سیاسی ڈائیلاگ بمقابلہ ڈرامہ اور فلمی ڈائیلاگ

ٓایک زمانہ تھا کہ جب ہمارے ملک کے ٹی وی ڈرامے اور فلمیں بہت شوق سے دیکھے جاتے تھے اور انکے ڈائیلاگ بھی بہت مشہور ہوتے تھے۔ مثلا: ہائے میرا انگلا، دہ جماعت پاس حوالدار، یٹٹے گٹے، مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا ں نئیں مردا، ۔۔۔۔۔ ٹھک ٹھک دی آواز آئیگی۔ نواں آیا ئیں سونیے۔ پہلی گولی میں تینوں اسلیئی ماراں گا کہ توں میری بھینڑ دا ڈوپٹا لایا سی ۔۔۔۔۔۔ او ہو ہو ہوہوہو ۔ وغیرہ وغیرہ۔ تاہم اب یوں لگتا ہے کہ عوام اور لیڈروں نے کچھ دوسرے قسم کے ڈائیلاگ اور نعرے رٹ لیے ہیں جنکا تسلسل کے ساتھ استعمال جاری ہے۔ مثلا: میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا۔ میں باغی ہوں۔ سونامی ۔انقلاب انقلاب۔گو گوگوگو۔وغیرہ وغیرہ۔

میں نہیں مانتا: تو ہمارے لوگوں کے ذہنوں پر ایسا سوار ہوگیا ہے کہ اب وہ ہر بات اور کام ، چاہے جائز ہو یا ناجائز، ٹھیک ہو یا غلط، میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا کی رٹ لگائے رکھتے ہیں۔ مثلا: ایک سیاستدان کے اعصاب پر ۔۔میں نہیں مانتا۔۔ کچھ اسطرح سوار تھا کہ نکاح کے ٹائم قاضی نے پوچھا کہ ۔۔۔ فلاں بنت فلاں ۔۔۔۔ اتنے حق مہر کے عوض آپکو دی۔۔۔ابھی قاضی نے۔۔ کیا آپ کو قبول ہے؟؟۔۔ بھی نہیں کہا کہ پہلے ہی بول اٹھے ۔ ۔ میں نہیں مانتا۔ میں نہیں مانتا۔ ایک لیڈر کی بیوی نے گھر میں لیڈر سے کہا کہ آج تو سالن میں نمک ٹھیک ہے۔ تو بولے کہ میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا۔ بیگم کی چھترول کرتے ہوئے بیگم نے یاد دلایا کہ کل بھی کی تھی ،تو آج پھر کیوں؟۔ بولے میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا اور پھر نوے سِروں مار کٹائی میں شروع ہو گئے ۔ ایک رپورٹر نے ایک لیڈر سے پوچھا کہ ملک میں شدید لوڈ شیڈنگ، بیروزگاری، مہنگائی اور بد امنی ہے۔ گیس کی شدید قلت کے باعث لوگوں کو بلیک میں دس دس روپے کی روٹی خریدنی پڑرہی ہے، تو بولے کہ میرے گھر میں تو سب کچھ ہے لہذا میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا۔ بلکہ ساتھ یہ بھی لگا دیا کہ میں نہیں جانتا۔ جب انہیں کہا گیا کہ جی لوگ لوٹے ہورہے ہیں، بولے کہ میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا۔جب میں لوٹا بنوں گا تو مانوں گا۔ جب پوچھا گیا کہ آپ پر الزام ہے کہ آپنے رشوت لی، شراب پی، پلاٹ لیا، بنک لون لے کر واپس نہیں کیا، بولے کہ میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا۔ان لوگوں کی کل تک جن کے ساتھ گاڑھی چھنتی تھی، مل بیٹھ کر کھاتے پیتے تھے آج انہی کو کہتے ہیں کہ میں انہیں نہیں مانتا، نہیں مانتا۔ یہ لوگ چار سال تک انہی اسمبلیوں میں بیٹھ کر ہر سرد و گرم میں شامل ہو کر عوام کا خون چوستے اور چسواتے رہے۔سب نے مل کر عوام کو ایسے ایسے درد دیے کی پونسٹان فورٹ سمیت تما م پین کلر کام چھوڑ گئیں۔ چار سال میں سینکڑوں بار بجلی، گیس اور پیٹرول بم عوام پر گر تے رہے، یہ اسمبلیوں میں سوتے رہے، اب کہتے ہیں کہ میں ان اسمبلیوں کو ہی نہیں مانتا۔۔۔نہیں مانتا ۔ایک ڈکٹیٹر صاحب کو سروے کر کے بتایا گیا کہ آپکی ریٹنگ گر گئی ہے لہذا آپ از خود گھر چلے جائیں، بولے کہ ایسے سروے مروے کو میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا۔ پھر آخر کار ا نہیں منواکر ہی بڑے گھر سے نکالا گیا۔اور آجکل قابلِ احترام عدلیہ کے ہر فیصلے کو کہا جارہا ہے کہ میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا۔ کیوں بھئی؟؟؟؟

