تحقیق کا بازار کچھ اِس ادا سے
گرم ہے کہ اب ہمیں کچھ زیادہ ہی تپش محسوس ہونے لگی ہے! مغربی دنیا پتہ
نہیں کیا ثابت کرنا چاہتی ہے۔ آئے دن طرح طرح کی بے ڈھنگی تحقیق کا احوال
پڑھ اور سُن کر ہم تو بے حال ہوئے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اگر
تحقیق کے نتائج خبروں، مقالوں اور کتابوں کی شکل میں اِسی رفتار سے سامنے
آتے رہے تو ہم جیسے نام نہاد مزاح نگاروں کی تو واٹ لگ جائے گی! جب لوگوں
کو تحقیقی منصوبوں کے نتیجے میں ”مستند“ مزاح آسانی سے ملتا رہے گا تو
روایتی مزاح پڑھنے کی زحمت کون گوارا کرے گا!
برطانیہ نے دو صدیوں تک دنیا پر حکمرانی کی ہے اِس لیے ہم مزاحیہ تحقیق کی
دُنیا پر حکمرانی کا حق بھی اُسی کو دیتے ہیں۔ گورے رات دن یہ ثابت کرنے
میں جُتے رہتے ہیں کہ جن موضوعات کے بارے میں لوگ بہت کچھ جانتے ہیں اور
سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے اُن پر تحقیق کرکے دنیا کو ہنسنے کا
سامان فراہم کیا جاسکتا ہے!
مرزا تفصیل بیگ کی زندگی میں سبھی کچھ تفصیل سے ہے۔ وہ جب کسی بات کو
اختیار کے ساتھ بیان کرتے ہیں تب بھی پوری تفصیل بیان کئے بغیر نہیں رہتے!
اخبار پڑھ کر دوسروں تک خبریں پہنچانا اُن کے زندگی کی ترجیحات میں سے ہے۔
ہم نے ایک زمانے سے اخبارات کے مطالعے کو از خود نوٹس کے تحت اپنے لیے
متروک قرار دے رکھا ہے۔ اب تک تو یہ خود ساختہ ترکِ مطالعہ ہمارے حق میں
نعمت ثابت ہوا ہے۔ اخبارات پڑھنے سے ہم میں کمتری کا احساس شِدّت اختیار
کرنے لگتا ہے! ہم خبروں، مضامین اور تجزیوں میں پائے جانے والے مزاح پر نظر
ڈالتے ہیں تو یہ غم ستانے لگتا ہے کہ ایسا مزاح لکھنے کے قابل ہم کب ہو
پائیں گے! جب فرصت کے چند لمحات میسر آتے ہیں ہم اپنے وجود کی مزاحیت سے
لطف اندوز ہوتے ہیں یعنی کچھ لکھنے بیٹھ جاتے ہیں! مرزا تفصیل بیگ کو ہماری
یہ عادت بہت پسند ہے کیونکہ اُن کا یہ خیال ہے کہ جتنی دیر ہم لکھتے رہتے
ہیں اُتنی دیر قُرب و جوار کے لوگ اور بالخصوص اہل خانہ ہمارے شر سے محفوظ
رہتے ہیں!
کل مرزا، حسب معمول، ہَوَنّق چہرے کے ساتھ، ایک اخبار اُٹھائے ہمارے ہاں
گھر آ دھمکے۔ اُن کے چہرے کی فضاءخاصی مُکدّر تھی۔ ہوا کم اور ہوائیاں
زیادہ اُڑ رہی تھیں! مرزا کے چہرے پر محض ایک نظر ڈالنے سے بھی صاف محسوس
ہونے لگا کہ اُنہوں نے کوئی معرکہ آراءخبر پڑھ لی ہے اور اب اُس کے مضمرات
پر، دوپہر کے کھانے سے قبل، ایک ڈھڑھ گھنٹے تک ہمارا دماغ چاٹ کر ”برنچ“ کا
حق ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں! ویسے بھی مرزا جب ایسا ویسا پڑھ لیتے ہیں
کہ تو اُن کے چہرے پر ”جلال“ اِس قدر پنپ جاتا ہے کہ اُن پر ایک سے زائد
نظر ڈالنے کی سَکت کِسی میں نہیں ہوتی! یا کم از کم ہم تو اپنی آنکھوں سے
کسی کِھلواڑ کا خطرہ مول نہیں لے سکتے!
