ابھی عشرت جہاں ، پرجا پتی اور
سہراب الدین فرضی انکاﺅنٹروں کی خبروں اور ان پر تبصروں کا سلسلہ جاری ہی
ہے کہ یوپی سے ایک اور فرضی انکاﺅنٹر کی خبر آگئی۔ یہ واقعہ گزشتہ ہفتہ(7
جنوری) کوبزرگ صوفی حضرت نظام الدینؒ اولیاءکے مبارک شہر ولادت بدایوں کے
پاس ایک چھوٹے سے گاﺅں سنجر پور بلجیت میں پیش آیا۔ رپورٹ کے مطابق یوپی
پولیس کی اسپیشل ٹاسک فورس( ایس ٹی ایف) کو یہ اطلاع ملی تھی کہ ایک ہسٹری
شیٹر جرائم پیشہ پرتھوی راج سنجرپور میں پناہ گزین ہے۔ چنانچہ ایس ٹی ایف
نے وہاں جاکر ایک غریب کسان برجپال کی جھونپڑی کو گھیرلیا جس میں اسے
پرتھوی راج کی موجودگی کا گمان تھا۔ اس نے برجپال کو جھونپڑی سے باہر نکالا،
اس کی شکل دیکھی اور بلادریغ گولی ماردی۔ممکن ہے برجپال کا چہرہ مہرہ
مطلوبہ بدمعاش سے ملتا جلتا ہو۔بہر حال یہ تو طے ہے کہ پولیس مطلوب ملزم کو
گرفتار کرنے نہیں بلکہ اس کا قصہ تمام کرنے ارادے سے سنجر پور گئی تھی۔
لیکن فوراً ہی گاﺅں والے جمع ہوگئے اور پولیس کو یہ احساس ہوگیاکہ اس نے
غلط آدمی کو ماردیا ہے۔ اپنے اس جرم کی پردہ پوشی کےلئے اس نے بعجلت لاش کو
اس کی جھونپڑی میںڈال کر آگ لگادی جس سے وہ اس حد تک جھلس گئی کہ صورت مسخ
ہوگئی۔ تاہم اس کی بیوی، بچوں اور گاﺅں کے دیگر باشندوں کہنا ہے کہ پولیس
کی گولی سے ہلاک ہونے والا برجپال ہی ہے اور لاش اسی کی ہی ہے۔زیادہ افسوس
کی بات یہ ہے وہ ایک نیک طبیعت آدمی تھا اورکبھی کسی جرم میں ملوث نہیں رہا۔
ایس ایس پی بدایوں مسٹر نونیت کمار کا کہناہے کہ پولیس پر جھونپڑی کے اندر
سے گولی چلائی گئی اور ایک گولی ایس ٹی ایف کے جوان یوگیش کمار کے سینے میں
لگی۔ پولیس کو جوابی فائرنگ کرنی پڑی جس سے جھونپڑی میں آگ لگ گئی۔ لاش کی
شناخت حتمی نہیں ہوئی ہے چنانچہ پوسٹ مارٹم کے ساتھ ڈی این اے بھی کرایا
جارہاہے ۔ راجپال کے بیٹے کی تحریری شکایت پر ’نامعلوم‘ پولیس عملے کے خلاف
قتل کا کیس درج کرلیا گیا ہے۔
پولیس کی یہ کہانی نئی نہیں ہے۔ ہر فرضی انکاﺅنٹر کے بعد اسی طرح کی کہانی
بیان کی جاتی ہے۔ بے قصور برجپال کی موت کو ’شناخت کی غلطی‘ سے تعبیر کیا
جارہا ہے۔ ’شناخت کی غلطی‘ کاایسا ہی ایک واقعہ31 مارچ1997ءکو نئی دہلی کے
کناٹ پیلس علاقے میں ہوا تھا جب پولیس نے بد معاش سمجھ کر دو تاجروں پردیپ
گوئل اور جگجیت سنگھ کو ان کار میں گولیوں سے بھون دیا تھا اور دعوا کیاکہ
دو انتہائی مطلوب بدمعاش انکاﺅنٹر میں مارے گئے۔یہ بھی کہا گیا تھا پولیس
کے روکنے پر وہ رکے نہیں اور گولی چلادی چنانچہ پولیس نے جوابی کاروائی کی۔
لیکن بعد میں یہ پوری کہانی جھوٹ ثابت ہوئی۔ اس کیس میں ایک لائق پولیس
افسر مسٹر ایس ایس راٹھی سزائے عمر قید کاٹ رہے ہیں اور کئی پولیس عملہ کے
کیریر کا خاتمہ ہوگیا۔گجرات کے سہراب الدین انکاﺅنٹر معاملے میں بھی کئی
