روا ں برس کے دوران اتر پردیش کے
علاوہ پنجاب ، ہماچل پردیش ، اتراکھنڈ ، گجرات اور منی پور میں بھی اسمبلی
انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان میں اتر پردیش، گجرات اور منی پور کو چھوڑ کر
باقی ریاستوں میں مسلمانوں کی آبادی ایک سے دو فیصدکے درمیان ہے۔ اتر پردیش
میں مسلمان 18فیصدتو گجرات اور منی پور میں تقریبا 10 فیصد کے قریب ہیں۔
مسلم اکثریتی ریاستوں میں سب سے زیادہ لوک سبھاکی نشستیں اتر پردیش میں ہی
ہیں جہاں کل 80 لوک سبھا سیٹیں ہیں۔ دراصل اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات اس
لئے اہم ہیں کیونکہ اس الیکشن میں مسلمانوں کا جو بھی رخ ہوتا ہے ، اس کا
اثر پورے ملک میں پڑتا ہے۔ 18 فیصد مسلمان آبادی والا وہ ریاست عالم اسلام
میں اپنی دینی تعلیم اور مسلم دانشور اور مذہبی رہنماؤں کیلئے بھی منفرد
شناخت کا حامل ہے۔دارالعلوم دیوبند کی ملک ہی نہیں بلکہ دنیابھر میں اسلامی
تعلیم کے اہم ترین مرکز کے طور پرجانا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں اپنی خاص
پہچان رکھنے والا مدرسہ ندوة العلوم بھی اتر پردیش کے سہارنپور میں ہی
ہے۔گنگا اور جمنا کے بیچ کی یہ پٹی جسے دوآبہ بھی کہتے ہیں علم و فضل کا
گہوارہ ہی نہیں بلکہ شرک اور بدعت سے محفوظ خطہ بھی تصور کیا جاتا ہے۔ لہذا
یہ دینی مرکز اور یہاں کے علماءجس جماعت یا لیڈر کو حمایت دیتے ہیں ، اسے
دوسری ریاستوں کے مسلمان بھی حمایت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں ان
مذہبی تعلیمی اداروں اور وہاں کے علماءکرام کے یہاں مختلف لیڈروں کی
آمدورفت بڑھ گئی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر کلب صادق سے آر ایس
ایس کے سابق سربراہ کیسی سدرشن کی ملاقات کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
آر ایس ایس نے تو مسلمانوں کو خود سے جوڑنے کیلئے قومی مسلم پلیٹ فارم تک
قائم کرلیاہے۔ مسلم راشٹریہ منچ واضح طور پر مسلمانوں کی ’خیر خواہی‘ میں
مصروف ہے۔
ملائم سنگھ بھی مسلم مذہبی علماء سے مسلسل رابطہ قائم کر رہے ہیں۔ کانگریس
کے دگ وجے سنگھ مسلمانوں کی حفاظت اور دوسرے حساس مسائل کے ذریعے مسلمانوں
کو پھر سے کانگریس کے پالے میں لانے کی کوشش میں مصروف کار ہیں جبکہ
شرپسندوں سے خود ان کے روابط طشت از بام ہوئے ہیں۔گویا چور سے کہا جارہا ہے
کہ چوری کر اور ساہوکار کو جاگتے رہنے کا پیغام دیا جا رہا ہے۔ وہیں بی جے
پی اپنی حکمرانی والی ریاستوں میں کئے گئے ترقیاتی کاموں کو بنیاد بنا کر
مسلمانوں سے ووٹ مانگ رہی ہے۔ویسے اترپردیش میں گزشتہ دو دہائیوں سے مسلم
