قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق
جو قول و فعل ہے جائز اور جو اس کے خلاف ہے بدعت سیئہ ہے یعنی بری بدعت۔ جس
کی مذمت حدیث پاک میں یوں فرمائی گئی ہے:
من ابتدع بدعه ضلاله لا يرضاها الله و رسوله کان عليه من الاذم مثل اثام من
عمل بها لا ينقص ذلک من اوزارهم شياء.
(مشکوة، 30 بحواله ترمذی، ابن ماجه)
جس نے گمراہ کن بدعت نکالی جسے اللہ اور اس کے رسول پسند نہیں کرتے اس پر
ان لوگوں کے گناہوں جتنا (مجموعی) گناہ ہوگا اور اس کا گناہ ان کے گناہوں
میں کچھ بھی کمی نہ کریں گے۔
قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ما احدث قوم بدعه الارفع مثلها من
السنه فتمسک بسنه خير من احدث بدعه.
(مشکوة 31، بحواله مسند احمد)
جب بھی کسی قوم نے کوئی بدعت نکالی اس کے برابر سنت ختم ہوئی سو سنت پر عمل
پیرا ہونا بدعت پیدا کرنے سے بہتر ہے۔
بری بدعت کی علامت:
حضرت حسان سے روایت ہے فرمایا:
ما ابتدع قوم بدعه فی دينهم الا نزع الله من سنتهم مثلها ثم لا بعيدها
اليهم الی يوم القيامه.
(مشکوة، 31 بحواله دارمی)
جب بھی کسی قوم نے اپنے دین میں بدعت نکالی اللہ ان کی سنت میں سے اتنی سنت
ختم کر دیتا ہے۔ پھر قیامت تک اللہ اس سنت کو نہیں لوٹائے گا۔
یہ اور ان جیسے متعدد دوسرے ارشادات نبوی اس حقیقت کی نقاب کشائی کرتے ہیں
کہ مذموم بدعت وہ ہے جو سنت یعنی اسلامی ہدایت کے خلاف ہو۔ جو اللہ و رسول
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناپسندیدہ ہو۔ ہر بدعت یعنی نئی چیز شرعاً
ممنوع نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔
من سن فی الاسلام سنة حسنة فله اجرها و اجر من عمل بها من بعده من غير ان
ينقص من اجورهم شيئی و من سن فی الاسلام سنه شيئه کان عليه وزرها و وزر من
عمل بها من بعده من غير ان ينقص من اوزارهم شئی.
(مسلم بحواله، مشکوة، 33)
اسلام میں جس نے کوئی اچھا طریقہ نکالا اور اس کے لیے اس کا اجر بھی ہے اور
اس کے بعد جو کوئی اس پر عمل کرے اس کا بھی، عمل کرنے والوں کے اجر میں
کوئی کمی کئے بغیر اور جس نے اسلام میں کوئی بری رسم ایجاد کی اس پر اس کا
گناہ بھی ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل پیرا کریں گے ان
کے گناہ میں کمی کئے بغیر۔
کیا مردے سن سکتے ہیں:
جی! مردوں کا سننا احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کا فرمان ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اطلع النبی صلی الله عليه وآله وسلم علی اهل القليب فقال: ماوجدتم ماوعدکم
ربکم حقا. فقال له تدعوا امواتا قال ما انتم باسمع منهم ولکن لايجيبون.
(صحيح البخاری، ج : 1، ص : 83، کتاب الجنائز باب ماجاء فی عذاب القبر)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدر کے کنویں میں پھینکے ہوئے کفار
مقتولین پر کھڑے ہوگئے۔ پس آپ نے فرمایا کیا تم نے اپنے رب کے وعدہ کو صحیح
اور سچا نہیں پایا؟ تو آپ سے عرض کیا گیا آپ مردوں کو سناتے ہیں آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں لیکن وہ جواب
نہیں دیتے۔
اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث مردوں کے سننے پر دلالت کرتی ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: عبدالقیوم ہزاروی
لنک:
https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/1113/کیا-ہر-بدعت-گمراہی-ہے-اور-کیا-مردے-سُن-سکتے-ہیں/ |