اعلا پولیس افسران جیل میں ہیں اور ان کا بھی کیریر داﺅں پر لگا ہوا ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ ان واقعات سے پولیس نے کوئی سبق کیوں نہیں سیکھا اور
اپنی روش کو تبدیل کیوںنہیں کیا؟ اور بدایوں کا واقعہ کیوں پیش آیا؟ یہ
واقعہ ایسے موقع پر پیش آیا ہے جب کہ ریاست میں اسمبلی چناﺅ کا اعلان ہوچکا
ہے۔ اس کے سیاسی اثرات بھی ہونگے جو سردست ہمارے زیر بحث نہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ مجرم کو عدالت کے حوالے کرنے کے بجائے اس کا خاتمہ کردینے
کی پولیس کی اس روش کی کئی وجوہات ہیں۔ اس کی پہلی وجہ تو جرائم پیشہ لوگوں
کا سیاسی اثر ورسوخ ہے اوردوسری وجہ ہمارا عدالتی نظام ہے۔ ایک طرف تو
پولیس پر یہ دباﺅ ہوتا ہے کہ وہ جرائم پر قابو پائے دوسری طرف سیاسی اثر
رسوخ کی بدولت جرائم پیشہ پولیس سے بیخوف اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔
اگر پولیس ان پر ہاتھ ڈالتی ہے توفوراً سیاسی دباﺅ پڑتا ہے کہ فلاں کا آدمی
ہے، فوراً چھوڑ دیا جائے۔ اگر مجبورا ً یا کسی مصلحت سے اسے چھوڑدیا جاتا
ہے تو وہ مزید شیر ہوجاتا ہے ۔ اتنا ہی نہیں، اگر بدمعاش اونچے اثر و رسوخ
والا ہے تو کمزور اخلاق و کردار کا پولیس عملہ خود اس کی شرن میں آجانے میں
عافیت سمجھتا ہے۔ سوال اس بات کا ہے کہ ایسی صورت ہو تو پولیس کیا کرے؟اس
کا حل اس نے ’انکاﺅنٹر‘ میںنکالا ہے۔ اس نئی تدبیرکا خفیہ نام ’ٹپکانا‘ یا
’ٹھونک دینا‘ ہے۔ قانون شکن سیاست داں بھی اپنے حریفوں کو نمٹانے کےلئے
پولیس پر دباﺅ ڈالتے ہیں کہ فلاں کو ’ٹھونک دو‘۔ کہا یہ جاتا ہے کہ پولیس
عملہ کو ہدایت ملتی ہے کہ بدمعاش کو پکڑنے دھکڑنے اور پھراس کے خلاف
شہادتیں پیش کرنے اور عدالت سے سزادلانے کے دشوار گزار مراحل میں الجھنے کے
بجائے ’انکاﺅنٹر‘ کردو،’ٹھونک دو‘ یا ’ٹپکادو‘۔پولیس بھی برملا بدمعاشوں کو
وارننگ دینے لگی ہے کہ انکاﺅنٹرکردیا جائیگا۔ اگرکاروائی کے وقت اتفاق سے
شناخت میں چوک ہوگئی تو شور مچ گیا اور اگر واقعی کوئی بدمعاش ہی مارا گیا
ہے تو پولیس بھی چین کا سانس لیتی ہے اور عوام بھی کہتے ہیںچلو اچھا ہوا،
بہت دکھی کرتا تھا، مارا گیا۔ یہ حس بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے کہ اس طرح کی
غیرقانونی کاروائی یا بالفاظ دیگر پولیس کی مجرمانہ حرکت پر سنجیدہ نوٹس
لیا جائے۔ایسے کیسوںمیں عام طور سے پولیس عملے کو اپنے محکمے کی پشت پناہی
حاصل رہتی ہے۔ بسااوقات سرکار بھی انکابچاﺅ کرتی ہے جیساکہ بٹلہ ہاﺅس کے
معاملہ میں کیا جارہا ہے۔کانگریس کے سینئر لیڈر دگ وجے سنگھ نے آج ہی
(11جنوری) کو یہ تسلیم کیا ہے کہ” یہ انکاﺅنٹر ’فالس‘ (جھوٹا) تھا، لیکن
وزیر اعظم اور ہوم منسٹر نے کہا کہ صحیح تھا۔‘ ہر چند کہ یہ الگ بحث ہے مگر
تفتیش کی جاتی تو یہ صاف ہوجاتا کہ پولیس نے پہلے گولی چلائی یا پولیس پر
پہلے گولی چلی۔ اس سانحہ میں انسپکٹر موہن چند شرما کے جو گولی لگی اس کے
