ابراہیم حسین
محققین نے موٹر سائیکل کے فوائد و نقائص پہ صفحات کے صفحات سیاہ کیے ہیں،
آج ہم ”ذراہٹ“ کے اس کے فوائد پر روشنی ڈالیں گے اور روشنی بھی اس موٹر
سائیکل کی ڈالیں گے جس کی ہیڈ لائٹ ماں کی دعاء کے سہارے جل بجھتی ہو۔ موٹر
سائیکل کے فوائد متعدی ہیں، مالک کے علاوہ دوست، یار، پڑوسی حتٰی کہ تھوڑی
سی واقفیت رکھنے والا بھی کسی بھی وقت آپ سے بائیک مانگنے کی ”موڈ“میں
آسکتا ہے ۔
فیکٹری، کارخانہ، کمپنی یادفترمیں کوئی اس ”گوہر نایاب“ کو دسترس میں رکھتا
ہو، متعلقین اس سے پینگیں بڑھانے میں کائی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے ، منزل
مقصود نہ سہی قریب تک محظوظ ہونے کا موقع ضائ ہونے نہیں دیتے۔ کل جیدی سے
پوچھا خیریت تو ہے ابھی تک دفترمیں بیٹھے ہو ، گھر جانے کا ارادہ نہیں ہے
کیا،نصیب دشمناں کہیں بھابی سے ان بن تو نہیں ہوئی؟ کہنے لگا”نہیں یار!ایسا
کوئی مسئلہ نہیں، ذرا ان ”مفت خوروں“ کو تتر بتر ہونے دوپھر بائیک نکالیں
گے۔“
بعض مفت خورے موٹر سائیکل کے فوائد سے لطف اندوز ہونے میں بڑے مشّاق ہوتے
ہیں، ایسے دھڑلے سے لفٹ مانگتے ہیں جیسے برسوں کا قرض آج وصول کرکے ہی رہیں
گے۔ کل کی بات ہے میں موٹر سائیک پر سوار سوچوں میں گم جارہا تھا کہ ایک
تیز پکارنے مجھے بریک لگانے پر مجبور کردیا، غور سے دیکھنے کے بعد چشم تصور
سے اپنے تمام قرض خواہوں پہ نظر دوڑائی، اس کی شکل و صورت کسی کے مشابہ نہ
نظر آئی، قریب پہنچنے پراستفسارانہ نظروں سے دیکھا تو بڑی معصومیت سے کہا
”بھائی جان!ذراآگے تک چھوڑدیں۔“
مفت خوروں کاذکرچل پڑاہے تو بارے ایک دو کا کچھ اور بیان ہوجائے۔ مفت خوروں
کی ایک قسم مہذب بھی ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ کسی جگہ ایک علاقے کے
دو تین افرادکام کرتے ہوں،آپس میں بھاؤ تاؤ کرکے ایک موٹر سائیکل پر تین
چار ساتھی محوسفر ہوتے ہیں۔ مالک کی تھوڑی رقم بچ جاتی ہے اورمفت خوروں کو
رقم کے ساتھ مفت سہولت بھی بہم پہنچ جاتی ہے۔ جیدی کا کہنا ہے ”گورنمنٹ ان
مفت خوروں کی مفت سہولت سے جل بھنتی رہتی ہے، اس لیے گاہے بگاہے ڈبل سواری
پہ پابندی لگاتی ہے۔“
مفت خوروں کی بڑھتی ہوئی تعدادسے جیب کتروں نے بھی فائدہ اٹھاناشروع کیا ہے،
کسی چوک پہ گربہ مسکین کی طرح لفٹ مانگتے ہیں دوسرے اسٹاپ تک جیب خالی
کرچکے ہوتے ہیں۔ شنید ہے کہ یہ کام لیڈیزبھی سرانجام دینے لگی ہیں۔ جیدی نے
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا”میکپ سے اٹی صنف نازک کو لفٹ دینے والے جینٹل
مین یاد رکھیں کہ افسوس سے احتیاط بہتر ہے۔“
بچپن میں ہم میلے میں موت کا کنواں دیکھنے جایا کرتے تھے، جس میں ایک
چیمپین لکڑی کے کنویں میں موٹر سائیکل چلاتا ہے ،کنویں کے درودیوارپر موٹر
سائیکل چلانا اس کے بائیں ہاتھ کا کام ہوتا ہے، کنویں کے سرے تک موٹر
سائیکل پہنچاتا ہے، چلاتے چلاتے دونوں ہاتھ بڑی مہارت سے چھوڑدیتا ہے، کبھی
کبھار ”گرتے ہیں بڑے شوق سے شہسوار میدان جنگ میں‘ ‘والا منظر بھی دیکھنے
کو ملتا ہے۔
موجودہ دور میں سائنس نے کافی ترقی کرلی ہے، موت کاکنواں دیکھنے اب آپ کو
میلے جانے کی زحمت نہیں گوارا کرنا پڑے گی، جگہ جگہ موت کے کنویں دکھائی
دیں گے، موٹر سائیکل کااگلا ٹائر اٹھاکر ”ویلی“ مارنااب بچوں کاکھیل ہے۔
بھری سڑک ہویاخطرناک پل، پاگل پن کا دورہ کہیں بھی پڑسکتا ہے۔
ریس لگانے کے لیے بھی جگہ کی تعیین اور باقاعدہ پلان کی ضرورت نہیں
رہی،اشاروں ہی اشاروں میںبات ہوجاتی ہے اور پھر کسی کو خاطر میں نہیں لایا
جاتا، تنکوں کی طرح کٹ مارکر”حشرات الارض“ کواڑادیتے ہیں، پیچھے مڑ کر نگاہ
غلط ڈالنے ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی، آخر ”متاع زندگی“ پانے کے لیے اسی
طرح ہی مقابلہ ومسابقہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ موت کے کنویں کے کسی
چیمپئن کو پلٹنے جھپٹنے جھپٹ کر پلٹنے میں میں فٹ پاتھ سے ٹکراکر ہاتھ پاؤں
یاسر تڑواتا دیکھیں تو پریشانی اور اچنبھے کی بات نہیں ہے کیونکہ گرتے ہیں
بڑے شوق سے شہسوار میدان جنگ میں۔ |