ووٹر سماج وادی پارٹی کے ساتھ رہے ہیں لیکن گزشتہ اسمبلی انتخابات میں
کلیان سنگھ کے ایس پی میں آنے سے مسلم طبقہ ملائم سے ناراض ہو گیا تھا۔
ملائم کلیان کو پارٹی سے باہر کر مسلمانوں کو پھر سے منانے میں مصروف ہو
گئے ہیں۔ مسلمانوں کے ریزرویشن کے معاملے پر جس طرح سے وہ جارحانہ ہوئے ہیں
، اس سے محسوس ہوا کہ وہ اپنے پرانے تیور وں میں آ رہے ہیں جبکہ بی ایس پی
مسلم امیدواروں کے بھروسے پر انتخابی نیا پار کرنا چاہتی ہے لیکن یہ
انتخابات کانگریس کیلئے سب سے اہم ہیں۔ کانگریس کے تئیں مسلمانوں کا رخ ہی
طے کرے گا کہ 2014 میں دلی میں کانگریس کی حکومت برسر اقتدا رہے گی یا نہیں؟
اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کہا جاتا تھا کہ’جو ہندو مفادپرستی کی
بات کرے گا ، وہی اس ملک پر حکومت کرے گا۔‘ نوے کی دہائی میں ہندی پٹی میں
یہ مقولہ زورو شور سے گونجا کرتا تھا۔ ان دنوںبی جے پی کے سینئر لیڈر لال
کرشن اڈوانی نے اپنی رتھ یاترا کے ذریعے اس سیاسی نعرے میںجوش پیدکر دیا
تھا۔ اس مختصرسے نعرے نے ہندو ووٹروں کو اس قدر منظم کر دیا کہ مرکز میںبی
جے پی حکمراں ہو گئی۔ اس مقولے نے اپنے مطلب کو واضح کر دیا‘ لیکن یہ بات
20 ویں صدی کی تھی‘یعنی گزشتہ صدی کی۔ 21 ویں صدی میں اس مقولے میں معمولی
سی تبدیلی ہو گئی۔ محض ایک لفظ تبدل گیا۔ بدلہ ہوا وہی ایک لفظ 21 ویں صدی
کے ایک نئے سیاسی فلسفہ کو بیان کرتا ہے۔ حال میں دہلی میں واقع بی جے پی
کے ہیڈ کوارٹر میں غیر رسمی بات چیت کے دوران جب پارٹی کے ایک سینئر لیڈر
نے اس کے بدلے نعرے یعنی ’جو مسلم مفادات کی بات کرے گا ، وہی ملک پر راج
کرے گا‘ کو فضاءمیں بلند کیا تو سمجھ میں آ گیا کہ آخر کیوں ہندوتو کے کٹر
حامی لال کرشن اڈوانی کو پاکستان جا کر جناح کو سیکولر کہنا پڑا اور کیوں
ہندو تو کی علامت نریندر مودی کو ’سدبھاونا اپواس ‘کا ڈرامہ کرکے مسلم
مذہبی رہنماؤں کے ساتھ تصویر کھچوانی پڑی۔
دراصل دوسرا نعرہ 21 ویں صدی کی حقیقت ہے۔ بدلتے سماجی اور سیاسی حالات میں
ملک کے 15 فیصد مسلمانوں کے ہاتھ میں ہی اقتدار کی حقیقی چابی ہے۔ سیاسی
جماعتیں بھی اس حقیقت کو سمجھ گئی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر سوروکمل دتہ
کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں کوئی بھی جماعت مسلمانوں کی حمایت کے بغیر
مرکز میں اقتدار حاصل نہیں کر سکتی۔ وزیر اعظم بھی وہی شخص بن سکتا ہے جسے
مسلم طبقہ پسند کرتا ہو۔ اپنی سیکولر شبیہ بنانے کیلئے ہی مودی ہوں یا نتیش