بارے میں بھی گمان ہے کہ پولیس کے ہی ہتھیارسے چلی تھی۔ لیکن حکومت اس کو
اس معنی میں درست سمجھتی ہے کہ اس کے نظر میں عاطف امین اور اس کا دوسرا
ساتھی جو مارا گیا وہی دہشت گردانہ دھماکوں میں ملوّث تھے۔ فیصلہ عدالت میں
ہوگا جہاں کاروائی چینٹی کی چال چل رہی ہے۔ لیکن اس سے یہ تو اندیشہ تو قوی
ہوگیا کہ سرکار اعلا ترین سطح پر ماورائے عدالت قتل کی لاقانونیت کا کچھ
برا نہیں مانتی۔ یہ بات پنجاب میں اور زیادہ صاف ہوگئی جہاں انسداد دہشت
گردی مہم کے دوران ہزاروں سکھ نوجوانوں کو ہلاک کردیاگیا۔
جہاں تک دیگر جرائم پیشہ لوگوں کا تعلق ہے، ہمارے ملک میں کسی شاطر مجرم کو
عدالت سے سزا دلادینا محال بھی ہے اور بڑا جوکھم بھرا بھی۔ ہماری حکومت اور
معاشرہ ایماندار اور فرض شناس افسران کی ایسی پشت پناہی نہیں کرتا جس سے ان
کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ بدمعاشوںکے مقابلے میں سینہ سپر ہوجائیں۔ایک بڑی
مضحکہ خیز صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی جرائم پیشہ انتخاب جیت کر
’عوامی نمائندے‘ کا رتبہ پالیتا ہے اور اسی پولیس کو اس کے پیشوائی میں
مامور ہونا پڑتاہے، جسے اس کو ہتھکڑی پہنانی چاہئے تھی۔ایک رپورٹ کے مطابق
رواں لوک سبھا کے153 ممبران مجرمانہ پس منظر کے ہیں جن میں سے74 انتہائی
سنگین معاملات میں ملوث ہیں۔گویا ایک تہائی ممبران کسی نہ کسی جرم میں ملوث
ہیں۔( کل ممبران کی تعداد552 ہوتی ہے)۔ ریاستی اسمبلیوں کا حا ل بھی خراب
ہے جہاں ہر چارمیں سے ایک ممبر جرائم میں ملوّث ہے۔ ایسی صورت میں پولیس
قانون پر سختی سے کیسے قائم رہ سکتی ہے؟ اور جرائم پر قابو کس طرح پایا
جائے؟ ’فرضی انکاﺅنٹر‘ اسی سوال کا جواب بن گیا ہے۔
اس حربہ پولیس میں خاصا مقبول ہوا چنانچہ اندر خانے پولیس میں
’انکاﺅنٹراسکوائڈ‘ تشکیل پاگئے اورمتعدد جری افسران کاﺅنٹراسپیشلسٹ‘ قرار
پائے ۔ ان کا کام جرائم پیشہ لوگوں کی پکڑ دھکڑ نہیںبلکہ ان کو ’الیمنیٹ‘
کرنا یا ان کا قصہ تمام کرنا ہوتا ہے۔ ممبئی جیسے شہر میں، جہاں مافیاﺅں
اور جرائم پیشہ لوگوں کا راج چلتا تھا، پولیس نے اسی حربہ سے کام لیا اور
درجنوں قانون شکنوں کو ٹھکانے لگا دیا۔ دیا نائک، پردیپ شرما، روندر آنگرے،
پرفل بھوسلے، راجو پلائی، شیواجی کالیکر، سچن وازے ،سنجے کادم اور وجے
سالیسکر جیسے کئی افسران کے نام اسی لئے مشہور ہوئے، انہوں انتہائی عیار
شاطر بدمعاشوں کو ’انکاﺅنٹر‘ کے پردے میں ’ٹپکایا‘جس سے لوگوں کو راحت بھی
ملی۔ اکیلے وجے سالیسکر کے نام پر ہی تقریباً 80 بدمعاشوں کو موت کے گھاٹ
اتاردینے کا’کارنامہ ‘ درج ہے۔بیشک کوئی بھی ذمہ دار شہری ماورائے عدالت
ہلاکتوں کی تائید نہیں کرسکتا ۔ ہم بھی نہیں کرتے۔ لیکن پولیس کی اپنی منطق
اور مجبوری ہے۔ اس کو سمجھے بغیر قانون کی عملداری اور پولیس افسران کو راہ
راست پر لانے کے مطالبے بے اثر رہیں گے۔ صورتحال کی اصلاح اس وقت تک نہیں
