بھولنے کی بیماری کے سو فائدے
ہیں۔ اگر انسان گزرے ہوئے زمانے کو بھول نہ پائے تو جینا عذاب سے کم نہیں
ہوتا۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ ہمیں یاد ہی نہیں کہ جب ٹی وی چینلز کی
بہتات نہیں تھی تب ہم شام سات سے رات گیارہ بجے تک کیا کر پاتے تھے! اگر
ایک دن ٹاک شو نہ دیکھیں تو لگتا ہے کہ کئی زمانے گزرے بغیر ہم میں سے گزر
گئے ہیں!
سُنا ہے کسی زمانے میں پاکستانی معاشرہ بہت پُرسُکون تھا اور ہر چیز اپنے
مقررہ یا موزوں ترین مقام پر تھی۔ جب سے قتل و غارت کا چلن عام ہوا ہے، ہم
ماضی کے سُکون کو بھول بھال گئے ہیں۔ اب اگر وہ زمانہ یاد بھی آتا ہے تو
محسوس ہوتا ہے ہم کسی نئی دُنیا میں ہیں اور جو زمانہ ہم پر گزرا وہ کوئی
اور ہی دُنیا تھا!
ذرا ترقی یافتہ معاشرے کی ”پستی“ ملاحظہ فرمائیے۔ اٹلی کے جزیرے لپاری میں
56 سال بعد قتل کی واردات ہوئی ہے۔ ہوٹل میں صفائی کا کام کرنے والی 62
سالہ یوفیمیا بیویانو کو کسی نے گردن میں خنجر کے وار کرکے قتل کیا۔ جزیرے
کے میئر میریانو برونو کہتے ہیں ”10 ہزار سے زائد آبادی والے جزیرے میں قتل
کی واردات نے لوگوں کو خوفزہ کردیا ہے۔ کل تک لوگ گھر کے دروازے کھلے رکھ
کر سونے میں باک محسوس نہیں کرتے تھے اور گاڑی کی اگنیشن میں چابی چھوڑ کر
خریداری کرنے چلے جایا کرتے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب وہ دُنیا ختم ہوگئی ہے!“
لپاری دراصل تفریحی مقام ہے۔ اٹلی کے علاوہ یورپ بھر سے متمقل افراد
تعطیلات گزارنے لپاری میں پدھارتے ہیں۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اِس جزیرے
پر اِس قدر سُکون کیوں ہے! جو دوسروں کا استحصال کرکے اپنی تجوریاں بھرتے
ہیں اُن کے آرام کی جگہ کو تو پُرسُکون ہی ہونا چاہیے۔ سانپ کتنی ہی ٹیڑھ
دکھائے، کتنے ہی بَل کھاکر چلے مگر اپنے بل میں سیدھا جاتا ہے!
لپاری کے میئر تو ”بے فضول“ میں جذباتی ہوگئے! ہمیں دیکھیے کہ موت کا بازار
گرم دیکھتے ہیں اور ہماری کوئی دُنیا ختم نہیں ہوتی! اور خوف؟ کیسا خوف؟
مارنے والے ڈرتے ہیں نہ مرنے والے۔ اگر ”شجاعت“ یہ نہیں تو پھر کیا ہے؟
سُنتے آئے ہیں کہ ایک نُقطہ ”محرم“ کو ”مُجرم“ کردیتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسا
ہوتا ہوگا۔ اٹلی کا تو یہ حال ہے کہ ہمارے قومی مزاج کا آئینہ بن کر دُنیا
کو دَہلانے والے ”لیاری“ میں نُقطہ بڑھاکر ”لپاری“ بنالیا اور ایک ایسی
دُنیا آباد کرلی جس میں سُکون اور سُکوت ہے۔
کسی ریسٹورنٹ کے قریب نالی میں دو لال بیگ غلاظت تناول فرماتے ہوئے گپیں
بھی ہانک رہے تھے۔ ایک بولا ”ذرا دیکھو تو سامنے ریسٹورنٹ کتنا صاف سُتھرا
ہے، فرش کس قدر چمک رہا ہے۔ یہ چمک میری آنکھوں میں چُبھ رہی ہے۔“