میں باغی ہوں:آجکل کا سیاستدان کیا کہتا ہے سنیےَِ نام نہاد اصولوں پر سمجھوتہ نہ ہوا تو ۔ میں باغی ہوں۔ بچوں سے ناراضگی تو میں باغی ہوں۔ بیگم سے ناراضگی تو میں باغی ہوں۔ وزارت نہ ملی تو میں باغی ہوں۔ فنڈنہ ملے تو میں باغی ہوں۔ طبیعت کے مطابق عہدہ نہ ملا تو میں باغی ہوں۔ پان، سگریٹ، نسوار، گٹکا نہ ملا تو میں باغی ہوں۔ ملاقات کا ٹائم نہ ملا تو میں باغی ہوں۔ غرضیکہ انکے مزاج کے خلاف کوئی بھی بات ہو جائے تو یہ لوگ۔۔۔ ہاں میں باغی ہوں، ہاں میں باغی ہوں کا نعرہ مستانہ شروع کیے دیتے ہیں ۔ عوام آئے روز مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، گیس شیڈنگ، بیروزگاری ۔۔۔ دہشت گردی کے عفریت کا شکارہیں اسکے لیے یہ کبھی باغی نہیں ہوئے۔ عوام پر ڈرون حملے ہوتے رہے یہ کبھی باغی نہیں ہوئے۔ لاکھوں عوام گھر بار چھوڑ کر بے گھر ہوئے یہ باغی نہ ہوئے۔ سیلاب زدگان آجتک جھگیوں میں سسک رہے ہیں ، انکے لیے یہ باغی نہ ہوئے۔ خود کشیاں ، فاقے اور بچے فار سیل کے بورڈ لگے ہوئے دیکھ کر بھی یہ باغی نہ ہوئے۔ بجلی ، گیس، تیل کی قیمتیں روز بڑھ جاتی ہیں ، یہ باغی نہیں ہوتے۔ آٹا، گھی، چینی ، چاوال اور دالیں ہمسایہ ملک میں سستی اور ہمارے ہاں مہنگی ہوتی ہیں یہ باغی نہیں ہوتے۔منفی ریٹنگ رکھنے والے حکمران عوام پر مسلط ہیں، یہ باغی نہیں ہوتے۔ عوام کے نام نہاد وزیروں اور مشیروںپر چار سال میں لگ بھگ ایک کھرب روپے اڑ چکے عوام کو کوئی ریلیف نہ ملا، پر یہ باغی نہ ہوئے۔ ستر فیصد عوامی نمائندگان اسمبلیوںمیں چار سال سے چپ کے روزے رکھ کر عوام کے پیسے سے عیاشی کر رہے ہیں ، یہ باغی نہ ہوئے۔ عدلیہ پر سرِ عام زبان کے نشتر اور گھاﺅ لگا ئے جا رہے ہیں، شعلہ بیانیاں دکھائی جارہی ہیں، یہ باغی نہیں ہوتے۔ ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل مل اور دیگر قومی ادارے دیوالیے کے قریب پر یہ باغی نہیں ہوتے۔ آمریت آتی جاتی رہی ملک بر باد ہوتا رہا یہ باغی نہ ہوئے۔اغیار کی جنگ میں اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا رہا، ہزاروں جانیں گئیں پر یہ باغی نہ ہوئے۔ اپوزیشن چار سال تک گہری نیند سوتی رہی ، عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹتے رہے پر کوئی باغی نہ ہوا۔ کرپشن کی مثالیں قائم ہوتی رہیں، کوئی باغی نہ ہوا۔ ہمارا کشکول دنیا بھر میں پھر کر ہمیں ذلیل و رسوا کرتا رہا، کوئی باغی نہ ہوا۔ اگر باغی ہوئے تو صرف اپنے فائدے اور مفادات کے لیے ۔ کیوں ؟آخرکیوں۔؟؟