مرزا کو حیرت اِس بات پر تھی کہ برطانیہ کے ماہرین کو ایک طویل عرصے کی
تحقیق کے بعد وہ بات معلوم ہو پائی جو دُنیا بھر کے لوگ کسی بھی قسم کی
تحقیق سے مستفید ہوئے بغیر اچھی طرح جانتے ہیں۔ حد تو یہ ہے آپ سمیت ہمارے
بیشتر قارئین بھی وہ بات اچھی طرح جانتے ہیں جو برطانوی محققین نے خاصی
محنت کے بعد معلوم کی ہے۔ حیاتیات کے برطانوی ماہرین کی ایک ٹیم نے بریکنگ
نیوز دی ہے کہ کائنات کا سب سے بڑا معمہ عورت ہے!
اگر یہ بات پڑھ کر آپ کا ہنسنے، بلکہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جانے کوجی چاہ
رہا ہے تو یقین کیجیے کہ اِس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ مرزا نے بھی جب
ہمیں یہ خبر سُنائی تھی تو ہنستے ہنستے ہم اور وہ بے حال ہوگئے تھے۔ ٹی وی
کے بعض پروگرامز میں صرف ہنسنے کے پیسے لینے والی خواتین اگر اِس قدر
ہنستیں تو لاکھ سوا لاکھ کا بل بن چکا ہوتا! مگر اے وائے ناکامی! کیا ہم
اور کیا ہماری ہنسی! اگر ہم ہنسنے کے پیسے مانگیں تو خدشہ ہے کہ لوگ ہنس
ہنس کر پاگل ہو جائیں گے!
کِس مرد کو معلوم نہیں کہ عورت کائنات کا سب سے بڑا معمہ ہے؟ کوئی بھی مرد
عورت کو معمہ نہ سمجھنے کا دعوٰی نہیں کرسکتا، بالخصوص شادی شدہ مرد تو اِس
حقیقت سے خاصی درد ناک حد تک آشنا ہیں! ہمیں حیرت اِس بات پر ہے کہ عورت کو
معمہ قرار دینے کے لیے حیاتیات کے ماہرین کو تحقیق کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
کیا عورت حیاتیاتی معمہ ہے؟ کیا عورت کی جسمانی ساخت اِتنی پیچیدہ ہے کہ
اُس پر تحقیق بھی کی جائے اور معمہ بھی قرار دیا جائے؟ خدا ناخواستہ یہ نہ
سمجھا جائے کہ ہم ماہرین حیوانات کو عورت پر تحقیق کی دعوت دے رہے ہیں! ہم
اِتنے سنگ دل کبھی نہیں ہوسکتے کہ ماہرین حیوانات کو اِس کام پر لگاکر کسی
کام کا نہ چھوڑیں اور بے چارے بے زبان جانور توجہ اور نگاہِ التفات کو
ترستے ہی رہ جائیں!
مرزا کو بھی اِس بات پر اعتراض تھا کہ عورت پر تحقیق حیاتیات کے ماہرین سے
کیوں کروائی گئی۔ اُن کا کہنا تھا کہ کسی بھی عورت کو سمجھنے کی کوشش
ماہرین نفسیات کو کرنا چاہیے۔ مگر پھر اپنی رائے سے رجوع کرتے ہوئے فرمایا
کہ بے چارے ماہرین نفسیات بھی کیا کرسکتے ہیں؟ وہ لے دے کر صرف ماہرین ہیں،
کوئی جادوگر تو ہیں نہیں کہ عورت کو سمجھ بھی لیں اور ہم جیسے ”سادہ دل“
انسانوں کو سمجھا بھی دیں! مرزا کے خیال میں عورت کو سمجھنے کی ایک جامع
کوشش ماہرین انفاس کو کرنا چاہیے تاکہ وہ مردوں کو بتاسکیں کہ عورت کے ساتھ
رہ کر بھی کس طور سُکون کا سانس لیا جاسکتا ہے!