، مسلمانوں کو پٹانے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اور کانگریس
سمیت تمام علاقائی جماعتوں میں مسلم ووٹ بینک کو ہتھیانے کی دوڑ لگ گئی ہے۔
اعداد و شمار کی نظر سے دیکھا جائے تو 85 فیصد ہندوؤں کے مقابلے میں 15فیصد
مسلمانوں کا کوئی مقابلہ نہیںلیکن بدلتے سماجی ماحول میں مسلمانوں کے ووٹنگ
پیٹرن اور سیاسی رویے کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان 15فیصد
مسلمانوں میں ملک کی سیاسی تصویر بدلنے کی طاقت ہے۔ منڈل کمیشن نے مذہب کے
نام پر متحد ہوئے ملک کے ہندوؤں کو پوری طرح سے ذاتوں میں تقسیم کر دیا۔
ہندی پٹی میں نسلی بنیاد پر سماج وادی پارٹی ، بہوجن سماج پارٹی ، راشٹریہ
جنتا دل ، رالود اور انلو جیسی علاقائی پارٹیوں کا بول بالا ہواہے۔ ان
پارٹیوں کے پاس اپنا نسلی عوامی مقبولیت ہے۔ اس عوامی مقبولیت میں اگر مسلم
ووٹ بینک شامل جائے تو وہ کسی کو بھی اقتدار سے بے دخل کر سکتے ہیں۔ اتر
پردیش میں ملائم سنگھ تو بہار میں لالو یادو نے یادو- مسلم اتحاد کی بنیاد
پر ریاست میں اقتدار حاصل کیا اور مرکز کی یو پی اے کی حکومتوں میں سیاسی
سودے بازی سے لیکر وزارت کے عہدے تک حاصل کئے جبکہ مسلم ووٹروں کے بارے میں
خیال کیا ہے کہ وہ بہت ہی غیر مستحکم ہوتے ہیں اور جانبدارانہ ووٹنگ کرتے
ہیں۔ عام طور پر مسلمان ووٹر یہ چاہتا ہے کہ اس کا ووٹ بٹنے نہ پائے۔ وہ
اسی جماعت یا امیدوار کو ووٹ دینا پسند کرتے ہیں جو بی جے پی کو شکست دے
سکے۔ سیاسی ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ ہندو ووٹروں کے مقابلے میں مسلم
ووٹروں کی ووٹنگ کی شرح بھی کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ اپنی اسی فطرت کی وجہ سے
ہی مسلمان کسی جماعت یا امیدوار کو یکمشت ووٹ دیتے ہیں۔ ڈاکٹر سوروکمل دتہ
کہتے ہیں کہ بنگال میں اقتدار کی تبدیلی میں مسلمانوں کی اہم رول رہا۔
انہوں نے ممتا بنرجی کو متحد ہوکر ووٹ دیا جبکہ اس سے قبل یہی ووٹ
کمیونسٹوں کو ملتا تھا۔ اسی ووٹ بینک کے سہارے انہوں نے قریب تین دہائی تک
بنگال میں حکومت کی۔
حالانکہ مسلمان بظاہر کانگریس کے روایتی ووٹر رہے ہیں۔ اسی ووٹ بینک کے
سہارے پارٹی مرکز اور مختلف ریاستوں میں حکومت کرتی رہی لیکن کانگریس کے
دور حکومت میں جس طرح سے بی جے پی کارکنوں نے ایودھیا میں بابری مسجد
شہیدکی ، اس سے مسلمان بی جے پی کو اپنا جانی دشمن سمجھنے لگے۔ اس واقعہ
کیلئے کانگریس کو بھی ذمہ دار مانتے ہوئے وہ اس سے بھی ناراض ہو گئے۔ اس
ناراضگی کا فائدہ علاقائی جماعتوں نے اٹھایا اور وہ اس ووٹ بینک کے سہارے