ہوگی جب تک ہمارے سیاسی اور عدالتی نظام میں اصلاح نہیں ہوتی۔ہمیں یہ
اعتراف ہے کہ رشوت خوری اور بدعنوانی کا بھی اس میں ہاتھ ہے ، مگر سب سے
زیادہ خرابی سیاسی کلاس سے آتی ہے۔ ہندستان ایک جمہوری ملک ہے، سیاست دانوں
سے جرائم پیشہ اور بدعنوان افراد کے صفائی عوام کو کرنی ہوگی۔ اگر ہم
داغیوں کو اپنا نمائندہ بناکر اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں بھیجتے رہیں گے تو
تبدیلی کی توقع بیکار ہے۔ جب تک قانون ساز ادارے جرائم پیشہ افراد سے پاک
نہیں ہونگیں، مجرموں کو سیاسی پناہ کا دروزاہ بند نہیں ہوگا تب پولیس کے
ہاتھ بندھے رہیں گے اور وہ جرائم پر قابو نہیں پاسکے گی۔چنانچہ انکاﺅنٹر
بھی ہوتے رہیں گے۔
اسی کے ساتھ عدالتی نظام میںبھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ شہادتوں کی سماعت میں
تاخیرپولیس کےلئے سب سے بڑی درد سری ہے۔گواہو ں پر شدیددباﺅہوتا ہے۔ بار
بار پیشیوں سے مزید حوصلے پست ہوتے ہیں اور عام طور پر لوگ گواہی دینے سے
کتراتے ہیں۔ بسا اوقات گواہ کسی دباﺅ یا لالچ میںاپنے بیان سے مکر جاتے
ہیں۔ اس لئے ایسی نوبت ہی نہیں آنے دی جانی چاہئے کہ گواہ بہک جائے۔ یہ اسی
صورت میں ممکن ہے جب شہادتیں بلاتاخیر ریکارڈ ہوں۔ نظام یہ ہونا چاہئے کہ
جس طرح کسی جرم کے شکار لب دم شخص کا مجسٹریٹ فورا بیان درج کرتا ہے اسی
طرح واردات کے فوراً بعدبلاتاخیرکسی مجسٹریٹ کی موجودگی میں عینی شاہدوں کے
بیان کی ویڈیوریکارڈنگ کی جائے۔ واردات سے متصلاً جو بیان دیا جائے گا اس
میں بھول چوک بھی نہیں ہوگی اور دباﺅ یالالچ کا امکان بھی کم ہوگا۔ مقدموں
کو لمبا کھینچنے کے حیلوںپر بھی روک لگنی چاہئے۔ اور بعض صورتوں میں عدالت
کو اختیار تمیزی سے نتیجہ پر پہنچنے کا موقع ملنا چاہئے۔معمولی جرائم کےلئے
سرسری عدالتوں کا نظم ہونا چاہئے۔ پولیس کو پابند قانون کرنے کےلئے عدالت
کو اختیار دیا جائے کہ اگر یہ واضح ہوجائے کہ کسی پولیس افسر نے بدنیتی سے
کسی کو پھنسایا ہے تو بے قصور کو بری کرنے کے ساتھ خاطی پولیس افسر کو سزا
کا حکم بھی صادر کرسکے، اس کےلئے مزید عدالتی کاروائی کی ضرورت نہ ہو۔
متاثرہ شخص کو ہرجانہ بھی اسی پولیس افسر سے دلایا جائے۔
جہاں تک گجرات کے انکاﺅنٹرس کا سوال ہے، جن کا ذکرابتدا میں آیا تو ان کی
نوعیت جدا ہے۔ وہ صرف پولیس کی غلط کاری کا ہی معاملہ نہیںبلکہ ن کی تہہ
میں بڑے ہی خطرناک سیاسی عزائم کی آمیزش بھی ہے۔ ممکن ہے کہ مہلوکین میں
بعض جرائم پیشہ بھی ہوں مگر آخر تھے وہ کس کے گرگے؟ اور ان کی ہلاکتوں کو
سیاسی رنگ کیوں دیا گیا؟ جن شاطروں نے یہ انکاﺅنٹر کئے اور کروائے ان کے ہی
سر2002 کے فسادات میں ہزاروں افراد کا خون بھی ہے۔ اس لئے جرم کا یہ سلسلہ
جہاںتک گیا ہے وہاں تک ہر شخص قوم کا مجرم ہے اور اس کو قرارواقعی سزا ملنی
چاہئے۔ (ختم)
(مضمون نگار فورم فار سول رائٹس کے جنرل سیکریٹری ہیں) |