دوسرے نے کہا ”رہنے دو یار۔ کھاتے وقت ایسی گندی باتیں نہیں کیا کرتے!“
ہم جس دُنیا میں جی رہے ہیں وہ قتل و غارت اور خون خرابے کی عادی ہے۔ جو
کلچر لپاری نے دیا ہے وہ آج کی دُنیا کے لیے بہت خطرناک ہے۔ اگر ہر معاشرے
نے یہی چلن اپنالیا تو؟ قتل و غارت ختم ہوگئی تو؟ لپاری کے لوگو! یہ کیا
غضب کرتے ہو کہ مرتے ہو نہ مارتے ہو! ایسا کروگے تو کون آئے گا.... بلکہ (دُنیا)
سے کون ”جائے“ گا؟
اٹلی کے بارے میں تو سُنا ہے کہ اُس کے چپے چپے پر مافیا کا راج ہے۔ دُنیا
بھر میں انڈر ورلڈ کی کوئی مثال دینا ہے تو ذہن کے پردے پر سب سے پہلے اٹلی
کا نام اُبھرتا ہے۔ اور اٹلی ہی میں ایک ایسا جزیرہ جو قتل و غارت سے دور
بھاگتا ہے! یہ جزیرہ تو اٹلی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی سازش معلوم ہوتا
ہے!
ہم تو یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ کسی قتل، ڈکیتی، چھینا جھپٹی، چوری چکاری
اور دنگے فساد کے بغیر لپاری کے لوگ کس طرح زندگی بسر کر رہے ہیں!
کراچی سے ایک صاحب آب و ہوا تبدیل کرنے کی خاطر مری گئے۔ مگر حیرت انگیز
طور پر تین چار دن میں اُن کی حالت خراب ہوگئی۔ ڈاکٹرز نے معائنہ کیا تو
اُن کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا۔ اُن صاحب نے دو دن دوا کھائی مگر کچھ
افاقہ نہ ہوا۔ مایوس ہوکر بوریا بستر لپیٹا اور کراچی واپس آگئے۔ تبت سینٹر
کے چوراہے پر رش آور میں کچھ دیر لمبے اور گہرے سانس لیے، گاڑیوں سے نکلنے
والی تازہ ”آکسیجن“ پھیپھڑوں میں گئی تو کچھ ہی دیر میں طبیعت بحال ہوگئی!
ہمارے نفسیاتی پھیپھڑوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ ہم خون خرابے کے ایسے
عادی ہوچکے ہیں کہ خون کا رنگ نہ ہو تو زندگی بے رنگ دکھائی دیتی ہے! ڈاکے،
لوٹ مار اور چوری کی وارداتیں نہ ہوں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ زندگی میں
کیا معنویت ہے! اگر لپاری کا کلچر ہمارے ہاں عام ہوگیا تو زندگی کا کاروبار
کیسے چلے گا؟ اگر قتل کی وارداتیں کم ہوگئیں تو ہمارے میڈیا کیا کریں گے؟
سیاست دانوں کے پَھڈّے ختم ہوگئے تو ٹاک شوز کی گرم بازاری ختم ہو جائے گی؟
خالی جیب اور خالی پیٹ ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر سیاسی مُرغوں کی لڑائی
دیکھنے والے غُرباءکروڑوں، اربوں کی کرپشن کا احوال کِس طور جان پائیں گے؟
ہم تو کہتے ہیں اٹلی والے اب لپاری کو لیاری انتظامیہ کے حوالے کردیں تاکہ
زندگی میں کچھ تو رنگ اور معنویت پیدا ہو، کچھ تو ورائٹی نمودار ہو! یہ کیا
بھیڑ چال کی سی زندگی بسر کی جارہی ہے۔ لپاری کے مکین سوچیں تو سہی کہ
زندگی یونہی بسر کرکے دُنیا سے گئے تو اعمال نامے میں کیا ہوگا؟ |