مختلف ریاستوں میں اقتدار تک پہنچے۔ ملک بھر کی بات کریں تو مسلمانوں کی
آبادی تقریبا 15فیصد ہے لیکن بعض ریاستیں ایسی بھی ہیں جہاں ان کی اچھی
خاصی تعداد ہے۔ مغربی بنگال اور آسام ایسی ہی ریاستیں ہیں جہاں مسلمانوں کی
آبادی 30 فیصد سے بھی زیادہ ہے جبکہ کشمیر میں تو 90فیصد مسلمان ہیں۔ اتر
پردیش ، بہار ، کیرالہ ، آندھرا پردیش ، مہاراشٹر ، مدھیہ پردیش ، جھارکھنڈ
، تمل ناڈو ، راجستھان اور گوا میں مسلم ووٹر انتخابات کو باقاعدہ متاثر
کرتے ہیں۔ آل انڈیا کونسل فار مسلم اکنامک اپلفٹ منٹ کے اعداد و شمار بتاتے
ہیں کہ ملک میں 60 سے زیادہ ایسے اضلاع ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی 20 فیصد
سے زیادہ ہے۔ تقریبا 20 اضلاع ایسے ہیں جہاں 40 فیصد سے زیادہ مسلم آبادی
سکونت پذیر ہے۔ مسلم اکثریتی ریاستیں مغربی بنگال ، آسام ، کیرالہ ، اتر
پردیش ، بہار ، آندھرا پردیش اور کشمیر میں 200 سے زیادہ لوک سبھا نشستیں
آتی ہیں۔ کسی بھی پارٹی کی مرکز میں حکومت بنانے کیلئے یہ اعداد و شمار
کافی ہیں۔ گزشتہ دو دہائی سے سیاسی جماعتیں مسجد-مندر اور پھر مسلمانوں کی
حفاظت جیسے جذباتی معاملوں کو شہ دے کر ان کا ووٹ حاصل کرتے رہے ہیں لیکن
اس مرتبہ ایسا کوئی جذباتی مسئلہ سیاسی جماعتوں کے پاس نہیں ہیں۔ مسلمان
بھی اب ان مسائل کی بجائے ترقی ، تعلیم اور روزگار پر توجہ دینے لگے ہیں۔
مسلمانوں کی مذہبی تنظیم جماعت اسلامی ہند کی سیاسی اکائی ویلفیئر پارٹی آف
انڈیا کے قومی صدر مجتبی فاروق کہتے ہیں کہ نام نہاد قومی اور علاقائی
پارٹیوں نے مسلمانوں کے ووٹ توحاصل کئے ہیںا لیکن ان کی ترقی کیلئے کچھ
نہیں کیا‘ لہذا اب مسلمان متبادل تلاش کرنے لگے ہیں۔ اسی وجہ سے آسام سے لے
کر اتر پردیش تک میں کئی مسلم پارٹیوں کو عروج حاصل ہوا ہے۔فی الحال تو بڑی
پارٹیاں ان جماعتوں کی اہمیت سے انکار کرتے ہوئے انہیں محض ووٹ کاٹنے والی
اورمنفی رجحانات پیدا کرنے والا پارٹی بتا رہے ہیں ،لیکن مجتبی فاروق کا
کہنا ہے کہ آج انہیں ہرانے والی پارٹی کہا جا رہا ہے لیکن آج اگر یہ ہاریں
گی تو کل جیتیں گی بھی۔ ویسے ہماری پارٹی کی کوشش ہے کہ آنے والے لوک سبھا
انتخابات میں ایسے جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جائے اور مل کر الیکشن
لڑا جائے تاکہ مسلم ووٹوں کی تقسیم نہ ہوسکے۔
مسلم رائے دہندگان نام نہاد سیکولر لیڈروں کے سلسلے میں مکارانہ، دوغلی یا
احمقانہ ذہنیت کو ذرا غور سے دیکھنے کے بعد خود ہی فیصلہ کریں کہ مایاوتی
نے تین مرتبہ بی جے پی کی حمایت سے حکومت بنائی۔ ایڈوانی سے آشیرواد حاصل