سونامی : سونامی کا لفظ کبھی کبھار سمندری طوفان کی شکل میں سننے کو ملتا ہے، پر اب سیاستدان چند ہزار کے مجمعے کو سونامی کا نام دیکر ایک دوسرے کو ڈرا ر ہے ہیں۔ بلکہ اب تو مائیں بھی بچوں کو گبھر سنگھ یا کتے بلی کی بجائے سونامی سے ڈرا کر سلاتی ہیں کہ بیٹا سو جا ورنہ سونامی آجائیگا۔ پتہ نہیں یہ کونسے سونامی کی بات کرتے ہیں۔ حالانکہ عوام تو پہلے ہی بجلی ، گیس، بیروزگاری، دہشت گردی اور دیگر خرافات کے سونامی کا شکار ہیں اس مری ،پٹی اور لٹی عوام کو پتہ نہیں مزید کونسے سونامی سے ڈرا یا جارہا ہے؟۔ جناب والا! سونامی اگر لانا ہی ہے تو حقیقت میں ایک سمندری سونامی ، کسی وائرس یا زہرِ ہلاہل کا سونامی لے آ ئیے تاکہ یہ دکھوں کی ماری عوام، روز روز کی جھِک جھِک سے ایک ہی بار اس سونامی کی نذر ہو کر سکون کی ابدی نیند سو سکے۔آجکل سونامی کو ایک نیا نام زو۔نامی بھی دیا گیا ہے۔ زو کا مطلب چڑیا گھر ہوتا ہے اور نامی سے آپ کو ئی بھی نتیجہ اخذ کرلیں؟؟

انقلاب: ایک اور نعرہ انقلاب بھی آجکل بہت مقبول ہوا ہے:سب کہہ رہے ہیں ہمیں ووٹ دیجئے گا، انقلاب ہم لائیں گے۔ ہمارے للو میاں بھی انقلاب کے بہت شوقین ہیں اور اپنے گھر میں ہمیشہ نت نئے انقلابات لا نے کے تجربے کر تے رہتے ہیں۔ مثلا: ایک بار گھر میں بچت کا انقلاب لانے کے لیے انہوں نے یہ کیا کہ: بچوں کو دود ھ کی جگہ پانی میں سفید رنگ ملا کر پلانا شروع کر دیا۔ گوشت کی جگہ شام کو قصائی کے پھٹے پر سے چھیچڑے لاکر پکانے شروع کر دیے۔ بھینس کے پائے کی جگہ مرغی کے پائے پکانے شروع ہوئے۔ سبزی کی جگہ شوربے والی گھاس، دال کی جگہ مختلف پتوں سے اترے بیج۔ بجلی کی جگہ اپنی چندیا، گیس کی جگہ بائیو گیس یعنی گٹر کا استعمال۔روٹی کی جگہ صرف بھنے چنے جو کہ پیٹ بھرنے کے ساتھ ساتھ گیس بنانے کے کام بھی آئے اور تمام گھر میں آرڈر دیے گئے کہ جونہی گیس اخراج کی ہاجت ہو فورا سلنڈر پر بیٹھ جائیں اور اس میں جمع کریں ۔ للو میاں کے اس گھریلو انقلاب سے تنگ انکی بیگم ایک روز پھٹی تو ایسی پھٹی کہ سیاستدانوں کے لتے لینے لگیں کہ یہ لوگ اقتدار میں آکر ہی کیوں انقلاب لانا چاہتے ہیں؟۔ کیا انقلاب یا عوام کی خدمت اقتدار کے بغیر نہیں ہوسکتی؟۔ اربوں روپے جلسے جلوسوں پر لگانے سے بہتر نہیں کہ یہ پیسہ عوام کی فلاح پر خرچ کر کے انقلاب لا یا جائے؟۔ یہ لوگ ملک میں تعلیمی انقلاب کیوں نہیں لاتے؟۔ زرعی انقلاب کیوں نہیں لاتے۔؟ روزگار انقلاب کیوں نہیں لاتے؟۔ بجلی گھروں کا انقلاب کیوں نہیں لاتے؟، صنعتی انقلاب کیوں نہیں لاتے؟۔ اللہ کے احکام پر چلنے کا انقلاب کیوں نہیں لاتے؟۔ ہم جیسوں کی غربت دور کرنے کا انقلاب کیوں نہیں لاتے؟۔ کرپشن دور کرنے کا انقلاب کیوں نہیں لاتے؟۔ اگر لاتے ہیں تو صرف نعروں کا انقلاب ہی کیوں لاتے ہیں؟۔

