئی سورت بنا لاؤ اگر تم سچے
ہو لیکن اب تک کوئی نہ بنا سکا نہ تا قیامت بنا سکے گالیکن شاتم رسول سلمان
رشدی نے لفظ Mahoundکی آڑ لے کر یہ تاثر دیا ہے کہ ’حضور سرور کائنات صلی
اللہ علیہ وسلم میں فرشتے اور شیطان کی آواز میں تمیز کرنے کی اہلیت نہ تھی‘
اور یوں کلام الہٰی کو جو حضرت جبرائیل کی وساطت سے نازل ہوا ہے، نعوذ
باللہ شیطانی کلام ظاہر کرنے کی گستاخانہ مکروہ اور شیطانی جسارت کی ہے۔ ان
عبارات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ سلمان رشدی قرآن شریف کو اللہ کا کلام
ماننے کیلئے تیار نہیں ہے اور جو قرآن کو اللہ کا کلام نہیں مانتا وہ بد
ترین کافر ہے اس قسم کے کافروں کو قتل کرنا واجب ہے جیسا کہ اوپر گذرا
ہے۔تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی
دیتا تھا اس کو قتل کردیا جاتا تھا جیسا کہ کعب بن اشرف، یہودیہ عورت اور
قبیلہ خطمہ کی عورت کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے کی وجہ
سے اور اسلام کی مخالفت میں سرگرم عمل رہنے کی وجہ سے قتل کردیا گیاتھا۔اسی
طرح حضرت کعب بن زہیر عہد نبوی کے ایک نامور شاعر تھے، ابتداءمیں وہ اسلام
کی مخالفت میں سرگرم رہے حتی کہ ہادی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی’ہجو‘میں
کچھ شعر تک کہہ دیئے، معاندانہ کاروائیوں اور ہجو گوئی کی پاداش میں بارگاہ
رسالت سے ان کے واجب القتل ہونے کا اعلان کردیا گیا تھا جبکہ سلمان رشدی نے
صرف سب وشتم پر بس نہیں کیا بلکہ اس نے اسلام ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم ،
امّہات المومنین اور قرآن مجید کے بارے میں بھی ہر قسم کی گستاخی کرنے میں
کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
دوسری جانب ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کا نظریہ ہے کہ مسلمانوں کو اتنے بڑے
معاملے کو انفرادی طور پر نہیں اٹھانا چاہئے بلکہ اتحاد کی قوت مجتمع
کرکے،غیر مفاد پرست علما کا ایک پینل بناکراور اس کے تحت ان کی مخالفت کرنی
چاہئے اور ایسے افراد کو بھی اپنے احتجاج میں شامل کرنا چاہئے جو سرکاری
سطح پر اثرورسوخ رکھتے ہوں تاکہ حکومت ان مطالبات پر غور کرے اور دریدہ
دہنوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے ۔جس ڈھب پر اب تک تسلیمہ نسرین ،سلمان
رشدی اور ان جیسے بے شمار لوگوں کے خلاف احتجاج کرتے آئے ہیں، وہ موثر
طریقہ کار ہے ہی نہیں۔اس سے خود مسلمانوں کا خسارہ ہوتا ہے اور ایک آدھ
ناخوش گوار واقعہ کے رونما ہونے کی وجہ سے پوری ملت بھی بدنام ہوجاتی
ہے۔اگرمذاہب کے خلاف دریدہ دہنی کی روک تھام کیلئے بین مذاہب کوئی موثر
کوشش ہوسکتی ہے تو اسے بھی آزمایاجانا چاہئے۔کیا مسلم طبقہ نے روس میں گیتا
کے خلاف تحریک میں بردران وطن کی آواز میں آواز نہیں ملائی؟ کیا قومی سطح
پر کیا گیا اجتماعی احتجاج بے معنی رہا ؟اس زوال آمادہ زمانے میں بھی تمام
مذاہب کے ماننے والوں میں ایسے افراد ضرور ہیں جو کسی بھی مذہب کے خلاف ایک
حرف سننے کے قائل نہیں ہیں۔اس پہل سے مسلمانوں کی سعی اصل معنی میں رنگ
لائے گی اور امت مسلمہ اپنے مقاصد میں بھی کامیاب ہوگی۔ اس وقت اپنے مسائل
کی صلیب انفرادی طور پر اٹھانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔اس وقت ہر سطح پر
اتحاد کی ضرورت ہے۔مسلمان کب تک غیر موثر طریقہ کا ر کو اختیار کرکے شر
پسند عناصر کے مقاصد کے حل کا غیر شعوری حصہ بنتے رہیں گے۔تھانوں کا چکر نہ
لگا کر انصاف پسند لوگ سونیا گاندھی اور وزیر اعظم سے مداخلت کا مطالبہ
کریں اور دوبہ دو گفتگو کریں کہ ہمارے مسائل حل کریں یا ہمارے پاس ووٹ
کیلئے نہ آئیں۔تسلیمہ نسرین جتنی شہرت اپنی تحریروں اور اپنے اسلوب سے حاصل
نہیں کرسکیں اس سے زیادہ ہم نے ان کی مخالفت کے ذریعہ انہیں شہرت دی ہے۔اگر
مسلمان متحد ہوکر ان کی مخالفت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو بہتر یہ ہے
کہ اب ہم ان کے معاملہ کو اللہ کے حوالہ کردیں اور ان کے بیانات کو پاگل کی
بڑ سمجھ کر ان پر کان ہی نہ دھریں کہ جس چیز کا تذکرہ ختم ہو جاتا ہے وہ
چیز خود ہی ختم ہوجاتی ہے۔ |