امام غزالیؒ سے منسوب ایک حکایت
میں تحریر ہے کہ کسی شخص کے پاس ایک گائے تھی۔ وہ روزانہ اُس کے دودھ
میںپانی ملا کر بیچا کرتا تھا۔اُس کے بیٹے نے اُسے منع کیا کہ اے ابا جان
ایسا مت کیا کریں۔ مگر وہ نہ مانا اور ایسا کرتا رہا۔ قدرت کی کرنی ایسی
ہوئی کہ ایک دن سیلاب آیا اور گائے کو بہا کر ساتھ لے گیا۔وہ شخص زار و
قطار رونے لگا تو اُس کے بیٹے نے کہا”ابا جان مت روئیں کیونکہ وہ پانی جو
آپ دودھ میں ملا کر فروخت کیا کرتے تھے آج جمع ہو کر آیا اور گائے کو بہا
کر لے گیا۔“
قارئین! یہ ملک جس میں میں آپ اور ہم سب رہتے ہیں بلاشبہ ایک جادونگری ہے۔
ایک ایسی جادونگری کہ جہاں پیچھے مڑ کر دیکھنے والا ہر ذی شعور انسان حیرت
سے پتھر بن جاتا ہے۔ 1947ءسے شروع ہونے والے سفر سے لے کر 2012ءتک دیکھ
لیجئے کہ اس ملک نے اور ہم نے کیا کیا دیکھا ہے۔یہاں ہم نے اس ملک کے بانی
قائدِ اعظم محمد علی جناح کو ایک خراب ایمبولنس میں زندگی کی آخری سانسیں
لیتے ہوئے دیکھا۔اس ملک میں ہم نے راولپنڈی لیاقت باغ کے مقام پر جسے پہلے
کمپنی باغ بھی کہا جاتا تھا وہاں نواب زادہ لیاقت علی خان کو گولیاں کھا کر
شہید ہوتے ہوئے دیکھا۔اس ملک میں ہماری نظر سے وہ مفلوج انسان بھی گزرتا ہے
جو اپنے روز و شب کے معمولاتِ زندگی کے لیے بھی سہاروں کا محتاج تھا اُسے
اس ملک کا سربراہ بنا دیا گیا۔اس ملک میں ہم نے شراب و شباب کے رسیا لوگوں
کوفوجی وردی سمیت ملک کے اقتدار پر قابض ہوتے ہوئے بھی دیکھا اور 1971ءمیں
تو ہم نے دنیا کی اس سب سے بڑی اسلامی سلطنت کے دو ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھے
اور بنگال میں جنرل نیازی کو ہتھیار ڈالتے ہوئے بھی دیکھا۔بنگال جہاں کا
جادو اک جہان میں مشہور ہے اُس جادو نگر ی میں پاکستان کا مطلب کیا کے نعرے
کو ہم نے ہند کی سازشوں کی نذر ہوتے ہوئے دیکھا۔ہم نے ذوالفقار علی بھٹو کا
عروج پر پہنچنے والا سورج بھی دیکھا اور زوال کی طرف بڑھتا ہوا وہ لمحہ بھی
دیکھا کہ جب کوئے یار سے سوئے دار کا مرحلہ طے ہوا۔ہم نے اسلام کے نام پر
اس ملک میں دس سالہ طویل وہ مارشل لاءبھی دیکھا کہ جس کے دوران انکل سام کے
سرمائے سے روس کے خلاف ”مجاہدین“ کا ایک لشکر تیار کیا گیا ۔وہ لشکر بعد
میں ہم نے انکل سام ہی کے منہ سے ”بنیاد پرست القاعدہ اور طالبان“ کے
عنوانوں سے بدنام ہوتا ہو ا بھی دیکھا۔اس ملک میں ہم نے جمہوریت کی بحالی
کے بعد تبدیل ہوتی ہوئی اور بساطیں لپٹتی ہوئی چار حکومتیں بھی دیکھیں۔
قارئین ! اس ملک میں ہم نے 1947ءمیں قیامِ پاکستان کے بعد آنے والا خوشی کا
وہ عظیم لمحہ بھی دیکھا کہ جب چاغی کی پہاڑیاں سفید ہو گئیں اور یہ ملک