کیا۔ بی جے پی لیڈر لال جی ٹنڈن کو اپنا بھائی بنا کر میڈیا کے سامنے راکھی
باندھی۔ ملائم سنگھ کلیان سنگھ سے بغلگیر ہوئے اور ان کی پارٹی سے اتحاد
بھی کیا۔ شردپوار بال ٹھاکرے کی دوستی کتنی گہری ہے سبھی جانتے ہےں شردپوار
گاہے گاہے نہ صرف بال ٹھاکرے کے گھر جاکر ملاقات کرتے ہیں بلکہ ٹھاکرے کی
اچھی صحت اور لمبی عمر کی دعائیں میڈیا کے سامنے مانگتے ہیں اور کیمروں کے
سامنے بال ٹھاکرے سے اپنی اختلاف سے پاک پرانی اور گہری دوستی کا فخریہ
اعتراف کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں راج ٹھاکرے نے گجرات کا دورہ کیا تھا اور
نریندر مودی کے مہمان بن کر اس کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ ہونے کا شرف حاصل
کیا تھا۔ اخبارات میں شائع ہونے والی تصویریں اور ٹی وی پر دکھائے جانے
والے مناظر اس کے گواہ ہیں۔ بقول راج ٹھاکرے وہ نریندر مودی کے سرکار چلانے
کے طور طریقوں سے بہت متاثر ہیں۔ اور اس کی خصوصی صحبت میں رہ کر ویسی ہی
سیاسی صلاحیت اپنانے کیلئے ہی مودی کے گھر مہمان بن کر رہے تھے۔ مگر عام
مسلمانوں کو تو چھوڑئے راج ٹھاکرے کی پارٹی کے سینکڑوں مسلم عہدیداران ،
شاکھا ادھیکش اور ہزاروں پارٹی ورکر جو مسلمان ہیں حتی کہ نائب صدر بھی
مسلم ہیں‘ کسی نے اس معاملے پر اف تک نہیں کی۔ راج ٹھاکرے سیکولر اور
مسلمانوں کے سچے ہمدرد ہیں۔ اسی طرح شردپوار کی بال ٹھاکرے کے گھر جاکر
مزاج پرسی کرنے بغلگیر ہونے اور پکی دوستی ہونے کا اعلان کرنے پر بھی
راشٹروادی پارٹی کے مسلم ایم ایل اے‘ کارپوریٹروں اور ہزاروں مسلم ورکروں
اور پارٹی عہدیداروں کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا بلکہ وہ شردپوار کو سیکولر
اور مسلمانوں کا سچا ہمدرد ہی بتاتے ہیں۔ شردپوار اور راج ٹھاکرے کی سالگرہ
پر انہیں مبارکباد دینے کیلئے مسلمانوں میں آپا دھاپی مچ جاتی ہے، مسلم
اکثریتی علاقوں میں مبارکباد کے پیغام عام کرنے کیلئے ہورڈنگ لگانے والے
کھمبے کم پڑ جاتے ہیں ۔اردو اخبارات میں اشتہارات کی بکنگ پہلے سے ہی کرلی
جاتی ہے۔ اسی طرح 2002 کے دوران جب مرکز میں بی جے پی کی سرکار تھی اور
گجرات میں نریندرمودی کی سرکار اپنی’ دیکھ ریکھ‘ میںنسل کشی میں مصروف تھی
تواس وقت آج کے صف اول کے سیکولر اور مسلمانوں کے’ سچی ہمدردی کے دعویدار
رام ولاس پاسوان، نتیش کمار، مایاوتی، اجیت سنگھ، چندرا بابو نائیڈو، نوین
پٹنائک، بی جے پی کے حامی تھے۔ان تغیر پذیر منظر ناموں میں علاوہ ابن
الوقتی کے کچھ نہیں پایا جاتا۔ آخر سیدھے سادے عوام کب تک بیوقوف بنتے رہیں
گے؟ |