اس سے پہلے بھی اسی طرح کے انقلاب کی باتیں ہوتی رہیں پر عوام کو ہمیشہ مسائل کے انقلاب کا سامنا رہا۔للومیاں سمیت گھر میں کسی کے پاس بھی بیگم للومیاں کے سوالوں کو کوئی جواب نہ تھا؟؟

گو گو :اب رہ بات گو گو کی ، تو للو میاں کے بچے اکثر ٹی وی پر یہ نعر ے سنکر اسے گو گو پان مصالحہ سمجھتے رہے اور اکثر فرمائش کرتے کہ ہمیں وہاں ضرور لیجایا جائے تا کہ وہاں مفت میں بٹتا گو گو پان مصالحہ مل سکے۔ تاہم ایک روز للو میاں نے انہیں سمجھایا کہ بچو۔۔ ۔۔ گو گو ۔۔کوئی پان مصالحہ نہیں ہے بلکہ یہ نعرہ ا س شخصیت کے لیے لگا یا جاتا ہے جس سے کہ لوگ اسکی پالیسیوں کی وجہ سے ناخوش ہوں اور دیس نکالا کر نے کے چکر میں ہوں ۔بس پھر کیا تھا، اگلے روز جیسے ہی للو میاں کام سے واپس گھر میں داخل ہوئے تو گھر کے تمام درو دیوار گوگو کے نعروں سے بھرے پڑے تھے۔ اسکے ساتھ ساتھ للو میاں کے تمام کپڑے پھاڑ کر انکے بینر بنا کر گھر میں لگا دیے گئے تھے جن پر مختلف قسم کے نعرے درج تھے جنہیں پڑھ گر للو میاں کے ہوش اڑگئے ۔ مثلا: چھوٹی منی کی طرف سے بینر پر لکھا گیا کہ: میرے چاکلیٹ اور چپس کے بجٹ میں اضافہ کر ورنہ گو ابا گو۔ بڑی بیٹی کا بینر کچھ یوں تھا کہ: پچھلے دو سال سے میرے کپڑے اور جوتے نہیں بنے ، فورا کپڑے سلواﺅ ، میرے نئے ٹاپس لاﺅ ، میرے جیب خرچ میں اضافہ کر۔ ورنہ گو بابا گو۔ بیٹے صاحب کا بینر کچھ یوں تھا کہ : مجھ پر مار دھاڑ کا بوجھ کم کیا جائے، مجھے دوستوں کے ساتھ آزادی سے گھومنے پھرنے دیا جائے، پڑھائی اپنی مرضی سے کرنے دی جائے، ورنہ گو پاپا گو۔ دوسرے بیٹے صاحب کچھ یوں گویا تھے کہ: گھر سے مار پیٹ کے تما م اوزار ہٹا ئے جائیں اور مجھے رات گئے تک گھومنے پھرنے کی آزادی دی جائے، نیا فون بلیک بیری بمعہ بلو ٹوتھ کے لیکر دیا جائے ورنہ گو ابو گو۔ للو میاں کی بیگم بھی کسی سے پیچھے نہ رہیں اور انکا بینر کچھ یوں تھا کہ : فورا گھر میں لارج سائز کا رنگین پلازما ٹی وی لایا جائے ورنہ گو میاں گو۔ ایک اور بینر پر لکھا تھا کہ : میں گھر کے کام کاج کر کر کے کھپ چکی ہوں ڈیوٹی سے آکر میرا ہاتھ بٹایا جائے یا پھر فالتو کاموں کے لیے ماسی رکھوائی جائے اور پچھلے بیس سال میں کیے گئے تما وعیدوں، بالخصوص میرے جھمکوں والا و عیدہ فورا پورا کیا جائے ورنہ گو منے کے ابا گو۔للو میاں نے یہ صورتحال دیکھی تو فور ا اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور اسوقت کو کوسنے لگے جب انہوں نے گوگو کے معنی ان بچوں کے گوش گزار کیے تھے۔اچانک سب سے چھوٹی اور للو میاں کی پیاری بیٹی اپنا بینر لیکر کمرے سے نمودار ہوئی جس پر لکھا تھا: میرے پیارے بابا جانی آپ ہی ہیں ہم سب کا سہارا ۔۔ آپ کہیں نہ گو کہیں نہ گو،میرا ہے بس یہ ایک ہی نعرا للو میاں نے آگے بڑھ کر اپنی پیاری بیٹی کو سینے سے لگا لیا۔
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 247477 views self motivated, self made persons.. View More