دنیا کا پہلا اسلامی جوہری ملک بن گیا۔ہم نے ایٹمی دھماکے کرنے والے وزیر
اعظم کی سزا بھی دیکھی اور اقتدار پر قبضہ کرنے والے فوجی ڈکٹیٹر کی جفا
بھی دیکھی جس نے عصرِ حاضر کے اُمتِ مسلمہ کے سب سے بڑے محسن ڈاکٹر عبد
القدیر خان جوہری سائنسدان کو ملکی مفاد کی خاطر دھوکہ دے کر ناکردہ جرم کا
اقرار کروایا اور پابندِ سلاسل کر دیا۔
قارئین!ہم نے اسی ملک میں بھٹو شہید کی بیٹی بےنظیر کو نواب زادہ لیاقت علی
خان کے ہی مقامِ قتل پر شہید ہوتے ہوئے دیکھا اور اُس کے بعد ان چار سالو ں
میں وہ سب کچھ دیکھ لیا کہ اب شائد دیکھنے کی سب حسرتیں ختم ہو چکی
ہیں۔”کھپے والی سرکار “نے بے نظیر بھٹو شہیدکے نام پر اقتدار حاصل کیا اور
بی بی شہید ہی کے قاتلوں کو آج تک نہ پکڑ سکی۔ یہ حکومت کرپشن ، نااہلی اور
بددیانتی کے تمام ریکارڈ توڑ چکی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق 2008ءسے قبل
پانچ افرا دپر مشتمل ایک خاندان پانچ ہزار روپے سے آٹھ ہزار روپے کی آمدن
میں اپنا گزارا کر لیا کرتا تھا۔اب 15000روپے سے کم گزارا ناممکن ہو چکا
ہے۔اسی لیے تو راقم گزشتہ روز اپنے دوست ڈاکٹر سی ایم حنیف کے ساتھ بیٹھا
تھا کہ انہوں نے اچانک کسی سے کہا ”یہ دیس اک جادونگری ہے“ اس پر راقم نے
ایک چھوٹی سی نظم لکھی جو پیشِ خدمت ہے۔
کہیں آنسو ہیں کہیں نالے ہیں
یہ رستے دیکھے بھالے ہیں
کہیں دن ہیں رات سے اندھیارے
کہیں خوف و یاس کے جالے ہیں
ہر سر پہ لرزتی پگڑی ہے
یہ دیس اک جادونگری ہے
زردار یہاں کے چور ہوئے
یہاں چوروں پر بھی مور ہوئے
نہ ظلم تھما نہ راہزنی
یہ اور ہوئے کچھ اور ہوئے
ظالم کی لاٹھی تگڑی ہے
یہ دیس اک جادونگری ہے
قارئین سپریم کورٹ آف پاکستان نے NROعمل در آمد کیس کا فیصلہ بظاہر سنا دیا
ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ عمل در آمد کون کروائے گا۔جہاں بلی ہی دودھ
کی رکھوالی پر بیٹھی ہووہاں دودھ کے بچنے کی اُمید کرنا بیوقوفی ہے۔وزیر
اعظم یوسف رضا گیلانی اور صدر آصف زرداری کھلم کھلا عدلیہ اور فوج کے خلاف
کھڑے ہو چکے ہیں۔ خدا خیر کرے۔
آخر میں حسبِ روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے۔
چھوٹی بہن نے بڑی بہن سے کہا: باجی آپ میرے سر کی قسمیں کھانا بند کر دیں۔
باجی نے پوچھا کیوں؟
چھوٹی بہن نے جواب دیا: جب سے آپ نے میرے سر کی قسمیں کھائی ہیں میرے سر
میں درد رہنے لگا ہے۔
قارئین یہ حکومت بھی کبھی اس کی اور کبھی اُس کی قسمیں کھاتی ہے۔ قسمیں
کھانا بند کریں اور آئین کی پاسداری کریں ورنہ ہم تو جان ہی چکے ہیں۔ ”یہ
دیس اک جادونگری ہے۔“ |