برطانوی ماہرین نے تحقیق کی روشنی میں یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ عورت کے
جسمانی اور ذہنی وجود کو سمجھنا کسی طور ممکن نہیں کیونکہ وہ انتہائی
پیچیدہ ہے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ خود ماہرین کو بھی یہ اندازہ نہیں ہوسکا
کہ پیچیدگی ہے کیا! مرزا کا استدلال یہ ہے کہ اگر ماہرین یہ سمجھ ہی نہیں
سکے کہ پیچیدگی کیا ہے تو وہ کِس طور یہ دعوٰی کرسکتے ہیں کہ جو کچھ سمجھ
نہیں آسکا وہ پیچیدگی ہی ہے؟ ساتھ ہی اُنہوں نے ماہرین کے بارے میں چند
انتہائی ”مہذب“ کلمات ادا کئے! ماہرین کے بارے میں مرزا کی اِس رائے نے
ہماری ڈھارس بندھائی کیونکہ خود ہم بھی اب تک نہیں سمجھ سکے کہ عورت میں
پائی جانے والی پیچیدگی ہے کیا!
اپنے بارے میں کی جانے والی مختلف نوعیت کی تحقیق کے جواب میں خواتین
عموماً یہ کہتی ہیں کہ جس طور انتہائی پیچیدہ چیز کو سمجھا نہیں جاسکتا
بالکل اُسی طرح بالکل سادہ اور آسان سی چیز بھی آسانی سے سمجھ میں نہیں آتی
یعنی خواتین اپنی نظر میں بہت آسان اور سادہ وجود رکھتی ہیں! بہت سے مرد
اِس ”سادگی“ ہی پر یہ کہتے ہوئے مر مِٹتے ہیں
اِس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خُدا!
بیشتر خواتین اپنی زد میں آنے والے مردوں کے ذہن کو اس قابل نہیں چھوڑتیں
کہ وہ عورت کے وجود میں پائی جانے والی پیچیدگی کے بارے میں سوچ سکے! یعنی
مُشکلیں مُجھ پر پڑیں اِتنی کہ آساں ہوگئیں!
ماہرین کی دی ہوئی محققانہ شہادت کی روشنی میں عورت تو خیر اپنی جگہ ایک
تسلیم شدہ معمہ ہے مگر مرد بھی کچھ نِچلا بیٹھنے والا نہیں۔ عورت کے معاملے
میں وہ جو رویہ اپناتا ہے وہ بھی دُنیا، بلکہ کائنات کے بڑے معموں میں سے
ہے۔ مرد زندگی کو رنگین بنانے کی خاطر صدا لگاتے نہیں تھکتا۔
کِسی زلف کو پکارو، کِسی آنکھ کو صدا دو
کڑی دھوپ پڑ رہی ہے، کوئی سائباں نہیں ہے!
اور زیادہ گھبراہٹ کے عالم میں بے ساختہ پکار اٹھتا ہے۔
یہ دِل تم بن کہیں لگتا نہیں، ہم کیا کریں!
پس ثابت ہوا کہ عورت کے معاملے میں مرد ”آ بیل، مجھے مار!“ کے اُصول پر
یقین رکھتا ہے! جب معاملہ یہ ہو تو باقی صدیقی کا ارشاد بجا ہے۔
تیر پر اُڑ کے بھی نِشانے لگے!
دوسرے بہت سے لوگوں کا بُرا انجام دیکھ کر بھی سبق نہ سیکھنے اور بے کیف
زندگی کو مسرت سے ہمکنار کرنے کے لیے عورت کا ساتھ تلاش کرنے والے مرد کچھ
ہی دیر میں اپنی حماقت کو محسوس کرنے پر یہ راگ الاپتے ہیں۔
خبر کیا تھی کہ یہ انجام ہوگا دل لگانے کا!
صنفِ نازک سے لگاوٹ کی ابتداءخاصی پُرکشش ہوتی ہے۔ ابتداءمیں جذبہ کچھ یہ
انداز اختیار کرتا ہے۔
دِل گیا، تم نے لیا، ہم کیا کریں!
اور پھر کچھ ہی دنوں کے بعد حالت یہ ہو جاتی ہے کہ اگر دل کا حال جاننا
چاہے تو جواب ملتا ہے۔
جس دِل پہ ناز تھا مجھے وہ دِل نہیں رہا!
علامہ سیماب اکبر آبادی نے دُعا کے قبول ہونے کی شرط یہ بیان کی۔
دُعا دِل سے نکلے کار گر ہو
اور پھر اگلے ہی مصرع میں دُعا کی گنجائش یہ کہتے ہوئے ختم کردی۔
یہاں دِل ہی نہیں، دِل سے دُعا کیا!
عورت کو سمجھنے کے معاملے میں مرد ہزاروں سال سے اِسی مخمصے میں مُبتلا ہے۔
یعنی
حوصلہ ہو تو کیا نہیں ہوتا
ہاں، مگر حوصلہ نہیں ہوتا! |